• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روز کہیں دی تانگھاں اچ کھول رکھیساں بوہا ۔۔عامر حسینی

روز کہیں دی تانگھاں اچ کھول رکھیساں بوہا ۔۔عامر حسینی

وہ تمہیں طلسم کے دروازے تک لے گیا

وہاں لٹکے صدیوں پرانے قفل کی چابی بھی دے گیا

اور جاتے جاتے کچھ منتر بھی بتاگیا

تم نے منتر سن لیے

چابی کہیں ٹانگ دی

استاد محمود نظامی کا ایک انداز

استاد محمود نظامی خاموشی سے رخصت ہوگئے۔ ان کے دوست احباب اور نیاز مند سب کے ہاں اداسی ہے، غم ہے، ماتم ہے۔ سب ان کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کررہے ہیں اور آنسو بہارہے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ مل کر نیر بہا رہا ہوں -لیکن نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ استاد محمود نظامی عدم کی منزل پہ کھڑے زور زور سے ہنس رہے ہیں ، قہقوں پہ قہقے لگارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا راہی عدم ہونا نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ہے ، اس پہ نیر بہانے کا کیا مطلب؟ میں ان کو الزامی جواب دیتا ہوں کہ پھر آپ کیوں بی بی صاحبہ کی شہادت پہ نیر بہاتے پائے گئے تھے؟ بھٹو، میر شاہنواز اور میر مرتضی کی شہاتوں پہ کیوں بلک بلک کر روئے تھے؟ میرا سوال سن کر جیسے ان کے لہجے کی شوخی غائب ہوگئی ہو اور گھمبیر سنجیدگی اس کی جگہ براجمان ہوگئی ۔ تھوڑی دیر ایسے خاموش رہ کر کہنے لگے، ان شہادتوں پہ اس جہان کا ہر وہ فرد رویا تھا جن کے سینے میں دل تھا جو عام آدمی کی لوک دانش پہ یقین رکھنے والے تھے۔ میں نے استاد محمود نظامی کو کہا کہ آج بھی لوک دانش پہ ایمان لانے والے تمہارے یوں چلے جانے پہ اپنے آپ کو یتیم سا محسوس کررہے ہیں ۔ یہ سن کر استاد محمود نظامی نے نفی میں سر ہلایا، جیسے کہہ رہے ہوں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

میں استاد محمود نظامی کو پہلی بار کہاں ملا تھا؟ اس سوال کو ذہن میں رکھ کر جب میں نے اپنی یادوں کے دریچے وا کیے تو پہلا منظرعظیم بلڈنگ ڈیرہ اڈا کی چھت کا ذہن کے پردے پہ روشن ہوتا ہے۔ نذر عباس بلوچ (اسے مرحوم لکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے) لالہ بلال خاں، اعظم خان، اسلم وڑائچ کے ساتھ ہوں اور ‏عظیم بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھ کر ہم چھت پہ پہنچے ہیں- فرش پہ دریاں بچھی ہوئی ہیں اور یاد پڑتا ہے کہ کوئی اجلاس ہورہا ہے اور وہاں کافی سارے لوگ بیٹھے ہیں اور سامنے سفید براق لٹھے کی شلوار قمیص اور کوٹ پہنے ایک دھان پان سا شخص نفیس سی چھڑی ہاتھ میں پکڑے کھڑا تقریر کررہا ہے۔ اعظم بھائی کہتے ہیں، “یہ قسور گردیزی ” ہیں ، پاکستان نیشنل پارٹی کے جنرل سیکرٹری ۔ ہم اگلی قطار میں جاکر بیٹھتے ہیں تو وہاں ایک شخص ہمیں دیکھ کر آنکھ مارتا ہے اور اس کے چہرے پہ شرارت بھری مسکراہٹ پھیلی نظر آتی ہے جیسے بمشکل وہ اپنے اندر سے پھوٹ پڑنے والے قہقوں کو دبائے بیٹھا ہے۔ آنکھوں میں ذہانت کی چمک ہے۔ واشن وئیر کے سستے کپڑے کی شلوار قمیص پہنے ہوئے ہے۔ سر کے بال سرسوں کے تیل میں بھیگے پیشانی سے اوپر پیچھے کو کیے ہوئے بال ہیں ۔ چہرے پہ خشخشی داڑھی ہے جو ان دنوں  ساری کی ساری کالی تھی ۔ یہ اجلاس جب ختم ہہوتا ہے تو وہی شرارتی آنکھوں والا آدمی ہمارے ساتھ سیڑھیاں اترتا نظر آتا ہے۔ میں ان سے کافی پیچھے ہوں – مگر وہ اپنے ساتھ چلنے والے عارف قریشی سے کوئی بات کرتے اور وقفے وقفے سے ان کا زور دار قہقہ سیڑھیوں میں گونج رہا ہے۔ نذر عباس بلوچ میری آنکھوں میں تجسس دیکھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ “محمود نظامی ہیں، تونسے سےتعلق ہے “۔ ہم سب وہاں سے چل کر سیٹیزن سنیما کے پاس سے گزر کر منصور کریم سیال کی کوٹھی میں پہنچ جاتے ہیں- وہاں دو اطراف میں لگی کرسیوں میں سے کچھ کرسیوں پہ پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہیں، ہم بھی بیٹھ جاتے ہیں ۔ محمود نظامی کو منصور کریم سیال آواز دے کر اپنے ساتھ پڑی کرسی پہ بیٹھنے کو کہتے ہیں ۔ رات گئے تک وہاں محفل جمتی ہے۔ یہیں پہ پہلی بار میری ملاقات شمیم عارف قریشی سے ہوتی ہے۔ دونوں محفل کو کشت زعفران بنادیتے ہیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہاں پہ گفتگو کے دوران جب کسی طرف سے پی پی پی پہ تنقید ہوتی ہے اور قیادت کے رویے زیر بحث آتے ہیں تو استاد محمود نظامی اس موقعہ پہ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ پی پی پی اور بھٹوز کے حامی ہیں اور سرائیکی قوم پرستی میں رنگے پی پی پی مخالفوں کو وہ تیر بہدف سیاسی تجزیوں سے مجروح کرتے نظر ائے۔

ایک اور منظر ذہن میں پھر رہا ہے ۔ دسمبر کے آخری دن ہیں ۔ بیرسٹر تاج لنگاہ مرحوم کے گھر پہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوں ۔ بڑا سا ریڈیو میز پہ رکھا ہوا ہے ۔ ريڈیو اسٹیشن ملتان سے زاہدہ پروین کی آواز میں خواجہ فرید کی کافی ” کیہ حال سناواں دل دا” نشر ہورہی ہے۔ استاد محمود نظامی کرسی پہ اوکڑوں بیٹھے ہیں ، آنکھیں بند ہیں اور گردن کو دائیں بائیں وجد میں حرکت دے رہے ہیں ۔ اس رات بیرسٹر تاج لنگاہ کے دفتر میں رات گزارنے والے وہ اور میں تھے۔ میں ان سے ان کی سیاسی زندگی کا احوال سننے لگتا ہوں ۔ وہ کہانی نیپ سے شروع کرتے ہیں اور پھر چل سو چل اور تان پی پی پی پہ آکے ٹوتتی ہے۔ اس دوران وہ مسلم لیگ نواز اور اس کے کردار پہ شدید ترین تنقید کرتے ہیں۔ سرائیکی قومی سوال پہ بات کرنے کے دوران کہیں وہ شاؤنزم کا شکار نہیں ہوتے۔

میں نے ان کو ملتان پریس کلب میں کئی بار دیکھا۔ ایک رات ہم حسن رضا بخاری(رضو شاہ) کے گھر اسلم کی کتاب “طبل کہاڑی” کی رونمائی کے لیے رت جگا میں اکٹھے شریک ہوئے ۔ پھر خورشید کالونی میں مظفر بخاری کے گھر میں کئی بار ملے۔  مجھے کہتے ،”تمہارے خبریں اخبار میں کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں ، تمہاری اپروچ زبردست ہے۔ کالموں کی کتاب لاؤ۔ روزنامہ جھوک کے دفتر میں کئی بار ملاقات ہوئی ۔

استاد محمود نظامی کے ساتھ ہم نے ملتان کی سڑکیں ناپی ، چند ایک چائے کے ہوٹلوں پہ رات گئے تک سنگت کی ۔

آخری بارملاقات شکیل احمد بلوچ کے ہاں روزنامہ ڈان کے بیورو آفس واقع نواں شہر میں ہوئی ۔ آخری ملاقات میں ، استاد محمود نظامی نے مجھے رات ملتان ہی ٹھہر جانے پہ اصرار کیا لیکن میں نہیں رکا۔ اب خیال آتا ہے رک جاتا ان سے متعلق یادوں میں اور اضافہ ہوجاتا، آج استاد کا تعزیت نامہ لکھتے ہوئے الفاظ کی قلت کا احساس نہ ہوتا ۔

وہ لوگ دانش کا دیوتا تھا ۔ سرائیکی وسیب کا امبیدکر بابا صاحب لگتا تھا ۔ ان چند لوگوں میں سے تھا جن سے میں سرائیکی قومی سوال کو سمجھا ۔ کبھی کبھی مجھے وہ اپنے وسیب کا “بھیم ” لگتا تھا۔

کاش ہم اس کی گفتگو کی ٹیپ محفوظ کرلیتے اور اس کی زبان سے سیاست، ادب، سماجیات پہ نکلے شبدوں کا خزانہ محفوظ کرپاتے تو یہ آنے والی نسلوں پہ احسان ہوتا ۔ وہ ان سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھا جس نے  بحالی جمہوریت کے بعد جنرل ضیاء الحق کی موقعہ پرست منافقت پہ مبنی سیاست کو جمہوری سیاست کے بدن میں داخل کرنے سے صریح انکار کیا اور مال بناؤ ،مفاد اٹھاؤ اور انقلاب پہ لعنت بھیج دو کی روش نہیں اپنائی ۔ اپنی فقیری اور درویشی میں مست رہنے کو ترجیح دی ۔ اس نے اختلاف پہ کسی کو گالی نہیں دی اگرچہ گالیاں دینے اور مندے کڈھن میں ان کا شاید کوئی ثانی ہو۔

پاکستان میں محمود نظامی جیسے سیاسی کارکنوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ ایک ایک کرکے وہ نسل ختم ہوتی جاتی ہے جس نے پاکستان کی جمہوری تحریک کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ جن کے ہاں ماضی اور حال دونوں رجائیت کا پیغام دیا کرتے تھے۔ ہمارے ناتواں کندھوں پہ اس تحریک کا بوجھ آن پڑا ہے، یہ بوجھ نجانے ہم سے کیسے اٹھے گا؟

ایک مدّت سے جو پہچان کے بحران میں ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسے چہروں کے لیے بس تِرا نام آئینہ!

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply