خود سے ایک سوال …

خود سے ایک سوال
اکرام بخاری
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جب تاتاریوں کا زور ہوا اور تاتاری ہر طرف سے بلاد اسلامیہ پے یورش کر رہے تھے، مسلمان مملوک حکومتیں اور افواج جو آپس کے جھگڑوں اور مناقشت کی وجہ سے کمزور تر ہو چکی تھیں اور ہر طرف سے شکست کھا رہی تھیں تاتاری قتل عام، انتہاء کو پہنچ چکا تھا ۔اس وقت لوگ اپنے وقت کی بہت بڑی روحانی شخصیت حضرت نجم دین کبریٰ کے پاس آئے اور عرض گزار ہوے کہ حضرت.. خدا را،آپ ان تاتاریوں کے حق میں بد دعا کیوں نہیں کرتے ۔آپ خدا سے عرض گزار کیوں کر نہیں ہوتے کہ اس”فتنے”سے ہمیں نجات ملے … حضرت سنتے اور چپ ہو جاتے جب اسرار بہت بڑھا تو آخر کار اکتا کر کہا … میں کیسے انکے لئے بد دعا کروں ، میں جب جب ہاتھ اٹھاتا ہوں تو میری نظریں ان فرشتوں کو دیکھتی ہیں جو ان تاتاریوں کے گھوڑوں کی زینیں تھامے ہوے ہماری جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں اوران گھوڑوں کو چابکیں مار کر مزید تیز دوڑاتے ہیں اور ساتھ میں یہ کہتے جاتے ہیں ..یہ “فتنہ”ہیں .. یہ منافق ہیں ان کی گردنیں اڑاؤ ، ان میں سے ایک بھی بچ کہ نہ جانے پائے !
جمعہ مبارک کا دن ہے، مسجد میں داخل ہوا ، جہاں حال یہ تھا کہ مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، خطیب صاحب منبر پہ براجمان تھے اور اپنی شعلہ بیانی سےمقتدیوں کے ٹھنڈے ہوتے ہوئےایمانوں کو گرما رہے تھے … موضوع سخن تھا …امریکا اور یورپ .. خطیب صاحب کے نزدیک دنیا میں تمام دہشت گردی ،”فتنے فساد”اخلاقی گراوٹ و بےحیائی ، بدحالی، اور مسلمانوں کی تباہی کے پیچھے صرف اور صرف امریکا اور یورپ کا ہاتھ ہے … مولانا صاحب نے وہاں موجود تمام نمازیوں سے کہا کے مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے آپ دیکھیں گے کہ انکی معیشت ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی … بات اگر یہیں ختم ہو جاتی تو ٹھیک تھا لیکن خطبے اور نماز کے بعد ایک بار پھر خطیب صاحب نے بارگاہ ایزدی میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ امریکا اور یورپ کے لئے بد دعا کی۔اور اپنے خدا سے عرض گزار ہوئے کہ پلیز آپ امریکا اور یورپ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں کیوں کہ ان کفار کی وجہ سے ہم مظلوم اور معصوم مسلمانوں کا جینا حرام ہو گیا ہے ۔
انکی اس بد دعا پہ مسجد میں بیٹھے ہر ملاوٹ کرنے والے ، ہر ذخیرہ اندوز ، یتیموں کا حق مارنے والے، حقوق العباد کو پاؤں تلے روندنے والے بیٹیوں اور بہنوں کو انکے حق وراثت سے محروم رکھنے والے ، بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے والے ، گلی محلے کی ہر عورت اور لڑکی پہ نظر رکھنے والے، کاروبار اور نوکری میں خیانت کے مرتکب 10 منٹس کی نماز بریک لے کر اسکو 45 منٹس تک اپنے فائدے کے لئے کھینچ کر لے جانے والے ، بیویوں پے ناجائز تشدد کرنے والے ، اپنے سے علاوہ ہر مسلک کو کافر اور انکی جان اور مال کو اپنے سے کم تر سمجھنے والے … اپنی نمازوں ، چلوں ، تسبیحوں ، اوپر کیے ہوے پائنچوں، مسواکوں، روزوں اور زکاتوں کو سب سے اوپر جاننے والے لیکن اپنے گھر سے کچھ قدم کے فاصلے پہ موجود پڑوسی کے حال سے بے خبر ، صفائی کو نصف ایمان کہنے والے لیکن اپنے ہی گھر کے سامنے غلاظت پھینکنے والے، دن بھر مغربی دنیا کو بےحیا اور خاندانی نظام کے نہ ہونے کا طعنہ دینے والے رات کو ڈش اینٹینا کا رخ موڑ کر “خاص چینل”اورخاص ویب سائٹس دیکھنے والے… ہر ہر شخص نے با آواز بلند کہا آمین….اور پھر بہت اہتمام کے ساتھ اپنے بلند ہاتھوں کو اپنے چہروں پہ پھیر لیا …
مجھے یہ سارا عمل بھری پری منافقت اور اپنی کمیوں اور کوتاہیوں سے فرار جیسا لگا .. امریکا اور یورپ جنکی امداد پر ہم بڑے ٹھاٹھ اور فخر سے پلتے ہیں ، انکے بنے برانڈز اور انکے لیونگ سٹینڈرڈز کو چاہے سامنے کتنا ہی برا کیوں نہ کہہ لیں دل ہی دل میں سراہتے ہیں، انہی کےبنے ہوے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے نظام کو استعمال میں لا کر انہی کو گالیاں دیتے ہیں ، جنکو ہم برآمد کم اور ان سے درآمد سب کچھ کرتے ہیں ، اس امریکا کو گالی دی گے جسکے محمّد علی کو ہم اپنا مانتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ مسلم تھا اور جسکے سنگرز ، اور اداکاروں پے ہم جان چھڑکتے ہیں انکی ہر ہر ادا کو کاپی کرتے ہوے فخر محسوس کرتے ہیں انکی فلموں ، ڈراموں اور کتابوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوتا ۔
انکو بد کہا گیا جن سے ہم اپنے نصاب کا انتساب کرتے ہیں … اس یورپ کو جاہل اور نہ سمجھنے والے کہا گیا جنکی ریسرچ اورعلم دوستی کی وجہ سے انہی کی ایجادات اور دیگر ہزار ہا سہولیات کوذاتی مال سمجھ کر استعمال کرتے ہیں جب کے خود ہم ابھی تک نور اور بشر اور سوکھے اور گیلے ٹھیلے کے جھگڑے سے نہیں نکلے …وہ یورپ جس کے جرمنی نے لاکھوں شامی باشندوں کو پناہ دی، روزگار دیا اور ہم نے بدلے میں انکو کیا دیا ؟ بم بلاسٹ اور نفرت … اسی یورپ میں موجود ناروے سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک ہمارے بچوں کو اپنے بچوں جیسا سمجھ کے انکو مفت تعلم دیتے ہیں ، اسی یورپ کی NGOs ہمارے ان بےسہارا مہاجر ، زلزلہ زدگان اور سیلاب کے مارے لوگوں کی مدد کو دوڑتے ہیں اور پھر انہی کی امدادی اشیا ہم بڑے دھڑلے سے بازاروں میں فروخت کر کے “حلال”کماتے ہیں …اسی یورپ میں شامل برطانیہ میں ہم سہانی زندگی بسر کرنے کے خواب لے کر جاتے ہیں اور انکی تکمیل کرتے ہیں لیکن بدلے میں ہم انکو کیا دیتے ہیں ؟ اسی برطانیہ کے ایجوکیشنل ، پولیٹیکل ،جوڈیشل، آرمی اور گورننس سسٹم کو ہم اپنے سینے سے ابھی تک صرف اسی وجہ سے لگائے ہوئے ہیں کیوں کے ہم اسکا متبادل لانے سے ابھی تک قاصر ہیں اور ہم اتفاق راۓ سے محروم اور قوت فیصلہ سے تہی دست ہیں .. اس یورپ کو اسلام دشمن پکارا جا رہا تھا جس میں ہمارے اسلامی بھائی “اسلامی “حلیے میں اسلام کی تبلیغ آزادی سے کرتے ہیں اور ہر محفل میں گھس کے کرتے ہیں لیکن اپنے ہاں ایک دوسرے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے اور نہ کسی اور فرقے یا مسلک کو اس بات کی آزادی دیتے ہیں کہ وہ کھل کر سانس بھی لے ۔.. ہم معاشی ، اقتصادی ، سیاسی ،دفاعی ،علمی اور تحقیقی ہر لحاظ سے ان پر ڈیپنڈنٹ ہیں۔
لیکن انکو برا کہنا اپنا حق سمجھتے ہیں ، انکی ترقی سے جلتے بھی ہیں .. اپنے ہر الٹے کام کو یہودی اور مغربی سازش کہتے ہیں لیکن کرنے والے اور کرانے والے بھی خود ہی ہوتے ہیں ہم سے ہی غدّار پیدا ہوتے ہیں …باتوں میں ہم سب سے بڑھ کر ہیں لیکن اٹھ کر کچھ کرتے نہیں ،آپ لاکھ اختلاف کریں اور لاکھ تاویلیں دے دیں کے وہ ظلم کرتے ہیں سازشی ہیں اور ہمارے پکے دشمن ہیں لیکن اس حقیقت کو آپ آخر کب سمجھیں گے کہ وہاں ہماری طرح قومی مفاد کا ستو بنا کر نہیں پیا جاتا اور قومی مفاد وہاں بڑی سے بڑی اور پرانی سے پرانی دوستی اور سچائی سے زیادہ مقدم رکھا جاتا ہے جسکا پہلا تقاضا اپنے ملک کے وقار اور سلامتی کا تحفظ ہوتا ہے۔ باقی ملکوں کے ساتھ تعلق بھی اسی بنیاد پے قائم ہوتے ہیں…لیکن خیر … ہم کو اس سے کیا لینا دینا .. ہم من حیث القوم منافقت کی دبیز چادرمیں لپٹے، امام مہدی اور مسیحا کے انتظار میں ہیں … کیا اب بھی ہم نہ سمجھیں گے کہ یہ سب کچھ کیوں کر ہو رہا ہے؟ سو یہ کتھا کہانی ایک طرف بس کسی دن تعصب اور خود ساختہ زعم کو ایک طرف رکھ چھوڑ کر خود سے ایک سوال ضرور کریں کہ .. اصل “فتنہ پرور “اور منافق کون ہیں … ؟؟

Facebook Comments

اکرام بخاری
سید اکرام بخاری اباسین یونیورسٹی پشاور میں آڈٹ و فنانس کے شعبے سے منسلک ہیں، دنیا کے تمام علوم و فنون کی روح سے واقفیت حاصل کرنے کا جنون اورتجسس رکھتے ہیں کیوں کہ روحانیت کو سب سے مقدم جانتے ہیں اوراسی راہ کے سالک بھی ہیں !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply