اندھا کباڑیہ و عدم اعتماد۔۔زین سہیل وارثی

”خواب لے لو خواب۔۔۔۔”
صبح ہوتے چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟”
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!

خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

خوابوں کا وہ خوبصورت سفر جو 30 اکتوبر 2011ء کو شروع ہوا تھا، بظاہر اختتام کی جانب گامزن نظر آ رہا ہے۔ وہ خوابوں کا ٹوکرا جو کپتان اپنے سر سجائے نوجوانوں کے لئے لیکر نکلے تھے وہ ٹوکرا بیچ چوراہے میں ٹوٹ چکا ہے، ایک ایک کر کے تمام خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نظام میں اصلاحات کا تھا، باقی سب تو محض الیکشن کے نعرے تھے جن میں ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، وزیراعظم و وزیراعلی سیکرٹیریٹ کا جامعات میں تبدیل ہونا، پروٹوکول نا لینا وغیرہ وغیرہ مشہور ترین ہیں۔ ایک نعرہ ہی باقی ہے جو بولنے والے کھلونے کی طرح آواز دے رہا ہے میں انکو این آر او نہیں دوں گا، میں ان چوروں اور ڈاکوؤں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا، ہمارا مقابلہ مافیا سے ہے۔

جبکہ نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس دنیا اور عالم اسلام کا سب سے اہم قائد ایم کیو ایم جیسے مافیا اور مسلم لیگ ق جنھیں وہ ڈاکوؤں کی جماعت کہتا تھا ان کے در پر سوالی بن کر حاضری لگا رہے ہے۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ بات چیت میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر نہیں کرتا ہے، معلوم نہیں پھر فریقین کے مابین بات چیت کیا ہوتی ہے۔

سورت العصر میں رب ذوالجلال فرماتا ہے “قسم ہے زمانے  کی انسان خسارے  میں ہے”، میرے عظیم کپتان نے ہر وہ بویا کاٹا ہے، جس کی آبیاری انھوں نے حزب اختلاف کے دنوں میں کی تھی، بیانات ہوں، پالیسیاں ہوں، وعدہ ہوں، اور نا جانے کون کون سے معاملات۔
بقول افتخار عارف
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ جس طرح باقی تمام پارلیمانی قائد ایوان اپنی مدت ملازمت پوری نہیں کر سکے اس دفعہ بھی شاید وہی روایت دوہرائی جائے۔ عدم اعتماد و لانگ مارچ کی روش بھی وہی ہے جو پہلے تھی فرق صرف اتنا ہے کہ میز کا رخ تبدیل ہوا ہے، کردار کم و بیش وہی ہیں، صرف ایمپائر انتظار فرمائیے والی صورتحال کا مظاہرہ کر رہا ہے اور بظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے۔
بقول فیض
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی سر اٹھائے اسے جبری رخصت پر بھیج دیں۔

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

افراط زر سے خلق روٹی و پانی کی فکر میں اتنی ڈوب گئی ہے کہ اب اشرافیہ ہی خلق ہے اور اشرافیہ ہی مقتدر حلقوں سے ہر بار الجھ پڑتی ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے جو محب وطن ہوتے ہیں وہ غدار وطن و سکیورٹی رسک بن جاتے ہیں جو صادق و امین ہوتے ہیں وہ بدعنوان کہلائے جاتے ہیں، جو اسلام و پاکستان کے سپاہی ہوتے ہیں وہ بیرونی طاقتوں کے کارگزار (ایجنٹ) کہلاتے ہیں۔ انکو جبری رخصت پر بھیجنے کے وقت نعرہ بھی کم و بیش وہی ہوتے ہیں، جو پہلے والے کے لئے لگائے جاتے ہیں۔
فلانے کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے
بقول منیر نیازی
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

پارلیمان جو کہنے کو اس ملک کا سب سے مقدس ادارہ ہے، جس کے ماتحت تمام ادارے ہیں، جب بھی مدت پوری کرنے کا سوچتی ہے یا اس کی گود ہری ہونے کا وقت آتا ہی ہے عین اسی وقت اس پارلیمان کے قائد جنھیں آئین پاکستان وزیراعظم کہتا ہے انکی رخصتی کی باتیں زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔ موجودہ وزیراعظم کی صورتحال مختلف ہے، یہ عوامی ووٹ اور مقتدر حلقوں کا آشیرباد تو لیکر آئے ہیں جیسے پہلے لوگ آتے تھے مگر قابل ذکر خصوصیات انکا نیک، شریف، خوبرو، بدعنوان نا ہونا، اور ریاست مدینہ کی تعمیر کا دعوی تھا، جو وقت کے ساتھ ساتھ رو بہ زوال ہے۔ اس سب کا جواب سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے، دوسرا جواب کارکردگی صفر ہی رہے گی کا ہے۔ وزیراعظم کے جارہانہ لب و لہجہ اور ہیجان کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے، یعنی انکو خوف ہے کہ شاید عدم اعتماد کامیاب ہو ہی نا جائے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غیرجانبدار رہنے والوں کو بھی ہلکی مسکراہٹ میں متنبہ کیا ہے کہ یہ غیرجانبدار کس چڑیا کا نام ہے۔

موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ وزیراعظم کے اپنے ذاتی مسائل بھی ہیں جن میں انا پرستی سب سے اول ہے، دوم بات پر کان نا دھرنا ہے، سوم انکی زبان کا جادو ہے، درجہ چہارم پر انکی اور انکی جماعت کی کارکردگی ہے۔ انھیں تمام خوبیوں کا شاخسانہ ہے کہ انھوں نے اپنی بندوق کی شست پر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں اور قائدین کو لے لیا ہے اور دما دم مست قلندر کا عندیہ دے دیا ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ حکومت درجہ حرارت بڑھانے سے ہمیشہ گریز کرتی ہے مگر اس دفعہ حکومتی سطح پر درجہ حرارت بڑھانے کی باقاعدہ تجویز منظور کی گئی ہے، اس کا بخوبی اندازہ وزراء کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے آخری دن یاد آ گئے دروغ بگردن راوی کہ آخری دنوں میں وہ اچانک راجہ بازار آئے اور فرمانے لگے عالمی سازش ہوئی ہے اور بازگشت ہے کہ “پارٹی از اوور” میں انکو بتانا چاہتا ہوں “پارٹی از ناٹ اوور” پارٹی اس طرح تو ختم نہ  ہوئی، جس طرح ختم ہوئی، وہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ خان صاحب کی کارکردگی تو بھٹو مرحوم سے بھی گئی گزری ہے۔ خان صاحب کے خلاف جو عالمی سازش ہوئی ہے اگر وہ اسکے شواہد سامنے لا سکیں تو بہت مہربانی ہوگی، کیونکہ عالمی سطح پر انھوں نے بذریعہ سفارت کاری کیا کیا ہے۔ مقامی سطح پر بھی کوئی نیک نامی نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا نہیں یہ تو وقت آنے پر پتا چل جائے گا، مگر اگر بزدار، اور اس ٹیم کے ساتھ آپ سمجھتے ہیں کہ اگلی بار الیکشن میں فتح سے ہمکنار ہو جائیں گے تو ہم دعا گو ہیں کہ مقتدر حلقہ حقیقت میں غیرجانبدار نا رہیں کیونکہ عوام کا جتنا تیل آپ کی حکومت نے نکال دیا ہے مزید نکلوانے کی سکت موجود نہیں ہے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ عوام مزید تیل نکلوانے پر راضی ہو جائے کیونکہ 75 سال سے تیل نکلوانے کی عادی ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply