شطرنج اور رنج

شطرنج اور رنج
ہادیہ علی

Advertisements
julia rana solicitors london

شطرنج کا کھیل اسی خطے یعنی برصغیر میں ایجاد ہوا تھا۔ گُپتا خاندان کی حکومت کے دوران سیزا نامی ایک تیز طرار شخص نے اس کی ایجاد کی تھی اور اس ایجاد کیساتھ انتہائی دلچسپ داستان منسلک ہے۔
سیزا شطرنج کا کھیل لےکر بادشاہ کے پاس حاضر ہُوا ،تو بادشاہ اس نئے کھیل سے بے حد محظوظ ہوا اور خوشی کے عالم میں سیزا سے کہا "مانگو کیا مانگتے ہو"؟
سیزا نے ایک لمحے کیلئے سوچا اور عرض کیا حضور !"چھوٹا منہ اور بڑی بات چاول کے چند دانے عطا کر دیجئے"
بادشاہ نے پوچھا" کیا مطلب ہے تمہارا" ؟
سیزا نے کہا، عالیجاہ !"آپ شطرنج کے چونسٹھ خانے چاولوں سے بھر دیں لیکن میرے فارمولے کیمطابق"۔بادشاہ نے کہا،"وہ فارمولا کیا ہے" ؟
سیزا بولا، آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے ،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے سے دُگنے یعنی دو دانے مجھے دے دیجئے
تیسرے دن دوسرے کے مقابلے میں دُگنے یعنی چار دانے رکھ کر دے دیجئے اور اپ اس ہی طرح چاولوں کی تعداد کو ڈبل کرتے جائیے یہاں تک کے چونسٹھ خانے پُر ہو جائیں ۔بادشاہ اس بیوقوفانہ شرط پر قہقہہ لگایا اورشرط قبول کر لی۔ یہاں سے وہ گیم شروع ہوئی جسکی وجہ سے مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں نے جنم لیا۔
یہ بظاہر ایک آسان سا کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ دُنیا کا مشکل ترین معمہ تھا اور آج ساڑھے تین ہزار سال گُزرنے کے باوجود بھی شطرنج کے چونسٹھ خانوں کو بھرا نہیں جا سکا۔بادشاہ نے پہلے دن چاول کا ایک دانا پہلے خانے میں رکھا اور سیزا کو دے دیا،دوسرے دن دوسرے خانے میں دو رکھ دیئے گئےتیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی۔چوتھے روز آٹھ اور پانچویں دن انکی تعداد سولہ ہو گئی یہاں تک کہ سولہویں دن بتیس ہزار سات سو اڑسٹھ ہو گئے،اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں ۔
اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑا سا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے،کیونکہ اُسکے وزیر مُشیر سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے اخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کے دانوں کی تعداد اسی لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیزا کو چاول لیجانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔
قصہ مختصر شطرنج کی چوتھی قطار تینتیسواں خانہ شروع ہوا تو پورے ملک سے چاول ختم ہو گئے۔ بادشاہ حیران رہ گیا ،اُس نے اُسی وقت ریاضی دان بلوائے اور سوال کیا شطرنج کے چونسٹھ خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہوں گے اور اس کے لیے کتنے دن چاہیئں ؟بادشاہ اور ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وہ وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے ۔
یہ اندازہ ساڑھے تین ہزار سال بعد بل گیٹس نے لگایا ،بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کےساتھ اُنیس زیرو لگائیں تو شطرنج کے چونسٹھ خانوں میں اتنے چاول آئیں گے ۔بل گیٹس کا کہنا ہے اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو چاول پورے کرنے کیلئے اٹھارہ ارب بوریاں درکار ہوں گی اور ان چاولوں کو گننے ،شطرنج پر رکھنے اور اُٹھانے کیلئے ڈیڑھ ارب سال چاہیئں اور یہ کیلکولیشن عام کیلکولیٹر سے کبھی بھی نہیں لگائی جا سکتی ۔سوائےسپرکمپیوٹر کے ۔اس ایشو کو مینیجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس کہا جاتا ہے ۔
اب ملین ڈالر سوال یہ ہے شطرنج ایجاد کرنے والے یا بادشاہ کو اس خطرناک مسئلے میں پھنسانے والے سیزا کا کیا بنا ؟یہ بھی ایک دکھ بھری داستان ہے جس کی بنا پر شطرنج اور رنج کا قافیہ مل گیا ہے ۔بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی قطار پر پہنچ کرسیزا کو گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو ساڑھے پانچ دن لگ گئے چاول پورے کرتے ہوئے۔وہ اگلے خانوں تک بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے ۔جس سے بادشاہ کو شدید فشارِ خون ہوا۔اور اُس نے شطرنج بنانے والے کا سر قلم کرنے کا حکم دے دیا اور یوں شطرنج کا موجد مارا گیا۔
لیکن یہ کھیل بادشاہوں کا مرغوب کھیل بن گیا جنگی حکمت عملی طے کرنے کے لئے اور شطرنج کی بازی اور بادشاہی آج تک قائم ہے ۔شطرنج انڈیا سے ایران پہنچی ،وہاں سے بغداد ،بغداد سے سپین اور سپین سے یورپ چلی گئی اور آج پوری دُنیا میں کھیلی جا رہی ہے،انڈیا اور روس اس کے بڑے بڑےکھلاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہیں ۔آج بھی فوج میں بڑے عہدوں پر پہنچنے والے جرنیل شطرنج لازمی سیکھتے اور کھیلتے ہیں اور یہ دماغی ورزش کا ایک مروج کھیل ہے ۔
کہا جاتا ہے سیاست شطرنج جیسی گیم ہے ،جس میں پیادے سے لیکر بادشاہ تک سارے کردار موجود ہوتے ہیں ،بس ایک کردار نہیں ہوتا ۔اور وہ کردار ہے منصف کا۔جی ہاں شطرنج میں جج نہیں ہوتا لیکن سیاست میں جج ہوتا ہے اور اور ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ مظبوط ہوں تو قلم کی نوک سے بڑے سے بڑا تاج اُڑا سکتے ہیں پھر چاہے وہاں اقتدار کو کتنی ہی بڑی ایمیونیٹی حاصل کیوں نہ ہومگراب وکیل کی جگہ جج کئے جاتے ہیں ۔ بس شطرنج میں جج نہ ہونے کا اور کاروبار سیاست میں ہونے کا رنج ہے ۔

Facebook Comments

ہادیہ علی
تلاش کے سفر پر نکلی روح

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply