بچپن سے بچپن تک- ناسٹلجیا۔۔شاہد محمود

کسی جگہ ہم بچپن میں کافی بچے بچیاں کھیل رہے تھے تو پڑوس کی آنٹی ہمیں باقی بچوں ساتھ پکڑ کے آیت کریمہ پڑھانے کے لئے لے گئیں۔ آنٹیاں ہی آنٹیاں، باجیاں ہی باجیاں، چاندنیاں بچھائے، بخور دان دہکائے، ماحول معطر بنائے ، کھجور اور املی کی گٹھلیوں کے ڈھیر لگائے آیت کریمہ پڑھ رہی تھیں۔ ہمیں منہ ہاتھ دھلا کر سفید ٹوپیاں پہنا کر بٹھا دیا کہ تم لوگ بھی پڑھو۔ اب ہم سارے بچے اک دوجے کا منہ دیکھیں کہ پڑھنا کیا ہے۔ پاس بیٹھی ایک آنٹی سے ایک بچی نے پوچھا تو آنٹی نے اسے اور اس نے ہم سب بچوں کو بتایا کہ آیت کریمہ پڑھنا ہے ان گٹھلیوں پر گن کر اور پڑھی ہوئی گٹھلیاں اپنے سامنے رکھنی ہیں۔

بس پھر کیا تھا پندرہ منٹ بعد بچہ پارٹی کے سامنے سے گٹھلیوں کی بڑی ڈھیری ختم اور ہر ایک کے آگے چھوٹی بڑی ڈھیریاں لگ گئیں۔ ایک باجی کی نظر پڑی تو انہوں نے پوچھا بچوں کیا پڑھ رہے ہو، بچوں نے یک زبان ہو کر کہا آیت کریمہ۔ انہوں نے کہا کیسے پڑھتے ہو گٹھلیوں پر ۔ ۔ مجھے اونچی آواز میں پڑھ کر دکھاؤ۔۔

اتنی دیر میں سب کی توجہ ہم بچہ پارٹی کی طرف ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ ہم سب نے ان کے سامنے پڑی گٹھلیوں کی ڈھیری میں دونوں ہاتھ ڈالے اور گٹھلیوں سے مٹھیاں بھر لیں اور دونوں ہاتھوں سے بیک وقت گٹھلیاں گراتے جاتے اور “آیت کریمہ آیت کریمہ” کرتے جاتے  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس پھر کیا تھا سب آنٹیاں باجیاں جو سنجیدہ بیٹھی پڑھ رہی تھیں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئیں اور   بچہ پارٹی کو شیرینی کھلا کر ایک باجی کے حوالے کر دیا گیا کہ انہیں آیت کریمہ سکھا دینا ۔۔۔۔ الحمدللہ تب سے اب تک آیت کریمہ یاد ہے۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply