دوکہانیاں۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

آج کی کہانی
ہمارے ملک میں غیر ہموار سرمایہ داری نظام ہے جس میں اگر آپ اس کا حصہ بن جاتے ہیں تو غریبوں کی جیبوں سے چاہے آپ ڈاکٹر ہوں، وکیل ہوں یا استاد، پیسے اچھل اچھل کر اپ کی جھولی میں گرتے رہتے ہیں یوں آپ کوٹھی یا کوٹھیاں بھی تعمیر کرا لیتے ہیں، کار یا کاریں بھی خرید لیتے ہیں، بچے بھی پڑھا کے انہیں اسی نظام میں ضم کروا دیتے ہیں۔ اس طرح آپ اپنی ساٹھ سال کی عمر کے بعد آسائش اور سکون کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ بہت مذہب پرست ہوتے ہوئے بھی ہر دنیاوی چابکدستی کا شرعی جواز پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر آپ اس نظام سے سہمت ہی نہ ہوں، ملحد ہوتے ہوئے معاشی نا انصافی کو الله، خدا، بھگوان یا کسی مفروضہ الوہی ہستی کی مرضی کی بجائے اسی دنیا کے چالاک اور فطین لوگوں کی چال سمجھتے ہوں اور طے کر لیتے ہوں کہ جائز امدنی ہی کو شعار بنائے رکھنا ہے تو نہ آپ کا گھر تعمیر ہوگا، کار بھول جائیں بیکار رہیں گے، بچے اگر بہت محنتی ہوں تو شاید کم وسائل میں بہتر تعلیم حاصل کر پائیں یوں آپ ساٹھ تو کیا ستر اسی سال کی عمر میں بھی آسائش اور سکون کو بھول جائیں۔ اطمینان ہونا یا غیر مطمئن رہنا مادی کیفیت نہیں بلکہ روحانی یعنی نفسیاتی کیفیت ہے جو اپ کی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی یا بیک وقت دونوں کیفیتیں علیحدہ علیحدہ یا مدغم بھی ہو سکتی ہیں۔
اوپر سے بڑی اولاد اس اہل نہ ہو کہ والدین تو والدین خود کو بھی نہ سنبھال سکے۔ کم عمر اولاد کے مستقبل کی بھی فکر اسی طرح ہو جس طرح بڑی اولاد کی رہی تھی لیکن آپ محدود وسائل کے سبب کچھ بھی نہ کر پائے تھے جبکہ اس عمر میں وسائل ہی معدوم ہوں تو آپ یا ﷲ کی مرضی پہ چھوڑ سکتے ہیں یا وسیلہ کی تلاش میں پریشان بلکہ ہلکان ہو سکتے ہیں کیونکہ سرمایہ داری نظام اسی کو جذب کرتا ہے جو کئی عشروں تک مستعدی اور وفا شعاری کے ساتھ آجر، چاہے پبلک ہو یا پرائیویٹ کی دولت اور وسائل کو فزوں تر کرتے رہنے کے قابل ہو، اس لیے آپ ” دیوان خانہ میں مہمان ” بنے بیٹھے من و سلوٰی ملنے کی آس لگائے رکھنے پر اکتفا کرتے ہیں یا ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو یہ کہانی نہ لگی ہو تو میرا کیا قصور؟
·
آج کی دوسری کہانی
یہ کراچی کلفٹن کا علاقہ ہے جہاں خوشحال لوگ رہتے ہیں۔ گذری پل کے سامنے معروف قدیمی کوثر میڈیکوز ہے۔ جس عمارت میں یہ ہے اس کے اوپر کے ایک فلیٹ میں ان دنوں میں مقیم ہوں۔
میں نے ماسکو سے بال کٹوانے سے اس لیے گریز کیا تھا کہ میرے ہیئر ڈریسر کے سیلون کا کارڈ کہیں کھو گیا تھا، چنانچہ اپائٹمنٹ نہیں لے سکتا تھا اور بغیر وقت لیے جانا بے سود تھا کیونکہ وہ میرے پہلے گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر تھا اور اب جہاں رہا وہاں سے ایک گھنٹہ کے سفر پر۔ سوچا چند روز کراچی میں رہ کے پنجاب چلا جاؤں گا جہاں ٹھنڈ ہوگی تو بڑے بال مناسب رہیں گے مگر کراچی میں قیام بوجوہ طول پکڑ گیا اور گرمی ہو گئی۔ یوں بڑے بال تنگ کرنے لگے چنانچہ حجامت بنوانے کا سوچا۔
اگرچہ عقب کے بازار میں حجاموں کی دو دکانیں ہیں مگر نہ صفائی ہے نہ وہ چھوٹی سی دکان میں جہاں چار آدمی یونہی بیٹھے ہوتے ہیں، ماسک واسک پہننے کا کشت کرتے ہیں۔
بڑے بھتیجے عبدالمقیت نے بتایا کہ گھر سے سی ایم ہاؤس کے رخ سیدھے چلے جائیں تو ایک فروٹ شاپ آئے گی وہاں ایک صاف ہیئر کٹنگ سیلون ہے۔ چھوٹے بھائی نے کہا وہ پانچ سو روپے لے گا۔
جاؤں نہ جاؤں۔ پھر سوچا کہ جاتا ہوں۔ چھوٹے بھتیجے عبدالمستغفر نے کہا، “پاپا میں جاتے ہوئے آپ کو گاڑی پہ وہاں چھوڑ جاؤں گا مگر میں جس روز سے آیا ہوں بس دو بار فون کا لوڈ کروانے کچھ دیر کے لیے پیدل چلا ہوں۔ اس لیے میں نے کہا میں پیدل جاؤں گا۔ احتیاطاً” البتہ جرابیں اور جوتے چڑھا لیے۔ تھوڑی دور چل کے تعفن کا ایک بھبکا آیا۔ وجہ ماڈرن دمکتی دکانوں کے اطراف ڈیڑھ میٹر چوڑا گندا نالہ کھلا ہوا تھا اور پچاس میٹر کے فاصلے سے تین جگہوں سے کھلا تعفن بکھیرتا ہوا۔ اطراف کی سڑکوں پہ کوئی ٹریفک سگنل نہیں بس خود دیکھ اور بچ کے پار کرو۔
جہاں نالا نہیں تھا وہاں دکانوں کے آگے خاصے اونچے برآمدے یا فٹ پاتھ۔ فٹ پاتھ کے ساتھ جو اینٹوں کے فرش والا حصہ تھا، اس پہ کاریں کھڑی ہوئیں۔ یا تو اونچے فٹ پاتھ سے کودتے اور اس پر چڑھتے گذرو یا پھر کاروں کے پیچھے سے سڑک پہ چلتی ٹریفک سے بچ بچا، کے نکلو۔
شکر ہے ہیئر سیلون صاف بھی تھا اور ڈریسر نے ماسک بھی پہنا ہوا تھا۔ میرے بال ہی کتنے ہیں۔ اس نے پانچ منٹ میں میرے بال کاٹ کے اپنے چارسو کھرے کر لیے، البتہ بال درست کاٹے۔ ماسکو میں بھی اتنے ہی دینے ہوتے ہیں مگر پنشنر ہونے کی رعایت کے ساتھ بصورت دیگر پاکستان کے پیسوں کے مطابق ساڑھے چھ سو یعنی تین سو روبل۔
پھر وہی اذیت سہتا گھر لوٹا، گرمی سے تنگ اور پسینہ پسینہ۔
اچھے ملکوں میں سیوریج زمین سے دو تین میٹر نیچے آدھے سے ایک میٹر قطر کے پائپوں کی شکل میں ہوتی ہے۔ فٹ پاتھ بڑے اور صرف پیدل لوگوں کے لیے ہوتے ہیں پارکنگ کے لیے نہیں۔
کھلے گندے نالے اور چڑیوں طوطوں سے سجی، ہارن بجاتی، ٹوٹی پھوٹی ، عام سواری کے لیے نام نہاد کوچیں میٹروپولیٹن کے لیے انتہائی بدنما داغ ہیں۔ اس شہر میں بس ایرکنڈیشنڈ نئی کار والے ہی مناسب طریقے سے آ جا سکتے ہیں تبھی نوجوان نے کہا تھا کہ میں آپ کو چھوڑتا جاؤں گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply