قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی خدمت میں ۔۔آصف محمود

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے اس معاملے کو اٹھایا مگر سیکرٹری دفاع نے اس معاملے کو وہیں نبٹا دیا اوراس اجلاس کا انجام وہی ہوا جو بچپن میں پڑھی ہر دوسری کہانی کا ہوتا تھا : سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ تمام معزز اراکین سے ، جو اپنے تئیں معاملہ نمٹا کر ہنسی خوشی گھروں کو لوٹ گئے ، کیا یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے زیر بحث لائیں ا ور نہ صرف زیر بحث لائیں بلکہ اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔

قائمہ کمیٹی نے 27 فروری کے اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا گیا کہ پاکستان کا جو نقشہ اس وقت ہمارے ہاں بالعموم استعمال کیا جا رہا ہے یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ وہ نقشہ ہے جو بھارت کے پروپیگنڈے کے زیر اثر مرتب کیا گیا ہے۔ ہم بالعموم اس نقشے کو کسی ویب سائٹ سے ڈائن لوڈ کر لیتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس میں پاکستان کے علاقوں کو کاٹ کر بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس پر جناب سیکرٹری دفاع ایک روایتی بیوروکریٹ کی شان سے بروئے کار آئے اور کمیٹی کو بتایا کہ اس مسئلے کو پہلے ہی سے حل کر لیا گیا ہے اور پاکستان کے اصل نقشے کی سافٹ کاپی تمام وزارتوں ، ڈویژنوں اور اداروں کو بھیج دی گئی ہے۔ کمیٹی نے اس پریہ تجویز دے کر اپنے تئیں اسے حل کر دیا کہ وزیر اعظم ان سب کو حکم دیں کہ اپنی ویب سائٹس پر یہ نقشہ ڈال دیں ۔ سوال مگر یہ ہے کیا یہ اتنا ہی سادہ معاملہ تھا کہ اتنی سادگی سے یوں کھڑے کھڑے اسے نبٹا دیا جاتا ؟

ہمارے سیکرٹری دفاع یا قائمہ کمیٹی کے معزز اراکین سادہ ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ، معاملہ مگر اتنا سادہ ہر گز نہیں ہے ۔ یہ بھارت کا ہمہ جہت Offensive ہے، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر اس کے آزار سے نہیں بچا جا سکتا ۔بھارت نے ایک عرصے سے بھر پور مہم شروع کر رکھی ہے کہ آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا کر دکھایاجائے ۔ اس مہم کے پیچھے بھارت کی کارپوریٹ قوت بھی کھڑی ہے اور اس کی قانون سازی بھی ۔ یہ جو ہم گوگل وغیرہ سے نقشہ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو اس میں پاکستان کے حصے کاٹ کر بھارت میں شامل کر کے دکھائے جاتے ہیں یہ بلاوجہ نہیں ہے ۔

بھارت نے باقاعدہ یہ نقشہ جاری کیا۔ کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔اس کے لیے دنیا بھر میں لابنگ کی گئی ۔ گوگل وغیرہ پر باقاعدہ اہتمام سے اس نقشے کو پروموٹ کرایا گیا ۔ گوگل کے نقشوں پر نانگا پربت اور کے ٹو تک بھارت میں دکھائے جاتے ہیں لیکن ہماری حکومتوں کو بالکل پرواہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔

دوسری جانب بھارت کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں اگر کوئی ایسا نقشہ کہیں چھاپ دیا جائے یا کسی اور صورت سامنے لایا جائے جس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ نہ دکھایا گیا ہو تو ’’ جیو سپیشل انفارمیشن ریگولیشن بل‘‘ کے تحت یہ ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا 7سال تک قید اور 100 کروڑ روپے تک جرمانہ ہے۔ اب ایک طرف بھارت کو دیکھیے وہ کس حد تک جا چکا ہے اور دوسری طرف اپنے سیکرٹری دفاع صاحب قائمہ کمیٹی کو بتاتے ہیں کہ معاملہ حل کیا جا چکا ہے اور قائمہ کمیٹی مطمئن ہو جاتی ہے کہ واقعی معاملہ حل ہو گیا ہے۔

یہ معاملہ محض چند وزارتوں کا نہیں۔بھارت کی یہ واردات بہت گہرا وار کر چکی ہے ۔اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں چند مثالیں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے بھارت اس پروپیگنڈا وار میں کہاں تک کامیاب ہو چکا ہے۔

احسن اقبال صاحب اب وزیر داخلہ ہیں۔وہ ایک روزنامے میں غالبا ’’ وطن کی بات‘‘ کے نام سے کالم لکھتے تھے۔ اس میں پاکستان کا جو نقشہ چھپا ہوتا تھا وہ وہی نقشہ تھا جو بھارت دنیا میں پھیلا رہا۔ احسن اقبال صاحب کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھا یا جا رہا اس سادگی اور بے نیازی کی طرف اشارہ ہے جو اس باب میں ہم نے روا رکھی۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہمارے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے۔ ہم پاکستانیت کے بارے میں حساس ہی نہیں رہے۔

عمران خان صاحب کی کتاب چند سال پہلے ’’ پاکستان : اے پرسنل ہسٹری‘‘ کے نام سے ٹرانس ورلڈ پبلشرز نے چھاپی۔ اس میں پاکستان کا جو نقشہ شائع ہوا اس میں کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ چنانچہ عمران خان اس پرخفاہوئے اور پبلشر کو کتاب مارکیٹ سے اٹھوانا پڑی۔

ایک نجی چینل پر شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں پاکستان کا ایسا ہی نقشہ دکھا دیا ۔ جب اس پر احتجاج ہوا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ غلطی ہو گئی اور یہ بھی بتایا کہ نقشہ تو انہوں نے’ ڈان ‘ اخبار کی سائٹ سے لیا تھا ۔ یہاں بھی کسی کی حب الوطنی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ مقصد صرف معاملے کی سنگینی کو واضح کرنا ہے کہ بھارت کس طرح ابلاغ کی جنگ میں ہمارے اندر تک سرایت کرتا جا رہا ہے اور ہمیں اس واردات کا احساس تک نہیں۔

کاسا پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر جب وزیر اعظم نواز شریف تاجکستان گئے تو وہاں میزبانوں نے جو نقشہ آویزاں کیا اس کے مطابق بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ ہمارے احتجاج پر میزبانوں نے رسمی سی وضاحت تو جاری کر دی لیکن کیا ہم نے سوچنے کی زحمت کی کہ جب بھی کوئی نقشہ ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہی بھارت والا نقشہ کیوں سامنے آتا ہے؟

ورلڈ بنک نے دسمبر 2016 میں اسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کی۔ اس کتاب کا نام تھا :”South Asia’s Turn”۔ ہمارے ہی دارالحکومت میں ہونے والی اس تقریب میں ورلڈ بنک نے ساؤتھ ایشیا کا جو نقشہ آویزاں کیا اس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔

ایک طرف بھارت ہے جہاں اس کے بنائے جعلی نقشے کی خلاف ورزی پر سات سال تک قید اور ایک سو کروڑ تک جرمانہ کی سزا ہے اور دوسری طرف ہم ہیں جہاں ایڈووکیٹ رضوان حیدر کو عدالت میں جا کر درخواست کرنا پرتی ہے کہ وزیر اعلی سے پوچھا جائے: جماعت ہشتم کی جغرافیہ کی کتاب میں پاکستان کا غلط نقشہ کیوں چھاپا گیا ہے۔

باقیوں کو تو چھوڑیے ، شیخوپورہ میں جماعت اسلامی کی تقریب ہوتی ہے ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سٹیج پر تشریف فرما ہو تے ہیں اور سٹیج پر جو نقشہ آویزاں ہوتا ہے اس میں کشمیر اور گلگت بلتستان غائب ہوتے ہیں۔کشمیر کے معاملے میں جماعت اسلامی کی حساسیت ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہاں بھی اگر غلطی سے بھارت کا جاری کردہ نقشہ لگا دیا جاتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے بھارت کہاں تک وار کر چکا ہے۔

دوسری طرف ہم ہیں۔کشمیر کمیٹی سے اس کی کارکردگی کا سوال کر لیا جائے تو فرزندان حق کے مزاج برہم ہو جاتے ہیں اوربھارت کے بارے میں دو باتیں لکھ دی جائیں تو روشن خیالی کو نزلہ ہو جاتا ہے۔رشوت کے طور پر ہم لوگوں کو سفیر بنا دیتے ہیں۔اپنی عصبیتوں کے بارے میں ہم بہت حساس ہیں ۔کسی کے قائد محترم کی شان میں گستاخی کر کے دیکھیے ، شور قیامت برپا ہو جائے گا۔لیکن پاکستان اور پاکستانیت کا معاملہ آ جائے تو ہم لاتعلق سے ہو جاتے ہیں۔قائمہ کمیٹی اگر خوش قسمتی سے معاملہ اٹھا بھی لے تو اسے وہیں دفن کر دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر گز نہیں جناب سیکرٹری دفاع، یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ آپ نے کھڑے کھڑے نبٹا دیا۔یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔سوچ رہا ہوں قائمہ کمیٹی کے معزز اراکین سے کیا یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ اس معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے زیر بحث لائیں ا ور نہ صرف زیر بحث لائیں بلکہ اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply