بے روزگاری کے خاتمے میں کیریئر کونسلنگ کا کردار۔۔محمد عدنان

بے روزگاری کے خاتمے میں کیریئر کونسلنگ کا کردار۔۔محمد عدنان/کورونا بحران نے دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی لیبر مارکیٹ کو بُری طرح سے متاثر کیا ہے جس سے نوجوانوں کے روزگار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے حکومتی سطح پر مناسب منصوبہ بندی کا فقدان ہے، وہاں کیریئر سے متعلق مشاورت اور معلومات کی کمی نے نوجوانوں کے لیے ہر سطح پر مسائل پیدا کیے ہیں۔
نوجوان کسی بھی معاشرے کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق کیرئیر کے انتخاب کے بارے میں آگاہی کے ساتھ ساتھ وژن سے بھی محروم ہے، ہمارے ملک میں طلباء اپنے ساتھیوں اور بزرگوں کی سفارشات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، دنیا بھر میں جہاں جدید دور کے اہم مضامین اور کورسز کو ترجیح دی جا رہی ہے وہاں پاکستان میں زیادہ تر پاکستانی والدین اپنے بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔ جسکی وجہ سے طلباء جدید علوم کا انتخاب کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائی اور وقت میڈیکل اور انجینئرنگ کے امتحانات کی تیاری میں صَرف کر دیتے ہیں۔ انجینئرنگ اور میڈیکل جہاں اپنی جگہ دو کامیاب پیشے ہیں وہاں والدین کا اپنے بچوں کی صرف ان پیشوں کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہرگز درست نہیں۔

ایک مناسب کیریئر کا انتخاب کسی بھی طالب علم کی زندگی میں بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مناسب کیریئر کونسلنگ کی کمی کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں  منوانے کے مواقع میسر نہیں ہیں۔ کیریئر کاؤنسلنگ ایک ایسا عمل ہے جس میں کوئی شخص اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کی چھان بین کرتا ہے اور پھر وہ معلومات تعلیمی اور ذاتی مستقبل کے لیے بہترین فیصلے کرنے میں اسکی رہنمائی کرتی ہیں ۔ کیرئیر کونسلنگ نہ صرف ترقی یافتہ دنیا کے ابھرتے ہوئے رجحانات کو اجاگر کرتی ہے بلکہ نوجوانوں کو جدید شعبوں،محفوظ کیریئر اور مارکیٹوں کے مستقبل کے رجحانات کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو آزادی اور اپنی مرضی سے کیرئیر کا انتخاب کرنے کے رجحان کو فروغ دیں۔ کیونکہ اس طرح وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس سلسلے میں جہاں والدین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں تعلیمی اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں کا اسکولوں اور کالجوں سے رابطہ منقطع ہے۔ یونیورسٹیاں تحقیق کرتی ہیں اور ان کی تحقیق کے نتائج کالجوں اور اسکولوں کے طلبہ کو بتائے جانے چاہئیں لیکن ہمارے ملک میں اس کلچر کی کمی ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو اسکول اور کالج کی سطح پر طلباء کی کیریئر کونسلنگ کے حوالے سے ورکشاپس یا خصوصی لیکچرز کا انعقاد کرنا چاہیے۔جہاں وہ طلباء کو مستقبل کے رجحانات، نئے شعبوں کی اہمیت اور مارکیٹوں کی ضروریات کے بارے میں آگاہ کریں۔ اس طرح طلباء کو اپنے لیے مناسب کیریئر کا انتخاب کرنے میں مدد ملے گی۔

حکومت کو ملک بھر کے طلباء کے لیے کیریئر کاؤنسلنگ کی نوعیت, معلومات, رہنمائی, اور قانون کی تشکیل میں مضبوط کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس شعبے کی ترقی پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرے۔ طلباء کو جدید شعبوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی دلچسپی کے مطابق کیرئیر کا انتخاب کریں۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہیں جو اپنی ملازمتوں کے لیے موزوں نہیں۔ اپنی ملازمتوں میں عدم دلچسپی کی وجہ سے کوشش کے باوجود بھی وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں والدین اپنے بچوں کی مناسب پرورش کے لیے کیریئر کونسلرز کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں باقاعدگی سے ورکشاپس، سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں طلباء کو جدید رجحانات سے آگاہی نہیں ہے اور وہ اکثر روایتی کیریئرز کا انتخاب کرتےنظر آتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں یہ صورتحال اور بھی سنگین ہے وہاں کے طلباء کو جدید دور کے اہم شعبوں کے بارے میں معلومات کی کمی کے علاوہ تعلیمی ادروں سے بھی کسی قسم کی رہنمائی نہیں ملتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

باصلاحیت اور ذہین نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں اور مناسب وقت پر دانشمندانہ فیصلے، خاص طور پر موزوں کیرئیر کا انتخاب، انہیں نا صرف بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد کرسکتے ہیں بلکہ وہ معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد عدنان
محمد عدنان ایک نوجوان صحافی اور محقق ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply