جس پر بیتے وہی جانے

ساس کچھ دنوں سے کافی پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ بیٹےکے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ پوچھتا۔
ایک دن بہو نے پوچھا امی آپ کیوں پریشان اور دکھی ہو رہی ہیں۔ ایک دن تو بیٹیوں کو بیاہنا ہی ہوتا ہے۔
انہیں پرائے گھر بھیجنا ہی پڑتا ہے۔ جیسا کہ آپ اور میں بھی تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر پرائے گھر میں آئیں تھی اور اب یہی ہمارا گھر ہے۔ ۔ ۔
نہیں بیٹا میں اپنی بیٹی کے پرائے گھر میں جانے کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں۔ ۔۔۔
میں تو اس لیے پریشان ہوں کہ اس کے سسرال والوں نے جو منہ پھاڑ کر لاکھوں کا جہیز مانگ لیا ہے وہ کہاں سے پورا ہو گا۔
لوگ تو بالکل بھی خدا کا خوف نہیں کرتے۔ بھلا بیٹیوں سے بڑھ کر بھی کوئی قیمتی شے ہوتی ہے۔
لیکن لوگوں کو تو بس چیزوں سے محبت ہے انسانوں کی تو کوئی قدر ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔
ماں جی یاد ہے جب آپ نے اپنے بیٹے کی شادی کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!! میری ماں بھی اُس وقت ایسے ہی دکھی اور پرشان ہوئی تھی۔ میرا باپ تو اب بھی میرے جہیز کا قرض چکا رہا ہے۔

Facebook Comments

احمد رضا میاں
کالم نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور کالمچہ نگار.... احمد رضا میاں نے روزنامہ "دن" سے کالم لکھنے کا آغاز کیا تھا. روزنامہ "ایکسپریس" روزنامہ "طاقت" روزنامہ "مبلغ" اور ہفت روزہ "نوائے کارگر" میں ان کے سو سے زائد کالم "قلم گردی" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں. اس کے علاوہ ان کے کالم آن لائن ویب سائٹس "ہماری ویب، پاک نیوز لائیو، راولپنڈی ٹایمز پر بھی پڑھے جا سکتے ہیں. ان کے ٹوئٹر پر مختصر سیاسی اور سماجی حالات پر طنزیہ اور مزاحیہ اظہار خیال کوسوسشل میڈیا پر پذیرائی حاصل ہے. احمد رضا میاں آج کل سو لفظوں کی کہانی کی طرز پر ایک نئے موضوع " کالمچہ " کے نام سے لکھ رہے ہیں. ان کا کالمچہ سوشل میڈیا پر کافی مشہور ہو چکا ہے .

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply