• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یوم یکجہتی کشمیر اور یوم القدس کی اہمیت۔۔سید اسد عباس

یوم یکجہتی کشمیر اور یوم القدس کی اہمیت۔۔سید اسد عباس

پاکستان اور دنیا بھر میں   یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ یہ روز نوے کی دہائی سے پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی اور کشمیری اس روز اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اس روز کو یوم یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کی کال سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے دی تھی، جسے بعد میں حکومت پاکستان نے بھی اپنا لیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ ایک دن منانے سے کیا مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا؟ اس کا جواب یقیناً ہاں نہیں ہے، لیکن اس ایک روز کی اہمیت بالکل ویسی ہی ہے، جیسی آج یوم القدس کی ہے۔ یوم القدس کی کال انقلاب اسلامی ایران کے روحانی پیشوا امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد دی تھی۔ اس روز سے آج تک دنیا کے مختلف ممالک میں جمعۃ الوداع کے موقع پر یوم القدس منایا جاتا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کی مانند اس روز عوامی سطح پر فلسطینی کاز کی حمایت میں مظاہرے اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی یوم القدس کے انعقاد کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستی حل کو قبول کرنے، دنیا کے بہت سے ممالک کے اسرائیلی جارح ریاست سے تعلقات کو بحال کرنے کے باوجود اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے۔

سفارتکاری اور سیاست کا میدان ہمیشہ اتار چڑھاؤ اور مصلحتوں کا شکار ہوتا رہتا ہے، اسرائیل کے معاملے میں ہم نے دیکھا کہ وہ ممالک جو کل تک اسرائیل کو اپنے وجود کا دشمن گردانتے تھے، آج اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔فلسطینی عوام، ان کا ریاستی حق، فلسطینی مہاجرین سب ایک قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اگر یوم القدس نہ ہوتا شاید چند فلسطینیوں کے علاوہ کوئی فلسطینی عوام کے حقوق کی بات نہ کرتا۔ یہی کچھ مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ آج ریاست پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے واضح ہے، تاہم کون جانتا ہے کہ کل سفارتکاری اور سیاستمداری کی مصلحت کیا ہو۔ شاید اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے قاضی حسین احمد مرحوم نے یوم یکجہتی کشمیر کی کال دی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بجا طور پر کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ کوئی سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ اگر ہم پاکستان کے دریاؤں کی جانب دیکھیں تو ان سب کا منبع کشمیر ہے۔ اگر ان دریاؤں کا پانی روک لیا جائے تو پاکستان جس کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔

تزویراتی اور جغرافیائی لحاظ سے بھی کشمیر پاکستان کے اہم ترین حصے میں واقع ہے۔ اگر بھارت کو کشمیر میں پنجے جمانے اور کھل کھیلنے کا موقع فراہم کر دیا جائے تو یہ ایک طرح کی خودکشی ہوگی، لہذا کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد دراصل تکمیل پاکستان کی ہی جدوجہد ہے۔ پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خواہ کچھ بھی موقف رکھے، اہلیان پاکستان کو اس مسئلے کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے، ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کی تحریک میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہے، کیونکہ یہ فقط ان کی نہیں بلکہ ہماری بقاء کی بھی جنگ ہے، جو کشمیری نسلوں سے غاصب برہمنی سامراج سے لڑ رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بیان کرنے والے آرٹیکل 370 اے کو ختم کیے نیز مقبوضہ وادی کو بھارت کا حصہ قرار دئیے ہوئے 914 دن گزر چکے ہیں۔ 914 دن سے وادی کشمیر کی اسی لاکھ آبادی کرفیو جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ گھروں پر چھاپے، نوجوانوں کی جبری گمشدگی، سرکاری ملازمین کی نوکریوں سے بے دخلی، مذہبی پروگراموں پر پابند، اجتماعات جمعہ و عیدین پر پابندی آئے روز کا معمول ہیں۔

دنیا تو ایک جانب مسلم دنیا کی جانب سے مجرمانہ خاموشی مسئلہ فلسطین کے بعد ایک اور المیے کو جنم دے رہی ہے۔ بھارت کی جانب وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے تقریباً 32 لاکھ ڈومیسائل جاری کیے گئے ہیں۔ ان ڈومیسائلز کے اجراء کا مقصد کشمیر سے باہر رہنے والوں کو اس علاقے میں زمینین خریدنے، یہاں رہائش رکھنے کا حق دینا ہے، جو اس سے قبل حاصل نہیں تھا۔ یہ بالکل وہی طریقہ کار ہے، جو قبل ازیں فلسطین اور بحرین میں آزمایا جا چکا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے آبادی کے تناسب کو اسی انداز سے بدلا اور آج ہم جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی زمینوں پر ایک غاصب صہیونی ریاست قائم ہے۔ بحرین میں بھی آبادی کے تناسب کو خفیہ طور پر بدلا گیا، جس کے نتیجے میں وہاں موجود اکثریت محکوم ہے اور ایک اقلیت بحرینی عوام پر حاکم ہے۔ اگر بحرین اور اسرائیل کی مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ شاید اگلی دو دہائیوں میں کشمیر میں آبادی کا تناسب مکمل طور پر بدل چکا ہوگا۔ اس سے اگلا مرحلہ تشدد اور منظم حملے ہوں گے، تاکہ مقامی آبادی ہجرت اور فرار پر مجبور ہو جائے اور مکمل قبضے کے مکروہ منصوبے کو حتمی شکل دی جائے۔

اگر درج بالا اقدامات پر غور کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انتہائی منظم انداز سے پہلے سے تجربہ کردہ طریقہ کار کے مطابق بھارت کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر پیشرفت جاری ہے اور اس پیشرفت میں اسے موساد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کا ردعمل اتنا موثر نہیں ہے، جتنا ہونا چاہیئے۔ کشمیر پر ہماری سفارتکاری سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پر ہتھیار پھینک چکے ہیں، عملی میدان میں بھی ہم بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے تو ہم مسلم دنیا کو اکٹھا کر رہے ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر جو ہماری بقاء کا مسئلہ ہے، اس پر بالکل خاموشی ہے۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ہم فعال سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کو عالمی فورمز پر اٹھاتے، عالمی اداروں میں اس کے حوالے سے لابنگ کرتے۔

تاہم اس کے برعکس بھارت ہم پر کشمیر میں دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے اور دنیا میں ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ ہماری سفارتکاری کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر، اس وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود وہ دنیا میں جمہوریت کا چیمپئین بنا بیٹھا ہے۔ پاکستان کو چاہیئے تھا کہ “370 اے” کے خاتمے اور اس کے بعد سے کشمیر کی صورتحال کو عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کے علم میں لاتا اور اس حوالے سے دنیا پر ضروری اقدامات کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا، لیکن پاکستان ایسا نہ کرسکا۔ ایسے میں اگر پاکستانی عوام بھی خاموش ہو جائیں تو پھر کشمیر یعنی پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply