قوم کے شاہین اور سوشل میڈیا کا جہاں

نئے لکھنے والے اور سوشل میڈیا کا جہاں
عدیس الطاف
سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں اک نئی سمت مقرر کی ہے بہت سارے نئے لکھنے والوں کوموقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں اور اس میں ان کو کسی کی خاص مدد کی ضرورت نہیں ہوتی خاص کر کے کافی نئے لکھنے والوں کو موقع فراہم کیا ہے۔ فیس بک یا متعلقہ بلاگز نے جہاں ہم جیسے نئے لکھاریوں کو اک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے وہاں ہم جیسے نئے لکھاریوں کو بہت سی الجھنوں میں بھی الجھا دیا ہے۔
نیا لکھاری جب پہلی بار فیس بک پر لکھتا یا متعلقہ بلاگز پر لکھتا ہے تو شروعات میں اسے باقیوں کی طرح وہ شہرت اور لائکز اور کومنٹ کی زیادتی نہیں مل پاتی تو وہ دلبرداشتہ ہو کر یا تو لکھناچھوڑ دیتا ہے یا پھر متنازعہ معاملات کو اٹھانا شروع کر دیتا ہے اور یہ ہماری اک بڑی برائی ہے کہ ہم زیادہ تر شدت پسندی کو پسند کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں وہی سوچ سب سے زیادہ دلنشین و دلفریب معلوم ہوتی ہے جہاں دوسرے طبقے کی برائی شد و مد کے ساتھ ہو۔ یوں اس کی تحریر پر تبصرہ نگاروں کا ہجوم لگ جاتا ہے جو کے اک دوسرے پر تیر کے نشتر چلانے والے ہوتے ہیں ۔کومنٹز کی زیادتی تو ہو جاتی مگر اس نئے لکھاری کی فکر حرکی کے بجائے جامد ہو جاتی ۔وہ اب مختلف زوایہ نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ اپنی فکر اور ایسے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ جس سے اس کی تحریر شہرت کے آفاق کو چھونے لگے ۔اس کے لیے کسی کی تذلیل بھی گوارہ کی جا سکتی۔
ہمارے ہاں کیونکہ نرگسیت انتہا کی ہے مقدسیت کی بھی کوئی حد نہیں تو جب نئے لکھاری میدان میں اترتے ہیں تو وہ اک معقول تحریر کی کوشش کے بجائے اک شعلے اگلتی تقریر لکھ ڈالتے ہیں سوشل میڈیا خاص کر کے دو ہی طبقات اپنی اپنی فکر کی انتہا پر ہیں ۔اک تو وہ جو خود کو مومن اور جنت کا موصول قرار دیے ہوے ہیں ہر برائی کو مغرب سے ہی تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے جو ہر مکھی کے مرنے پر بھی مورود الزام اسلام اور مساجد کو ٹھہراتے ہیں۔ ان دونوں طبقات کا کام طنز اور القابات کے نشتر چلانا ہوتا ہے اور جو کوئی معتدل بات کرے اس کا گریباں چاک کر کے اسے مومنوں اور جدت پسندوں کی صفوں سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔ جوں جوں انسان کا ذہن پختگی کی طرف جاتا ہے اس معاملے سے نکلتا جاتا ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کیونکہ اس شہرت کے گھمنڈ میں سے خود کو باہر نہیں نکالا جا سکتا۔۔
اک اور مسئلہ جو اکثر ہمارے نئے لکھاریوں کو درپیش ہوتا ہے وہ ہے بے جا کے سقراط، ہیگل اور ارسطو۔ جو ان کی تحاریر پر اپنی علمی دھاک بٹھانا چاہتا ہے اس سے معاملہ کچھ یوں پیش آتا ہے کہ وہ یا تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی اصل صلاحیتوں کو پہچان نہیں سکتا یا پھر اس کی وجہ سے لکھنے کے عمل سے دور ہو جاتا ۔ایسے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے سب نئے لکھاریوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے اگر کوئی چیز لکھتے ہیں تاریخی یا مذہبی حوالے سے تو اس کا اچھی طرح سے مطالعہ کر لیا جائے اور لکھنے سے پہلے ہی دو باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں کے اک تو لازم نہیں اس کی داد ہی ملے بلکہ ہمہ وقت اعتراضات کے لیے تیار رہنا چاہیئے
اور لازم ہے کہ ہر اعتراض کو گہرائی سے دیکھا جائے۔دوسری بات اپنی بات پر معذرت کے لیے جس طرح داد دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اسی طرح مثبت رویہ اور خوش اخلاق ناقدین کی بات سے بھی اصلاح ہونے پر پوری ایمانداری سے ان کا شکریہ اداد کریں تاکہ آپ کو کسی قسم کی ہچکچاہٹ باقی نا رہے۔خیر یہ تو بات تھی"اگر "کی ۔بہتر تو یہ ہے کہ چند عرصہ یعنی تب تک جب تک الفاظ کے مکمل طرز کو اور ان کے مقام کو پہچان نا لیا جائے تب تک اختلافی معاملات اور خاص کر مذہبی اور سیاسی موضوعات پر اپنےقلم کا جوہر دیکھانے سے گریز کرنا چاہیئے۔ پڑھنا ضرور چاہیے مگر ایسی کتب کو جس پر اختلافات کم سے کم ہوں جیسے قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ سب سے پہلے پڑھنا چاہیے ۔اسی طرح باقی چیزوں سے آراستہ ہونے کے لیے ان کی بنیاد کو پڑھا جائے ۔ شروعات میں ایک لکھاری کو خاص کر کے سوشل میڈیا پر عام لکھاری کو چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی تحاریر میں عام رویوں کو بیان کرے ۔یعنی کس طرح کے رویے اسے تنزلی کا شکار بناتے ہیں کس طرح کے رویے اسے منزل کی طرف جانے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ آج کیا اچھا کام کیا اور اس کام کے بعد لوگوں میں کیسا رویہ پایا۔
اپنے اندر کیسا احساس پایا اس احساس کے بعد لوگوں کا برتاو کس طرح اثر انداز ہوا۔ایسے موضوعات کا انتحاب اور سادہ لفظی کا استعمال کریں کہ تحریر پھیلنے کے بجائے سکڑتی جائے۔ نکتہ چینی کو خاطر میں نا لائیں اور کبھی کسی بات پر بھی احساس کمتری کا شکار نا ہوں۔ بلکہ کھلے دل سے اپنی لاعلمی کا اعتراف یا اپنے ذہن میں طے شدہ منطق کو بیان کریں۔ گھبراہٹ کو اپنے وجود کا حصہ کبھی نا بننے دیں۔یہی وہ چند معاملے ہیں کہ آپ اپنے قلم کو اک خاص رخ اور اپنی سوچ کو وسیع تر اور اپنے الفاظ کو چاشنی کی چادر اوڑھا کر انہیں بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔ اپنی فکر کو اک غیر متنازعہ فکر اور اپنے وجود کو اس معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔۔

Facebook Comments

عدیس الطاف
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply