• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مین سڑیم میڈیا کا ڈسکورس اور پی پی پی ۔۔عامر حسینی

مین سڑیم میڈیا کا ڈسکورس اور پی پی پی ۔۔عامر حسینی

ہم جب پاکستان کے نام نہاد مین سٹریم میڈیا کا پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں متنازع، متعصب، جانبدارانہ، دشمنی، کردار کُشی پہ مبنی ڈسکورس کی نشاندہی کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم “آزادی اظہار” اور “پریس فریڈم” کے خلاف ہیں – لیکن یہ کہنے والے روزانہ کی بنیاد پہ ہمارے دعوے کے ثبوت میں پیش کی گئی مثالوں کو شیر مادر کی طرح پی جاتے ہیں –
ایک تازہ نمونہ جنگ میڈیا گروپ کی گمراہ کُن رپورٹنگ کا ملاحظہ کریں :
ہیڈ لائن ہے :
52 فیصد پاکستانیوں کو پیپلزپارٹی کی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کا یقین
خبر کی تفصیل میں کہیں نیچے جاکر آپ کو پتا چلتا ہے کہ کنسلٹنٹ نامی تنظیم نے نمونے کے 2 ہزار افراد پہ مشتمل یہ سروے کیا – اب یہ دو ہزار افراد کا سروے اور اُن دو ہزار افراد کا 52 فیصد ہیڈ لائن میں جاکر 52 فیصد پاکستانی بن گیا –
اگر میڈیا غیر جانبدار ہوتا تو رپورٹ فائل کرنے والے رپورٹر سے کہتا کہ وہ قاری کو یہ معلومات بھی فراہم کرے کہ سروے کن علاقوں سے، کن افراد سے کیا گیا اور اُن کا سیاسی رجحان کیا ہے؟ کیا سروے کرنے والی تنظیم نے اس بات کا بھی سراغ لگایا کہ جن دو ہزار افراد میں سے 52 فیصد کی رائے ڈیل پہ یقین والی ہے انہیں یہ یقین کس وجہ سے ہے؟ کہیں اُن افراد کا یقین پٹواری اور یوتھیا میڈیا سیل کے پروپیگنڈے کے سبب تو نہیں بنا؟ لیکن ہمارے بڑے بڑے نامور تحقیقاتی صحافی اس طرز کی رپورٹنگ کا تو پی پی پی کے باب میں سوچ بھی نہیں سکتے –
ہمارے ہاں ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ انگریزی پریس کی ادارتی پالیسی کافی حد تک معروضی ہوتی ہے اور وہاں تعصب کا شائبہ بھی پایا نہیں جاتا (گویا انگریزی صحافت کرنے والے تو سارے فرشتہ صفت ہوتے ہیں حالانکہ یہ تعصب میں تو جنرل ضیاء کے لیے مارشل لاء کا وائٹ پیپر تک تیار کرنے والی ٹیم مین شامل ہوجاتے ہیں واضح مثال آئی ایچ برنی اور اے کے بروہی تھے، اردشیر کاؤس جی بھی پی پی پی اور اس کی قیادت بارے بات شروع کرتے تھے تو اُن کی معروضیت گھاس چرنے چلی جایا کرتی تھی، دور جدید میں خالص اینٹی اسٹبلشمنٹ سیرل المیڈا کو زرداری پہ اتنا غصہ تھا کہ وہ جنرل کیانی کو مارشل لاء لگانے کی درخواست اپنے کالم میں بےشرمی سے کردیتا تھا)
26 دسمبر 2018ء کو بوگس بینک اکاؤنٹس کیس بارے جی آئی ٹی رپورٹ آئی تو ڈیلی ڈان نے ایک اداریہ “ٹرائل بائی جے آئی ٹی” لکھا اور اس اداریے میں اس نے لکھا :
پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے بظاہر مسٹر زرداری اور اُن کے مالی شراکت داروں کے خلاف “شاندار” اور “ناقابل تردید” شواہد کا انکشاف کیا ہے – شاید رپورٹ میں لگائے گئے الزامات درست ہیں –
…………
میڈیا کوریج کے مطابق مسٹر زرداری اور اُن سے منسلک کمپنیوں کا طرز طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی پی کے باس پہلے ہی بدترین وائٹ کالر جرائم اور بدعنوانی کے “مجرم” ہیں –
………
یہ اداریہ جس دن شایع ہوا تب سے لیکر اب تک کسی صحافتی اخلاقیات کی دہائی دینے والے شخص نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ وہ میڈیا گروپ جو نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی، عدالتی فیصلوں اور نیب کے مقدمات سمیت یوتھیا سیل کے الزامات بارے یہ لکھتا نہیں تھکتا کہ اسٹبلشمنٹ کا وتیرہ رہا ہے وہ مقبول عوامی سیاست دانوں کو ایسے ہی بدنام کرتی رہی ہے لیکن جب معاملہ پی پی پی کی قیادت کا ہو تو اسے جمہوریت کا ٹرائل کیوں نظر نہیں آتا –
آج فیک بینک اکاؤنٹس میں نیب کی کارکردگی پہ لاہور ہائیکورٹ بھی سوال اٹھارہی ہے کہ وہ ابھی تک اس کیس کا مکمل چالان ہی عدالت میں پیش نہیں کرسکا اور پہلے جتنی رقم بوگس اکاؤنٹس کے زریعے سے منتقل کرنے کا دعویٰ تھا وہ اب بہت ہی کم ہوگیا ہے جبکہ ابھی ان اکاونٹس سے آصف زرداری کا براہ راست یا بلواسطہ تعلق بھی ثابت نہیں ہوسکا
لیکن ڈان اخبار نے دسمبر میں اپنے اداریہ میں میڈیا کوریج کا حوالہ دے کر “شاید” لفظ کی پخ لگاکر آصف زرداری کو “بدترین وائٹ کالر جرائم” کا مجرم لکھا اور اس سے پہلے جے آئی ٹی رپورٹ کو “شاندار” اور “ناقابل تردید” شواہد پہ مبنی لکھ ڈالا تھا –
ڈان کا ایڈیٹر ظفر عباس، ادارتی ٹیم میں محمد علی صدیقی جیسے سینئر ترین صحافی موجود کیا انھیں بھی یہ بتانے کی ضرورت تھی یا ہے کہ اداریہ ہو یا رپورٹ اس میں الزامات اور سب سے بڑھ کر عدالت میں زیرسماعت کیس جس کا چالان بھی پیش نہ ہوا ہو کے بارے میں جرائم، ثابت و ناقابل تردید شواہد جیسے الفاظ کا استعمال کرنا صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہوا کرتا ہے –
میں نے انگریزی پریس اور اردو پریس کے پی پی پی کے بارے میں ڈسکورس پہ سینکڑوں مثالیں دیکر یہ دکھایا کہ وہ تعصب، جانبداری، نفرت، بغض، حقائق کو مسخ کرنے والا ہے اور جو یہ کرتے ہیں اٌن کو میڈیا کی مقدس گائیں سمجھا جاتا ہے – یہ زبردستی کی تقدیس اور زبردستی اپنے آپ کو “غیرجانبدار” کہلوانے کا جو اصرار ہے اُسے “خبطِ عظمت” ہی کہا جاسکتا ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply