سچ کو تمیز ہی نہیں بات کرنے کی

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر عصر حاضر تک انسانوں کے اندر تین طرح کے لوگوں کا بہت اہم کردار رہا ہے جو معاشرے کی ترقی و تنزل کا سبب بنتے آئے ہیں: سچا، منافق اور جھوٹا۔ جیسے انسانوں میں بظاہر تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایسے ہی انسان کے اندر بھی تین طرح کے نفوس ہوتے ہیں جن میں نفس امارہ، لوامہ، اور مطمئنہ ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ا ن تینوں نفوس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے پہلا نفس،نفسِ امارہ ہے جو انسان کو گناہوں کی طرف مائل کرتا ہے۔ بلکہ اگر ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ نفسِ امارہ ایک آمر کی طرح ہوتا ہے جو اپنی من مانی کرتا ہے اور اسلامی قوانین کی ایسے دھجیاں بکھیرتا ہے جیسے کوئی آمر حکومت پر قابض ہونے کے بعد سب سے پہلے قانون کو توڑتا ہے اور پھر اس کے اپنے ہی خود ساختہ قوانین ہوتے ہیں جنھیں وہ حق و سچ گردانتا ہے۔ نفسِ امارہ کی پرورش ایسے کی جاتی ہے جیسے کسی امیر زادے کی اس کے والدین کی طرف سے پرورش ہو جسے نہ تو دین کے بارے سمجھایا جائے اور نہ ہی ایسی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے جن سے وہ معاشرے کا سلجھا ہوا فرد بن سکے، اور مسلسل نفسِ امارہ کی پیروی کرتے کرتے انسان اتنا نیچے گر جاتا ہے کہ پھر اسے اپنے برے افعال بھی اچھے لگنے لگتے ہیں۔ پھر وہ غلط کام بھی کرے تو اس کا نفس اس کے ان غلط کاموں کو بھی اس کے سامنے اچھا بنا کر پیش کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرا نفس،نفسِ لوامہ ہے جس کا کام یہ ہے کہ اگر انسان سے کوئی برا فعل صادر ہوجائے تو وہ اس کو ملامت کرتا ہے، اور یہ نفس انسان کے اندر ایمان کی کچھ رمز باقی رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بھی ہمارا رویہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ملکِ خداداد میں کسی غریب گھرانے کے بچوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، جنھیں ہر طرح کی آسائش و تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کیوں کہ ان کا جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں۔ انھیں تعلیم و ترقی سے دور رکھنے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ کہیں یہ پڑھ لکھ گئے تو پھر ہماری غلامی سے چھٹکارہ نہ پا لیں، اپنا حق نہ مانگ لیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی موقع ملا تو بات کروں گا۔
اب تیسرا نفس،نفسِ مطمئنہ ہے جو انسان کو اچھائی کی طرف لے کر آتا ہے اور اسے برائی سے روکتا ہے۔ لیکن اس نفس کا تو ہم لوگ بچپن سے ہی گلہ گونٹ دیتے ہیں۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ بچیوں کے گلے گھونٹ دیتے تھے، انھیں زندہ درگور کر دیتے، یا پھر زندہ جلا دیتے تھے۔
اب ان نفوس اور ان کے ساتھ ہمارے جو رویے ہیں ان کو ذہن میں رکھیے اور اپنے معاشرے کے افراد کی طرف بڑھیے جو تین قسم کے لوگوں میں بٹ چکے ہیں اور ہم ان تینوں کے ساتھ بھی ایسے ہی پیش آ رہے ہیں جیسے ان نفوس سے۔ یہاں ایک چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں جسے پڑھنے کے بعد سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔ ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے آفس کے لیے کچھ ملازموں کی ضرورت محسوس کی اور ایک نیوز پیپر میں جاب کے لیے ایڈ دیا۔ دوسرے دن تین لوگ جاب کے لیے آگئے اور انٹرویو لیتے ہوئے اس نے تینوں کو الگ الگ کر کے ایک ہی سوال کیا کہ بتاؤ اگر میں کہوں کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو تمھارا کیا جواب ہوگا۔ ایک بولا کہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرا بولا جی آپ کہہ رہے ہیں تو مان لیتا ہوں۔ اور تیسرے نے منطقی سا جواب دیا کہ اگر آپ کہہ رہے ہیں تو کسی کلیہ کے تحت ہی کہہ رہیں ہوں گے اس لیے دو اور دو پانچ ہوتے ہیں۔ اب اس نے اس کو تو نوکری پر نہیں رکھا جس نے کہا تھا کہ ممکن ہی نہیں کہ دو جمع دو پانچ ہوں، لیکن جو دوسرے دو تھے ان دونوں کو نوکری پر رکھ لیا۔ اب اس کے سیکرٹری نے پوچھا کہ سر مجھے اس منطق کی سمجھ نہیں آئی؟ اس نے جواب دیا کہ بھائی مسئلہ یہ ہے کہ پہلا شخص تھا سچا، لیکن موجودہ معاشرے میں سچ بولنے والوں کو کون پوچھتا ہے اس لیے اسے نوکری دینا بے سود ہے۔ ایسے ہی دوسرا شخص جس نے بولا آپ کہہ رہے ہیں تو مان لیتا ہوں، وہ جھوٹا تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی تو اس معاشرے میں قدر کی جاتی ہے اور ایسے لوگ ہی تو ترقی کے ضامن ہیں کیوں کہ وہ جھوٹ بول کر سب کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ اب تیسرا شخص جس نے بولا تھا کہ اگر آپ کہہ رہیں ہیں تو کسی کلیہ کے تحت کہہ رہے ہیں اس لیے ایسا ہی ہوتا ہے، وہ تھا منافق اور موجودہ وقت میں ایسے لوگ قابلِ قدر ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنا رنگ بدل لیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر جگہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ اب ذرا پنے ارد گرد نظریں دوڑائیں اور دیکھیے کیا ایسا نہیں ہو رہا؟ ہمارے ہاں سچے لوگوں کی کوئی قدر و منزلت نہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں،لیکن جھوٹے اور منافق لوگوں کو ہم اپنے سروں کا تاج بناتے ہیں، انھیں اپنے حاکم و سردار بنا لیتے ہیں، انھیں ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
کہیں یہ نفسِ امارہ کی پرورش کا نتیجہ تو نہیں؟ کہیں یہ نفسِ لوامہ کو اس کے حق سے محروم رکھنے اور نفسِ مطمئنہ کا گلہ گھونٹنے اور اسے زندہ درگور کرنے کی سزا تو نہیں؟
ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم لوگ کس سمت چل پڑے ہیں؟ آج ہماری اولادیں ہماری نافرمان کیوں ہیں؟ ہر طرف بے راہ روی کیوں ہے؟ ہر طرف مایوسی کیوں چھائی ہوئی ہے؟ یاد رکھیے یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ یہاں وہی کاٹنا پڑتا ہے جو ہم بوتے ہیں اس لیے اچھی فصل بوئیں تاکہ اچھی فصل کاٹ سکیں۔

Facebook Comments

محمد مجیب صفدر
اپنی ہی ذات میں مگن اپنی ہی تلاش میں رہتا ہوں جب خود سے ملاقات ہو گی تو تعارف بھی ہو جائے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply