اے مرے رب۔۔
کہیں حکایت پڑھی تھی کہ تو مشکل وقت میں اپنے بندوں کے ساتھ نہیں چلتا، بلکہ انہیں بازؤں میں اٹھا لیتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ سچ ہو گا۔
میں نے سنا ہے کہ تیری کریمی آنسوؤں کی قدردان ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ بھی سچ ہو گا۔
مجھے پڑھایا گیا ہے کہ کچھ قبولیت کی گھڑیاں ہوتی ہیں اور تو نہیں ٹالتا۔
مجھے یقین ہے کہ یہ بھی سچ ہو گا۔
سناہے کہ تو سنتا ہے۔
لیکن میرے کریم، میں ایک کمزور، بے صبرا انسان ہوں۔ کمزور ایسے کہ تیرے ٹھیکیداروں سے ڈرتا ہوں، جوتیرے نام کے دربان بنے بیٹھے ہیں اور کوڑوں سی زبان رکھتے ہیں۔ بے صبرا کہ تیری قدرت کے آگے کچھ ناممکن نہیں جانتا کہ انتظار کھینچوں۔
سو میری عرض سن!
مجھے معاف کر لیکن تیرے مددگار بازوؤں کا لمس محسوس نہیں ہوتا۔
آنسو رائیگاں لگتے ہیں۔
قبولیت کی گھڑی میرے دست طلب پر نہیں بندھتی۔
دعائیں آخر کب سنی جائیں گی کہ انتظار بہت مشکل ہے!
تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تیرا دامن میرے ہاتھ میں آجائے؟ کہ بت پرست کو یقین ہے کہ تو اپنے سائل کو جھٹکے گا نہیں۔
اور جب تک قبولیت نہ ہو گی، تیرے دامن کا لمس انتظار آسان کر دے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں