پھر ظلم تمام ہو جاتا ہے ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

کراچی میں کئی شاپنگ مالز ہیں ویسے ہی جیسے لاہور میں یا دنیا کے دوسرے بڑے شہروں میں۔ کراچی کا ایک بڑا شاپنگ مال ڈولمن نام کا ہے۔ کل میں اپنے بھتیجے اور اس کی دو بیگمات میں سے ایک بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے بیٹے یعنی اپنے پوتے کے ساتھ، جو کار چلا رہا تھا، ان کے بہت ہی شاندار اور بڑے سے بنگلے سے جس میں ساڑھے تین افراد، ایک سیامی بلی اور عمارت سے باہر ایک السیشن کتا اور دو ملازم ایک شاید 25 برس کا اور دوسرا کوئی 15 برس کا رہتے ہیں، ان کے پورچ میں کھڑی ایک ہونڈا جیپ، ایک آلٹو اور ایک ہائبرڈ ٹویوٹا میں سے آخرالذکر میں بیٹھ کر مذکور مال کی انڈر گراؤنڈ پارکنگ میں داخل ہوا۔ سینکڑوں کاریں، شاید کوئی کچھ پرانی بھی ہو مگر مجھے دکھائی نہیں دی۔
ان کاروں اور کاروں سے نکلتے بظاہر خوش باش لوگوں کے علاوہ کراچی کے گھروں میں کام کرنے کی خاطر گھر گھر پھرتی ماسیاں، شہر کی سڑکوں پر بھیک مانگتی لڑکیاں اور مرد، ورکشاپوں میں سے نکلتے میلے کپڑوں والے چھوٹے، اگرچہ اب کم ہو گئے ہیں مگر کوڑے سے اشیاء چننے والے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے یہ شرح برابر کی ہوئی ہے، جب ان سب کی یاد نے حزیں کیا تو میں نے گالف کلب میں جم جانے والے پوتے کو بتانا شروع کیا کہ متمدن و مہذب یورپی ملکوں اور پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں فرق یہ ہے کہ اگر اول الذکر ملکوں کے باثروت اور ان کے حساب سے عسیر لوگوں کے درمیاں خلیج گہری ہے بھی تو اس کا فرق اس قدر واضح نہیں ہوتا جتنا یہاں دکھائی دیتا ہے کہ ایک دنیا بالکل اور دوسری دنیا بالکل اور۔ اس بیچارہ نے جی دادا ابو تو کہا مگر مجھے لگا جیسے بات اس کے سر پر سے گذر گئی ہو۔ اس کا قصور تھوڑا نہ ہے، وہ سوچتا ہی اور طرح ہے۔
تو جناب صارفین کے سماج نے دوم الذکر ملکوں میں ایک ایسے طبقے کو جنم دیا ہے جسے میرا امیر ہوچکا مگر دل میں سب کا درد برقرار رکھے ہوئے دوست حسین سومرو سوڈو کلچرڈ لوگ کہتا ہے جو کلچرڈ ہرگز نہیں ہیں مگر باقی غریب غرباء کو، جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ طبقہ کلچرڈ خیال نہیں کرتا۔ ان کے سامنے اگر کہا جائے کہ لوگ بیروزگاری اور دیہاتوں سے دھکیلے جانے کی وجہ سے فقیر بن رہے ہیں تو وہ اسے گداگر مافیا کی سرگرمی گردانیں گے۔ اگر کہا جائے کہ گھریلو ملازمین اپنے بچوں کی تعلیم تو دور کی بات رہی ان کی صحت برقرار رکھنے کے اخراجات بھی نہیں برداشت کر پاتے تو وہ فوراً  شہر کے ان ہسپتالوں اور تنظیموں کے نام لینے لگ جائیں گے جو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ سمجھنا ضروری نہیں کہ اول تو بہت زیادہ لوگوں کو جنہیں دیہاتوں سے شہروں میں نقل مکانی کیے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس بارے میں معلومات نہیں ہوتی، دوسرے یہ کہ آبادی کے بوجھ کے سبب ایسے ہسپتال اور ادارے اس بوجھ سے نبرد آزما ہونے میں ناکام ہیں۔ ایک داڑھ نکلوانے یا معمولی مرض کی تشخیص و معالجہ کے لیے باری آنے میں اگر دنوں نہیں تو گھنٹوں نکل جاتے ہیں اور ایسے لوگ تو ہوتے ہی دیہاڑی دار ہیں۔
صارفین کے سماج میں اشیاء کے اصراف کی چمک دمک بلکہ ان کی ضرورت سے اغماض برتا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ اچھے کپڑے جوتے سے لے کر الیکٹرونک گیجٹس اور گاڑیاں تک لینے کی خواہش تقریباً  سبھی میں ہوتی ہے مگر وسائل نہ ہونا بیشتر لوگوں کا المیہ ہے۔ یوں جائز ناجائز طریقے سے کمانے کی خواہش جاگتی ہے۔ جرائم کرنے کی رغبت ہوتی ہے اور چھوٹے چھوٹے جرائم سے لے کر بڑے جرائم تک فروغ پاتے ہیں۔
جو شریف الطبع ہونے کے سبب جرائم کرنے جیسا جرات مندانہ اقدام نہیں لے سکتے وہ سیاسی شعور سے آشنا ہو کر عزت سے جینے کا حق مانگنے نکل کھڑے ہوتے ہیں مگر ایک ایسا نظام جس میں بہت سوں کو غریب رکھ کر ایک مخصوص حصے کو امیر رکھا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہو وہ نظام ایسے لوگوں کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ لوگوں کا غائب ہو جانا اور کئیوں کا بلا جواز سرکاری قتل، عام ہونے لگتا ہے کیونکہ ایسے جرائم بارے باز پرس اول تو ہوتی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو کمیشن کی نظر ہو جاتی ہے۔ لوگوں پر ظلم کیے جانے کے جواز کھڑے جاتے ہیں۔ قومی خودمختاری اور ریاست کا تحفظ نام کے نعرے ایسے جرائم کے لیے آڑ بن جاتے ہیں۔
مگر پھر ایسا وقت آتا ہے کہ پہچانی نہ جانے والی قبروں پر اُگی گھاس ہٹائی جاتی ہے۔ لوگوں کے ڈھانچے باقی قوم کے لیے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی روشنی بن جاتے ہیں پھر نہ فرانکو بچتا ہے نہ پنوشے، امر ہو جاتی ہیں تو دسیوں سالوں پہلے بے گناہ مار دیے گئے لوگوں کی تصویریں اور ان کی یادوں بارے تقریبات۔ظلم کی جگہ امن آتا ہے اور جہل کی جگہ علم۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خود کو چھپانے کی خاطر چہروں پر اوڑھے نقاب اتر جاتے ہیں اور ہاتھوں میں پکڑے ہتھیار خود بخود ہاتھوں سے گر پڑتے ہیں اور ہاتھ خودبخود کمپیوٹر کے کی بورڈز کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔ ملک ملک بنتا ہے اور قوم باقاعدہ قوم۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply