• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • 9محرم الحرام ۔ ذکر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام ۔ ۔غیور شاہ ترمذی

9محرم الحرام ۔ ذکر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام ۔ ۔غیور شاہ ترمذی

بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم۔

دوستان عزیز ۔ ابو سفیان کے 3 یا 4 بیٹے تھے جن میں معروف حاکم شام معاویہ بن ابو سفیان ہی ہوئے ہیں۔ ان کی کئی بیٹیاں بھی تھٰیں جن میں سے ایک ام حبیبہ رضی اللہ عنہا تھیں جو ہماری ام المومنین ہیں اور ایک دوسری بیٹی کا نام جامدیہ تھا جنہیں میمونہ بھی کہا گیا ہے۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے فضائل سے کتابیں بھری ہیں مگر اُن کی ایک فضیلت بہت ہی معروف ہے جو سکول، کالج کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ام المومنین حبیبہ رضی اللہ عنہا کی شادی ابو سفیان کے قبول اسلام کے بعد ہی ہوئی تھی۔ ایک دن ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ اپنے حجرہ میں بیٹھی تھیں کہ اُن کے والد ابو سفیان ملنے کے لئے آ پہنچے۔ باپ جب ملنے کے لئے اندر آئے تو ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے فوراً وہ بستر لپیٹ دیا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمایا کرتے تھے اور اپنے والد کو دوسری مسند پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

ابو سفیان کو سبکی محسوس ہوئی اور کہا کہ “ام حبیبہ ، تم نے ہماری بڑی توہین کی ہے۔ تمہارے باپ ہونے کے علاوہ دنیا ہمیں عرب کا بے تاج بادشاہ کہتی ہے۔ ہماری دھاک اور ہمارا دبدبہ پورے عرب میں پھیلا ہوا ہے۔ تم نے ہمیں کوئی معمولی آدمی سمجھا ہے جو یہ اچھی اور اونچی مسند پر بچھے بستر پر ہمیں بٹھانے کی بجائے دوسری نیچی مسند پر بٹھا رہی ہو”۔

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے بڑے ادب سے جواب دیا کہ “بےشک آپ میرےباپ ہیں اور بہت واجب الاحترام ہیں مگر اُس اونچی مسند پر میں آپ کو نہیں بٹھا سکتی کیونکہ وہ پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسند ہے۔ جو میرے شوہر تو ہیں مگر وہ سرور کائنات بھی ہیں”۔ مؤرخین نے یہ واقعہ بیان کرنےکے بعد لکھا ہے کہہ یہ واقعہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کی عظمت کی دلیل ہے کہ مسند رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے باپ کو بھی بیٹھنے نہیں دیا حالانکہ اُس وقت وہ مسلمان بھی ہو چکے تھے کیونکہ اگر وہ کافر ہوتے تو پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی کافر کی کافر بیٹی سے شادی نہ کرتے اگرچہ لونڈی ضرور بنا سکتے تھے۔ ہم بھی یہی عرض کرتے ہیں کہ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کی عظمت کو لاکھوں سلام کہ جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسند پر باپ کو بھی نہ بیٹھنے دے۔۔

اب ہم ذکر کرتے ہیں دوسری بہن جامدیہ یا میمونہ کا کہ جس کی شادی ابو مرہ ثقفی سے ہوئی تھی جو خاندان بنی ثقیف سے تعلق رکھتے تھے۔ جس طرح شرافت میں بنی ہاشم کا پورے عرب میں چرچا تھا، بنی کلاب کا بہادری میں نام تھا، بنی امیہ سیاست کے خوگر تھے بالکل اسی طرح بنی ثقیف کا نام حُسن میں مشہور تھا۔ اس خاندان کے مرد اور عورت اپنے زمانہ میں اپنی خوبصورتی میں مشہور تھے۔ اس خاندان کے امیر ابومرہ ثقفی کی خوبصورتی کا بھی ایک عالم میں چرچا تھا جس کی شادی ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن جامدیہ سے ہوئی تھی۔ اس خاتون کی ایک ہی بیٹی ہوئی جس کا نام تھا ام لیلیٰ ۔ اب ذرا غور سے سمجھیے گا کہ ابومرہ ثقفی کا رشتہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم زلف کا تھا۔ اس طرح ابو سفیان اس خاتون جناب ام لیلیٰ کے سگے نانا ہوئے جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سگے خالو ہوئے،۔ حاکم شام معاویہ بن سفیان کا رشتہ جناب ام لیلیٰ سے سگے ماموں کا ہوا اور یزید بن معاویہ اسی حساب سے جناب ام الیلیٰ کا سگا ماموں زاد ہوا ۔۔ اور جناب ام لیلٰیٰ یزید کی پھوپھو زاد بہن ہوئیں۔ جناب ام لیلیٰ بھی اپنے خاندان بنو ثقیف کے وصف کی طرح حُسن و جمال میں یکتا تھیں۔

جب یہ جوان ہوئیں تو اِن کے والد ابومرہ ثقفی کو ان کی شادی کی فکر ہوئی۔ مگر اُن کی یہی شرط تھی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی حسب و نسب میں سب سے اونچے خاندان میں ہی کریں گے۔ ابومرہ ثقفی نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی اپنے بھائی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا اور اسی لئے وہ خاندان بنو ہاشم کی شرافت اور اونچے حسب و نسب سے خوب آگاہ تھے۔ یہ دل میں اپنی بیٹی کے عقد کا پیغام مولا امام حسینؑ کے لئے لے کر سنہ 41 یا 42 ہجری میں مدینہ تشریف لائے۔ مدینہ میں جب اِن کی ملاقات امام حسینؑ سے ہوئی۔ اِس نے مولا پاکؑ سے بات چیت کا آغاز کیا اور عرض کی کہ “مولا، میں ایک دفعہ آپ کے نانا پاکﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ آیا تھا اور میں نے اُن سے ایک حدیث سنی تھی۔ مجھے وہ حدیث صحیح طرح یاد نہیں ہے۔ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں، اگر کہیں بھول جاـؤں تو مولاؑ آپ تصحیح فرما دیجئے گا”- مولاؑ نے فرمایا کہ ہاں سناؤ کہ وہ کون سی حدیث ہے۔

اُس نے کہا کہ مولاؑ میں نے آپ کے پاک ناناؐ سے سنا تھا کہ اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو اُسے حل کروانے کے لئے کسی ایسے شخص کے پاس جانا جو تمہاری دانست اور علم میں اپنے دور کا سب سے بڑا عالم ہو۔
مولاؑ نے فرمایا کہ ہاں، تم نے ٹھیک بیان کیا۔ میرے نانا پاکؐ نے بالکل یہی فرمایا۔
ابومرہ کہتا ہے کہ مولا، اس سے آگے بھی آپ ؑکے نانا پاکؐ نے فرمایا کہ اگر وہ حسب و نسب اور شرافت میں بھی سب سے اچھا ہو تو اور بھی بہتر ہے۔
مولا پاکؑ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔
ابومرہ نے مزید کہا کہ پاک نبیؐ کی حدیث کے مطابق ایسا عالم اگر حسب و نسب، شرافت کے ساتھ حُسن اور شائستگی میں بھی سب سے بہتر ہو تو مشکل حل کروانے کو اور کیا چاہیے۔
مولا حسینؑ نے پوچھا، اے ابومرہ میں جانتا ہوں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟۔ اور ہم اہل بیتؑ کے یہاں سے کوئی بھی کبھی بھی اپنی جائز حاجات کے پورا ہوئے بغیر واپس نہیں گیا۔ اس لئے کھل کر بیان کرو کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو؟۔
ابومرہ گویا ہوا کہ مولاؑ ، میں اس وقت زمانہ کے سب سے بڑے عالم، سب سے اعلیٰ خاندان اور سب سے نیک امام وقتؑ کے سامنے دو زانو ہوں۔ جو دنیا کا سب سے بڑا آدمی ہے۔ جس کے پاس علم کے ساتھ نرمی ہے۔ جس کا صبر بے مثال ہے۔ جس کی سخاوت کی ساری دنیا معترف ہے۔ جس نے فقط اسلام کی سربلندی اور حفاظت کے لئے بنو امیہ کی ریشہ دوانیوں کو مسلسل برداشت کیا ہوا ہے۔ جس کے دستر خوان پر مہمانوں، فقیروں اور مسافروں کے لئے کئی کھانے پیش کئے جاتے ہیں مگر وہ خود قناعت کی زندگی کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آپ وہ سخی ہیں جو مانگنے والے کو بن مانگے عطا کرتے ہیں اور کبھی کسی کا سوال مسترد نہیں کرتے۔۔

مولا امام حسینؑ نے فرمایا کہ اومرہ کہہ جو تیرے دل میں ہے۔ میں تمہارا سوال رد نہیں کروں گا اور اللہ پاک کی عطا سے تمہاری مشکل کا حل دوں گا۔
ابومرہ ثقفی نے عرض کی کہ مولا میری بیٹی ام لیلی کو اپنے عقد میں قبول فرمائیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی اپنے زمانہ کے سب سے اعلی ترین ہستی کے عقد میں ہو۔
مولا امام حسینؑ نے عقد کی درخواست قبول فرمائی اور اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام سے مشورہ اور اجازت سے شادی کی تاریخ دے دی۔ شادی کے بعد جناب ام لیلیٰ جب اہل بیتؑ کے گھر تشریف لائیں تو اُن کے والد نے انہیں یہی نصیحت کی کہ بیٹی کبھی خود کو اہل بیتؑ کی بیٹیوں کے برابر مت سمجھنا اور ہمیشہ اُن کی کنیز بن کر رہنا۔ جناب ام لیلیٰ سے پہلے مولا حسینؑ کی شادی ایران کی شہزادی بی بی شہر بانوؑ سے ہوئی تھی جن سے امام علی بن حسینؑ پیدا ہوئے۔ اور جنابہ ام الیلیؑ سے شادی کے بعد امام حسینؑ کی شادی جمل کے رئیس امراؤ بن قیس کی بیٹی جناب ام رباب سلام اللہ علیہا سے ہوئی جن سے بی بی سکینہ سلام اللہ علیہ اور شہزادہ علی اسغرؑ کی ولادت ہوئی۔ جب مولا امام حسینؑ کے پہلے فرزند امام زین العابدینؑ پیدا ہوئے تو آپ نے بیٹے کو کپڑے میں لپیٹا اور مسجد میں آ کر 2 رکعت نماز ادا کی۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا کہ “اے میرے خدا، یہ نعمت تُو نے مجھے عطا کی۔ اسے میں تیرے ہی سپرد کرتا ہوں۔

امیرالمومنین مولا علی مشکل کشاء علیہ السلام کو خبر ہوئی تو آپ مسجد تشریف لائے۔ آپؑ نے بھی 2 رکعت نماز ادا کی اور اللہ پاک سے عرض کی کہ یا اللہ میرا حسینؑ اپنے بیٹے علی زین العابدینؑ کو آپ کے سپرد کر گیا ہے۔ اب اسے میں مانگنے آیا ہوں۔
اس طرح امیر المومنین مولا علی مشکل کشاء علیہ السلام اپنے ساتھ لے آئے مولا امام سجاد علیہ السلام کو اور فرمایا کہ اسے میں نے خدا سے مانگ لیا ہے۔ اب اسے میں پالوں گا۔ یہ میرا بیٹا بن کر رہے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مولا امام مشکل کشاء علیہ السلام دنیا میں رہے، تب تک مولا امام زین العابدین علیہ السلام کی پرورش مولا امام علی علیہ السلام کرتے رہے۔۔

کچھ سالوں بعد مولا امام حسینؑ کے یہاں شہزادہ علی اکبرؑ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ پچھلی دفعہ کی طرح پھر امام حسینؑ نے شہزادہ کو کپڑے میں لپیٹا اور مسجد میں نماز ادا کٓر کے اللہ کے سپرد کر کے گھر آ گئے۔ شہزادہ کی پیدائیش کے وقت مولا علی مشکل کشاء علیہ السلام دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ثانی زہرا پاک بی بی زینبب سلام اللہ علیہا کو خبر ہوئی تو وہ برقعہ پہن کر مسجد میں گئیں۔ نماز ادا کی اور اللہ پاک سے بچے کو مانگ کر اپنے گھر لے آئیں۔ اور کچھ اس طرح پرورش کی کہ شہزادہ علی اکبر علیہ السلام کو زمانہ علی بن زینبؑ کے نام سے جانتا تھا۔ شہزادہ گود میں رہتا تو پھوپھی زینبؑ کی گود میں۔ کھاتا پیتا تو اُن سے۔ کوئی شے مانگنی ہوتی تو وہ بھی بی بی زینبؑ سے۔ مولا امام حسینؑ اکثر کہتے کہ کبھی شہزادہ علی اکبرؑ اُن سے بھی کچھ مانگے۔ تو بی بی زینبؑ کہا کرتیں کہ میرا شہزادہ ماں کے ہوتے کیوں کچھ مانگے؟۔ میں موجود ہوں نا۔ یوں شہزادہ علی اکبرؑ نے کبھی بی مولا حسینؑ سے کچھ نہیں مانگا۔ مولا حسینؑ کی ہمیشہ خواہش رہی کہ علی اکبرؑ کبھی اُن سے بھی کچھ مانگے۔ مولا حسینؑ کی یہ خواہش روز عاشور نماز فجر سے کچھ پہلے شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے پوری کی اور سوال کیا کہ بابا، صبح مجھے جنگ کی اجازت سب سے پہلے دیجئے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں موجود رہوں اور آپ پر دوسرے قربانی دینے میں سبقت لے جائیں۔ ہائے کیسے صبر کیا ہو گا مولا امام حسین ؑ نے اس انوکھی خواہش پر۔

مولا حسینؑ نے فرمایا کہ “علی اکبرؑ ۔ آج ہمارے مؤذن حجاج کی بجائے تم اذاان کہو۔ ہائے کہ آج کے بعد کوئی اس آواز میں اذان کو نہیں سن پائے گا”۔
شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے اذان شروع کی۔ اِدھر شہزادہ کی آواز ہوئی “اللہ اکبر ۔ اُدھر لوگوں کے کانوں میں ہم شکل پیغمبر شہزادہ علی اکبرؑ کی آواز رسول خداؐ کی آواز کی طرح پہنچی۔ اس اواز کا بلند ہونا تھا کہ کربلا میں خواتین خیموں سے باہر نکلیں اور مدینہ میں شہزادی بی بی صغریٰ ؑ تڑپ کر اٹھیں۔
کربلا سے مدینہ تک سسکیوں، چیخوں میں اذان ختم ہوئی، نماز ادا ہوئی اور جنگ شروع ہوئی۔ مولا امام حسینؑ کے کانوں میں کچھ وقفوں سے آواز آتی “مولا میں گر گیا” اور مولا بجلی کی تیزی سے شہید کی لاش پر پہنچتے۔ ظہر تک مولا حسینؑ 50 سے زیادہ لاشیں اٹھا چکے ہیں اور اب باقی رہ گئی صرف اولاد بنو ہاشم۔ امام مظلومؑ کے سامنے کھڑے تھے مسلم بن عقیلؑ کے بچے، مولا عباسؑ اور اُن کے 3 بھائی، امیرالمومنینؑ کے دوسرے بیٹے، امام حسنؑ کے بیٹے، اور شہزادہ علی اکبرؑ ۔ مولا ؑ فرمایا کہ ہاں علی اکبرؑ ۔ اب تم جاؤ۔ مگر خیمہ میں جا کر پھوپھیوں سے اجازت لو، ماں ام لیلیٰ سے اجازت لو، بہنوں سے وداع لو اور تمام خواتین کو سلام رخصت لو۔ شہزادہ علی اکبرؑ  خواتین سے اجازت لیتے ہیں اور جب اپنی ماں ام لیلیؑ کے خیمہ میں آتے ہیں اجازت لینے کے لئے تو شہزادہ ؑ کے جواب میں ام لیلیؑ کہتی ہیں کہ “اکبر بیٹا، ابھی زندہ ہو۔ میں تو منت مانے بیٹھی ہوں کہ تیری لاش آئے اور میں اپنے لعل کی میت پر نماز شکرانہ ادا کروں۔ سنو علی اکبرؑ ۔ میرا معاملہ بہت نازک ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اس لعین یزید کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے۔ اگر تُو مولا حسینؑ پر قربانی دینے میں پیچھے رہ گیا تو کہیں دنیا یہ نہ کہہ دے کہ ماں نے روک لیا ہو گا۔ بیٹا تیری ماں کی عزت کا سوال ہے۔ اپنی جان کی قربانی دے کر ان یزیدی ملعونوں کو بتا دو کہ ہمارے لئے رشتہ داریوں کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ہم حسینٰیؑ ہیں اور اہل بیتؑ کے غلام ہیں”۔

شہزادہ علی اکبرؑ جواب دیتے ہیں کہ “اماں۔ ایسی جنگ کروں گا کہ یہ فوج اشقیاء قیامت تک اس جنگ کی دہشت سے کانپتے رہیں گے اور تمہاری عزت ہمیشہ سربلند رہے گی”۔

ماں سے رخصت ہو کر شہزادہ علی اکبرؑ پہنچے اپنی پالنے والی ماں بی بی زینبؑ کے خیمہ میں۔ مولا حسینؑ بھی وہاں موجود ہیں۔ آ کر سلام کیا۔ بی بیؑ نے دعائیں دیں، وہیں گود میں سر رکھ کر لیٹ گئے۔ مولا حسینؑ نے کہا بہن آج سنبھل کر بات کرنا، علی اکبرؑ کچھ بات کرنے آئے ہیں۔ علی اکبرؑ کہتے ہیں کہ اماں ۔ میں نے ساری عمر کوئی بات پوچھی تو آپ سے ۔ کچھ مانگا تو بھی آپ سے۔ کوئی سوال کیا تو بھی آپ سے۔ آج ایک سوال پھنس گیا ہے جس کا جواب دیجئے۔ بی بی زینبؑ نے فرمایا، پوچھو میرے لعل کیا پوچھنا چاہتے ہو۔

شہزادہ علی اکبرؑ نے سوال کیا کہ اماں یہ بتائیں کہ خدا کی نظر میں آپ کا رتبہ بلند ہے یا دادی پاک سیدہ سلام اللہ علیہا کا۔ جواب میں زینبؑ کہتی ہیں کہ علی اکبرؑ بیٹا ۔ اتنے سمجھ دار ہو کر یہ کیسا سوال کرتے ہو؟۔ میں تو ماں زہرا سلام اللہ علیہا کی ادنیٰ سی کنیز ہوں۔ کہاں میں اور کہاں خاتون جنت سیدہ سلام اللہ علیہا۔
یہ سن کر شہزادہ نے گود سے سر اٹھایا اور کہا کہ جب دادی زہرہ سلام اللہ علیہا کا رتبہ آپ سے زیادہ ہے تو ایک کام کیجئے کہ اپنے بیٹے کو دادی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیٹۓ پر قربان کر دیجئے۔ مولا حسینؑ نے فرمایا کہ زینبؑ میں نے کہا تھا کہ سنبھل کر بات کرنا۔ بی بی زینب سلام اللہ حیران و ششدر کھڑی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہائے علی اکبرؑ تم مجھ سے موت کی اجازت مانگنے آیا ہے۔ جا میرے بیٹۓ میرے بھائی پر اپنی جان قربان کر دے۔ دونوں بہن بھائیوں نے کھڑے ہو کر لباس پہنایا ، اور شہزادہ علی اکبرؑ کو رخصت کیا۔

شہزادہ علی اکبرؑ کو میدان میں بھیجنے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے اپنے کڑیل جوان کے سر سے پیر تک ایک مایوسانہ نظر ڈالی اور اس کے بعد آنکھوں کو نیچے کر لیا اور رونا شروع کر دیا۔۔۔ پھر اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے محاسن مبارک کو پکڑا اور بارگاہ رب العزت میں یوں فرمایا: ’’خدایا! گواہ رہنا اس جوان کو اس قوم کے ساتھ جنگ کے لئے بھیج رہا ہوں جو سیرت میں، صورت میں، رفتار میں گفتار میں تیرے رسول پاکؐ کی شبیہ ہے جب بھی میں تیرے رسولؐ کی زیارت کا مشتاق ہوتا تھا تو اس کو دیکھ لیتا تھا‘‘۔

شہزادہ علی اکبرؑ سپاہ یزید پر حملہ آور ہوئے اور بہت سارے یزیدی سپاہیوں کو واصل نار کیا۔ رفتہ رفتہ زخموں کی تعداد جسم مبارک پر بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ پیاس میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ علی اکبرؑ بے تاب ہورہے تھے۔ اسی حال میں ایک شقی نے سراقدس پر وار کیا جس کی وجہ سے علی اکبر کی آنکھوں کے سامنے خون کا پردہ حائل ہوا، علی اکبر گھوڑے کی پیٹھ پر نہ سنبھل سکے۔ گھوڑے کی گردن پر باہیں ڈالی تاکہ زمین پر نہ گریں مگر گھوڑا دشمنوں کے ازدحام اور خنجر وشمشیروں کے واروں کے بیچ پھنس گیا۔ یزیدی لشکریوں نے گھوڑے کے گرد گھیرا ڈالا اور ہر کوئی دستیاب ہتھیاروں سے شبیہ رسول اللہ (ص) کے جسم مطہر پر وار کرنے لگا۔ بقول راوی «فقطعوہ اربا اربا» ظالموں نے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔۔۔

شہزادہ علی اکبرؑ کی صدائے الوداع امام کے کانوں میں گونجی: ’’يا ابتاہ عليك مني السلام ھذا جدی رسول اللہ ــ ۔۔ بابا جان، خدا حافظ میرا آخری سلام قبول کیجئے، یہ ہیں میرے جد رسول اللہ (ص) جو میرے سرہانے بیٹھے ہیں اور پانی کا بھرا جام مجھے پلارہے ہیں‘‘۔۔۔
امام (ع) سرعت کے ساتھ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش پر پہنچے۔ ’’ووضع خدہ علی خدہ‘‘ آپ نے چہرہ کو بیٹے کے چہرے پر رکھا اور فرمایا: “علی الدنيا بعدك العفا ــ تیرے جانے کے بعد اس دنیا پر اُف اور افسوس ہے”۔

اس کے بعد ــ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقولہ زیارت نامے کے مطابق ۔۔ امام (ع) نے بیٹے کے خون میں سے ایک چلو خون بھرا اور اسے آسمان کی طرف اچھالا اور عجب یہ کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا۔۔

حضرت زينب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو تیزی سے خیام سے باہر آئیں اور فریاد کرکے فرمایا: “يا اخیاہ و يابن اخاہ ـ اے بیٹے اور اے میرے بھتیجے” اور اکبر کے جسم بےجان پر گرگئیں۔
امام نے زینب کو سنبھالا اور خیموں کی طرف واپس لوٹایا اور جوانوں کو آواز دی: ’’اپنے بھائی کی لاش اٹھاؤ اور خیموں میں پہنچا دو” ۔۔۔
ہاں! امام (ع) تمام شہداء کو خود اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے تھے مگر دو شہیدوں کو نہ لاسکے جن کی شہادت نے آپ (ع) کی کمر توڑدی تھی؛ بیٹا علي اكبر(س) ؛ اور بھائی ابوالفضل العباس (س)۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الا لعنة الله علی القوم الظالمینَ-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply