کینسر (101)آخری قسط- آخری الفاظ/وہاراامباکر

جب میں جرمین کے ساتھ اپنی آخری گفتگو کو یاد کرتا ہوں تو الفاظ سے زیادہ ذہن میں مناظر یاد ہیں۔ ہسپتال کا کمرہ جس میں دوا اور صابن کی بو تھی۔ چھت پر لگی لائٹ۔ لکڑی کے سائئڈ ٹیبل پر پڑی گولیاں، کتابیں اور اخباری تراشے۔ نیل پالش اور پوسٹ کارڈ۔ میز پر اپنی بیٹی کے ساتھ کھینچی تصویر پڑی تھی۔ بال بنے ہوئے۔ بڑے زیور پہنے ہوئے۔ ایک ٹانگ نیچے لٹکی ہوئی۔ جیسے موت کو خوش آمدید کہنے کی تیاری ہو۔ پرسکون چہرہ تھا اور ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ ناک میں ڈلی ٹیوب کو جیسے نظرانداز کیا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت سے آج برسوں بعد اس کی یاد رہ گئی ہے۔ جرمین اس سٹیج پر ایک ایکٹر تھیں جو اپنا حصہ ادا کر رہی تھیں۔ ان کی شخصیت ان کی بیماری نے ویسے بنائی تھی جیسی مجھے یاد ہے۔ ان کے کپڑے ڈھیلے ڈھالے اس لئے تھے کہ وہ پیٹ کی رسولی چھپا جاتے تھے۔ ان کا نیکلس اتنا بڑا اس لئے تھا کہ توجہ کینسر سے ہٹا دیتے تھا۔ کمرے میں کارڈ اور پھول اس لئے تھے کہ ان کے بغیر یہ یکسانیت والا سفید اور سرد کمرہ رہ جاتا۔ انہوں نے اپنی ٹانگ اس طریقے سے اس لئے لٹکائی ہوئی تھی کیونکہ ٹیومر ریڑھ کی ہڈی میں داخل ہو چکا تھا اور دوسری ٹانگ مفلوج تھی۔ ان کے مذاق بھی اس بیماری کا ردِعمل تھا۔ بیماری ان کو نیچا دکھانا چاہتی تھی۔ اس نے گھر سے ہزاروں میل دور کمرے میں لا پٹخا تھا۔ یہ ہنسی مذاق جرمین کی اس کے خلاف بغاوت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شطرنج کا کھیل تھا۔ جرمین کی بیماری حرکت کر رہی تھی۔ ان پر ایک اور قدغن لگا دیتی تھی اور وہ اس کا جواب دیتی تھیں۔ بیماری کے ایکشن پر ان کا ری ایکشن تھا۔ یہ ایک جان لیوا کھیل تھا جو ان کی زندگی پر گرفت پا چکا تھا۔ اس کی لگائی ایک ضرب سے بچتی تھیں تو اگلی آ جاری تھی۔
جرمین نے کینسر کے خلاف جدوجہد میں ایک چیز سیکھ لی تھی جو ضروری تھی۔ اس بیماری کا سامنا کرنے کے لئے نئی اور نئی حکمتِ عملی سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بہت شاندار طریقے سے اور ہمت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ ایک عجیب سفر پر تھیں۔ انٹرنیٹ پر بلاگ اور ٹیچنگ ہسپتال، کیموتھراپی اور کلینکل ٹرائل۔ انہوں نے اس سب کا سوچا نہیں ہو گا۔ یہ ان کی زندگی بسر کرنے کے پلان کا حصہ نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنی زندگی کی توانائی اور ہمت کا آخری حصہ بھی اس پر صرف کر دیا تھا۔ اپنی قوتِ ارادی اور تصور کا۔ یہاں تک کہ وہ آخری شام آ گئی تھی۔ جب ان کی توانائی کے ٹینک میں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ اس آخری رات کو ان کی زندگی بس ایک دھاگے سے لٹک رہی تھی۔ وہ اپنی ہمت مجتع کر کے اپنی وہیل چئیر گھسیٹ کر باتھ روم تک گئی تھیں۔ چار ہزار سال سے جاری ہماری جنگ میں وہ اس موذی کا ایک اور شکار کرنے کو تھا۔ وہ اپنے آخری وقت میں اپنا وقار برقرار رکھنا چاہتی تھیں۔ “مجھے معلوم ہے کہ میری مہلت ختم ہو چکی ہے۔ مجھے اب مزید کوئی حسرت نہیں۔ بس میں گھر جانا چاہتی ہوں”۔ یہ ان کے کہے ہوئے آخری الفاظ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کی اٹل حقیقت سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ میڈیکل سائنس کا مقصد اسے ختم کرنا نہیں۔ لیکن وقت سے پہلے نہیں۔
بھرپور زندگی کے آخر میں ایک باوقار موت۔۔۔ یہ ہماری اور اس موذی کی جاری جنگ ہے۔
جرمین کی کہانی ہماری اس موذی کے ساتھ جاری کشمکش کی تجسیم کر دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply