اردو افسانہ اکیسویں صدی میں ۔۔رابعہ الرَ بّاء

(الف) اردو میں افسانہ ایک طویل سفر کر تے ہو ئے داخل ہو ا ۔ حکا یات ، اساطیر ، مثنو ی ، داستان ، اور پھر نا ول کے بعد افسانہ اپنی جگہ بناتا ہے ۔ کہا جا تا ہے کہ ضرورت ایجا د کی ماں ہو تی ہے ، لہذا یہ ایجا د اس وقت کی ضرورت تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ افسانہ (short story) ضرورت کیسے ہو سکتا ہے۔؟

جس طر ح ہر بدلتے وقت کے کچھ تضاضے ہو تے ہیں ۔ یہ اس وقت کا تقاضا تھا۔ جوں جو ں ہم قیا مت کی او رسفر کر رہے ہیں ۔ وقت میں برکت کم ہو تی جا رہی ہے ، اور یہ تیزی کی رفتار ہر لمحے مزید تیز ہو رہی ہے ۔ اب اس بدلتے وقت میں داستان کا دور ختم ہو ا، اور ہم نے نا ول کا عروج دیکھا ۔ اب یہ عبوری دور ہم سے نا ول پڑھنے کا وقت بھی چھین رہا تھا ، مگر اذہا ن لطیف کے تقاضے اپنی جگہ۔ لہذا مختصر کہانی نے اپنی جگہ بنائی ۔ اور مقبو ل ہوئی۔تو اس کو پسند کیا جانے لگا ۔ کیو نکہ یہ ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکتی تھی۔ اور پْر تاثیر بھی تھی۔

اس طرح افسانے نے برصغیر میں ایک صدی تک راج کیا ۔ اس میں تجربات ہو ئے ، مو ضوعات کا تنو ع آیا ، کہانی پن کبھی کم ہو گیا ، کبھی چھا گیا تو کبھی افسانے سے کہانی گْم بھی ہو گئی، شعور کی رو کا سفر بھی کیا ، علامت نگاری کے میدان میں بھی غوطے لگائے گئے، داستا نوں سے بھی کرداروں کو لا کر اس میں شامل کیا گیا۔ مذہبی حکا یات سے بھی اس میں کہا نی تلاشی گئی ۔ تہذیبو ں نے بھی اس پر اپنے اثرات چھوڑے۔زبا نو ں نے بھی اس میں رنگ بھرے، اور ‘اردو ، زبا ن کی تو یہ بھی خوش نصیبی رہی کہ یہ ہر زبا ن کو اپنی کوکھ میں جگہ دے سکتی ہے۔ لہذا ہر زبا ن کے الفاظ اس میں پو ری شان و شوکت کیساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔ جس نے اس کو حسن ِ لطیف سے نوازا۔

مختلف ادبی تحریکیں آئیں تو افسانہ ان کے بھی ہم قد م  ہو لیا ۔جس میں تر قی پسند تحریک کے ساتھ اس کی دِلی وابستگی رہی۔ اور آج بھی ہے۔ اس نے ادبی حلقو ں میں بھی اپنا مقام قائم رکھا اور ان کی گو د میں خوب پروان چڑھا ۔ ان حلقو ں میں حلقہ ارباب ذوق نے افسانے کی پرورش پہ خاص تو جہ دی۔

اس نے دو عالمی جنگو ں کے زخم کھائے ۔جس سے یہ لہولہو بھی ہو ا، افسردہ بھی ہو ا، مسوس بھی گیا، مگر اس کی کو کھ بھانجھ نہیں ہو ئی۔ اس نے تقسیم کے زلزلے بھی سہے ۔ مگر پھر سے اس کے جسم میں جان آگئی ۔ اس نے ہر ہر دور کو اپنے اندر رچا بسا کے تاریخ رقم کر دی ۔اور یو ں اس نے مختلف مراحل سے گزرتے ہو ئے ایک صدی کا سفر طے کر لیا ۔

اب اس کی اپنی اک شاخت بن گئی تھی ۔ اب اس کو اس کے اپنے حوالے سے پہچا نا جا تا تھا۔ اب اس نے نئے دور کے ساتھ قد م بڑ ھانے شروع کئے تو کہا جا نے لگا کہ‘‘ گستاخ،، ہو گیا ہے۔ اب اس کا وجود ‘‘خطرے،، میں ہے۔ معتصب افسانوی مورخوں نے اس کو ایک خا ص مقام پہ لا کر ، اپنی ادبی کتا بو ں کو تالے لگا دیا ۔ اور اعلا ن ہو نے لگا ۔ افسانہ اپنے آخری دموں پہ ہے ۔ بس اس کی اتنی ہی زندگی تھی۔مگر ایسا نہ  تو کبھی ہو ا ہے ، نہ  ہی ہو گا ۔ ‘‘ مو ت ،، کی حقیقت بھی‘‘ انتقا ل ،،ہی ہے۔ لہذا اب اس نئے افسانے کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ افسانہ ختم ہو رہا ہے۔

افسانہ صرف نئے دور کے ساتھ چل رہا ہے ۔ اس نے وقت کے ساتھ اپنا حلیہ بد لا ہے ۔ اور تغیر کو فوری طو ر پہ کبھی بھی قبو ل نہیں کیا گیا۔ اب کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ؟
افسانے نے ‘‘افسانچے،، کا سفر کیا ۔ پھر یہ سو لفظی کہانی میں بھی مقبولیت اختیا ر کر رہا ہے۔ تو ‘‘ ون منٹ سٹو ری ،، بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ لکھی جانے لگی چونکہ وقت کم سے کم ہو تا جا رہا ہے ،سفر تیز سے تیز ، اس لئے افسانہ بھی مختصر سے مختصر ہو رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک جملے کا افسانہ بھی آئے گا ، اور ایک لفظی افسانہ بھی اس دوڑ میں شریک ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ اپنی اصل بھو ل گیا ہے ۔ یہ اپنی اصل میں بھی لکھا جا رہا ہے۔
اس کی زمین وسیع ہو گئی ہے۔ اس کا آسمان پھیل گیا ہے۔ یہ بتدیلیاں فنا نہیں ، ارتقاء ہیں۔
اب یہ جونیا افسانہ اور نئے افسانہ نگا ر ہیں ، جن کا تعلق اکیسویں صدی سے ہیں ۔اس کی بنیادیں مضبو ط ہیں اس لئے یہ پو رے اعتما دسے اس میں نئے تجربات کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔
نیا اسلو ب جگہ بنا رہا ہے۔ نئی تراکیب استعما ل کی جا رہی ہیں ۔ لفظوں کے مروجہ پیما نو ں میں پیوند کا ری کی جا رہی ہے۔ املا ء میں تغیر آ رہاہے۔ وقت کے ساتھ بدلتے نئے مسائل ووسائل کو بیان کیا جا رہا ہے، ترقی اور ، اس ترقی سے جنم لینے والے مسائل اور امکا نات پہ بات کی جا رہی ہے۔ سائنسی افسانے لکھے جا رہے ہیں ، نئے نفسیاتی مسائل کی بات ہو رہی ہے ۔ تکنیک کے اصولوں میں نئی راہیں تلا ش کی جا رہی ہیں۔گلوبل ویلج سے پیدا ہو نے والے نئے کلچر کو اجا گر کیا جا رہا ہے ۔ یہی نیا افسانہ ہے ۔

گلو بل ویلج سے افسانہ کے قاری میں بھی اضافہ ہو اہے اور نئے لکھنے والے پو ری دنیا میں رو بروہو گئے ہیں ۔ افسانہ فارمز سے ایک دوسرے سے جہا ں شنا سائی ہو رہی ہے ، وہا ں افسانے میں مو ضوعات ، اسلو ب ،زبان وتکنیک میں تغیر آرہا ہے۔اور دنیا افسانہ کی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو مثبت پہلو ہے۔
ہر معاشرے کی اپنی کچھ اقدار ہو تی ہیں ۔ ہما ری بھی ہیں ۔ ایک قدر یہ بھی ہے کہ نئے لکھنے والو ں سے تو قع کی جا رہی ہو تی ہے کہ وہ آتے ہی اپنے بزرگو ں کے معیا ر کے مطا بق لکھیں ۔ اس لئے ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات یہ حوصلہ شکنی  اتنی شدت کی ہو تی ہے کہ نئے لکھنے والے نازک دل اس مید ان کو چھو ڑ جاتے ہیں۔ اور بعض نئے لکھاری اتنا عمدہ لکھتے ہیں کہ وقت کے شہنشاہ ادیبو ں کو خطر ہ ِسا لمیت لا حق ہو جاتا ہے ، اور ان کو راستے سے ہٹانے کے لئے ادبی و غیرادبی منفی رویے اختیار کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ سوالیہ نشان نہیں ہے؟ ان لوگو ں کے لئے جو آج یہ کہہ رہے ہیں کہ افسانہ دم توڑ رہاہے۔

ان تما م تر مسائل کے باوجو د ہر طرح کا افسانہ اور افسانو ی مجمو عے منظر عام پہ آ رہے ہیں ۔
البتہ اگر یہ کہا جائے کہ اب افسانہ ان نئے افسانہ نگارو ں نے اپنی تکنیک پہ لکھا ہے توبے جا نہیں ہو گا ۔ایک مو ضوع جو سب نئے لکھنے والو ں  کے  ہا ں کثر ت سے آیاوہ ہے ‘‘ دہشت گر دی ،، جس سے چو نکہ یہ نسل پو ری دنیا میں سب سے زیا رہ متاثر ہو ئی ہے ۔ لہذا اس سے جنم لینے والے مسائل کو بھی انہی نے اجا گر کر نا تھا۔ اس کا اثر چونکہ تخلیق کا ر پہ ہو رہا ہے ، لہذا تخلیق پہ بھی ہو رہا ہے۔ اس نے انسا نیت میں خوف پیدا کیا ہے ، خو ف نے اضطرب کو جنم دیا ہے ۔ اضطراب نے تحریر کی تکنیک و انجا م بدل کے رکھ دیا ہے۔

ایک دور تھا کہ روما نو ی تحریک عروج پر تھی۔ یو ں بھی اردو کا ابتدائی افسانہ اسی کے زیر اثر تھا۔ اب ایک صدی کے بعد ان نئے لکھنے والو ں کے ہا ں رو ما ن کی شد ت سے کمی ہو گئی ہے ۔ جو رومان لکھا جا رہا ہے اس کا رنگ بدل گیا ہے ۔اس نئے ما حول میں یہ بھی نیا رنگ ہے ۔ اور نئے رنگ میں ابھی رنگ اس لئے نہیں بھرا جا رہا کہ حالات ساز گار نہیں ۔ نا باہر کے نا اندر کے۔ باہر کے حالات ساز گار ہو نگے تو اندر کے خود بخود ہو جائیں گے۔ البتہ نئے لکھنے والو ں کے ہا ں لفظی روما ن زیا دہ ہے۔

سائنسی ترقی کی بدولت جہا ں ہم آگے کی طر ف بڑھ رہے ہیں ، وہا ں قدرے پیچھے کی طر ف بھی جا رہے ہیں ۔ کیونکہ ہم فطرت سے دور ہو رہے ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کے ہا ں اس ما ضی کی تلا ش مدھم آنچ کے ساتھ مو جو د ہے۔ اور مستقبل کا خوف بھی ہے۔ کیونکہ انہیں یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ ہر ترقی کے ساتھ فطرت سے دوری مو جو د ہے ۔ جو انسان کے لئے کسی طور بھی منا سب نہیں ۔
نئے لکھنے والو ں نے ادبی روایت کو چھوڑا نہیں ، اس میں رہتے ہو ئے اس کو نئے ما حول میں ڈھالا ہے۔
مابعد طبعات عنا صر نئے افسانے میں زیا د ہ دکھا ئی دیتے ہیں ، کیو نکہ ان کے شعور کی پرواز نا ممکنات کو ممکنا ت تک کا سفر کرواتی ہے۔یہ نسل زیا رہ پر امید ہے۔

نیا لکھا جا نے والا نسائی ادب اصل نسائیت کو سا منے لا رہا ہے، اس سے قبل نسائیت کا صرف ایک ہی روپ لکھا جا تا تھا ۔ جو جنس زدہ تھا ۔ یا مظلو میت کا تھا ۔ نئی لکھنے والی خواتین نے عورت کو اس کی فطرت میں اجا گر کیا ہے۔ ہم مردانہ تخلیق کردہ زنانہ کرداروں میں ہی نسائیت تلاش کر رہے ہیں۔ اور مردانہ کرداوں کا تو تحقیق میں کو ئی نا م و نشان ہی نہیں ملتا ۔
یو نہی اردو افسانے میں مرد اپنی ذات کے ساتھ مو جو د نہیں تھا ۔ معاشرتی متعین کردار ہی اس کی مردانگی کا ثبوت تھے۔ اب یہ رویہ بھی بد ل رہا ہے۔ یہ اصل حقیقت نگاری ہے۔ ابھی تک کی حقیقت نگاری ادھو ری و غیر فطری تھی ۔ہمارے معاشرے کی تابع تھی۔ مگر ہم ابھی بھی اس پہ بات کر نا پسند نہیں کرتے۔
ان سب حقائق کو سامنے رکھتے ہو ئے ، یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ افسانہ دم توڑ رہا ہے۔ میرا خیال ہے جس کو فنا سمجھا جا رہا ہے ، وہ صورت کی تبدیلی تو ہو سکتی ہے ۔ مگر ارتقاء کی اور ایک با شعور قدم ہے
ایک اہم نقطہ جس کا یہا ں ذکر ضروری سمجھ رہی ہو ں

(ب)
اردو ادب میں مر دانہ کر دارنگاری
اردو ادب میں مر د خو د فر امو شی کے کر دار میں د کھا ئی د یتا ہے، اس کی اپنی ذات بہت کم جلو ہ گر ہو ئی ہے۔میدا ن نثر کا ہو ، شا عر ی کا، تنقید کا ، یا تحقیق کا کہیں بھی مر د بھر پو ر طو ر پر یو ں نہیں ابھر ا جس طر ح اس کونظر آ نا چا ہیے تھا۔وہ ہر جگہ عورت کے حو الے سے سامنے آتاہے اور خو دپو شید ہ ہو جا تا ہے۔ یہ شعوری رویہ ہے یا غیر شعوری یہ وقت ثا بت کر ے تو ا چھا ہے۔
ادب میں بات دو طرح سے ہوتی ہے، ادب اور نسائی ادب
تجزیہ دو طرح کا نظر آتا ہے،مجموعی تجزیہ ،نسائی تجزیہ
کردار بھی دو طرح کے نظر آتے ہیں جن کو پرکھا جاتا ہے،مجمو عی کردار نگاری ،نسائی کردار
اور یہ سب کچھ بھی مردانہ ادب میں ذوق و شو ق سے تلاش کیا جاتا ہے۔مرد عورت کو جتنا بھی پرکھ لے،پیاز کی پرتیں اتارنے کے مترادف ہے۔وہ ایک خاص حد سے آگے سفر نہیں کر سکتا۔دوسری حد اس کی خواہش کا پیکر ہے۔جس کو وہ بت کی طرح تراشتا ہے۔

مرد کی اپنی ذات کا حسن عورت کے بنا ادب میں نہیں بکھرتا۔وہ مٹی سے بنا انسان ،اس کی خاک و گرد اس کی کہانیو ں کا حصہ بہت کم بنتی ہے۔جتنے پیار و حسن سے وہ عورت کے پیکر بناتا ہے اتنی خوبصورتی سے وہ اپنا آپ پینٹ نہیں کر پاتا۔بلکہ شاید عورت کے گرد گھومتے گھومتے وہ اپنا آپ بھو ل سا گیا ہے۔لیکن اسے عورت کو سمجھنے کے لیے اپنا آپ تراشنا ہو گا،تو عورت خود بخود اس پہ وحی ہونے لگے گی۔

عورت کے ادب کی بات ہو تو اس کا دائرہ کار جذبات ، جذباتی وجسمانی استحصال تک محدود کر دیا گیاہے۔عورت کے ادب میں بھی عورت کو اتنی گہرائی سے تلاش نہیں کیا جا رہا جس سے وہ مل سکے۔لکھنے والی عورت کی تحریر بھی معاشرے کی حدود و قیود میں سفر کرتی ہے یا پھر حدود بالکل پار کر جاتی ہیں۔یوں عورت بھی مبہم رہ جاتی ہے۔
ہر مر د کے اند ر ایک عو رت اور ہر عورت کے اندر ایک مر دہو تا ہے۔ مگر مر د کے اند ر کی عورت اس سے کیا تقا ضے کر تی ہے یہ معلوم نہیں ہو پاتا ،بلکہ مر د کے اند ر کا مر د بھی اپنا پر دہ چاک نہیں کر تا۔
عورت کے بغیر بھی تو مر د کی اپنی فطر ت کے کچھ تقاضے ہیں، اس کے اپنے محسوسات ہیں اس کے اپنے جذبا ت ہیں ، اس کی اپنی کا میا بیا ں اور نا کا میا ں ہیں جو کسی عمل کا رد عمل ہیں۔مگر یہ سب کچھ مخفی ہے۔

مر د ایک غیر فطر ی د نیا کا شہزادہ بن کر رہ گیا ہے۔ جسکا صر ف جسم ہے، جسے طاقت جسما نی سے عورت کو متا ثر کر نے کے لیے نوازا گیا ہے ، جو بہت بہادر ہے،اور اس کے سا رے معر کے عورت کے لیے ہیں۔
عور ت کے بنا اگر مر دانہ جذبا ت کی با ت ہو تی ہے تو اس کا حو الہ بھی جا کے ایک ہی پہلو جنس سے مل جا تا ہے۔ یا پھر اس کے کا روبا ر، نو کری کے مسائل و سیا ست ۔۔مگر آخر میں علم ہوتا ہے یہ سب بھی وہ بخو شی عورت کے لیے ہی کر ر ہا ہے۔
اس سب کے با و جو د مر د کی ز ندگی میں عورت کے لیے دو ہی جذبے ہیں ۔محبت یا نفر ت۔

مر د پر شکستہ ا حسا س کے اظہا ر کی پا بندی ہے( اس لیے اس نے ادب میں بھی اس پر عمل کیا ہے)مگر اس قید کا رد عمل ہمیں مر د سے نا لا ں کر دیتا ہے۔یہ فطر ت ہے۔ اس غبا ر کو کہیں تو نکا لنا ہے
پھر یہ سارا غبا ر جرائم ، عورت پر منفی رویے کی صورت یا پھر شدید جنسی رویوں کی صو رت نکلتا ہے۔مر د متوا زن نہیں ر ہتا اور اسی غیر متوازن مرد کو جھوٹی مر دانگی کا علم دے کر ، معا شرے میں توازن قا ئم کر نے کے لیے چھو ڑ دیا جا تا ہے۔
مگر افسوس در افسوس مر د ادیب بھی اپنے اس د کھ کو کا غذکے قالب پر اتا رنے سے نا لا ں ہیں۔(کہ شاید عورت نا راض نہ ہو جا ئے) شا ید اس نے خو د بھی خو د کو تسلی دے لی ہے ، کہ مر د کو درد نہیں ہو تا۔یہ خو دفر امو شی ادب کو بھی مکمل نہیں ہو نے دے ر ہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

شورش کا شمیر ی کی کتاب میں ایک خوبصورت جملہ پڑھنے کو ملا ‘‘عورت محبت کرنے کی چیز ہے سمجھنے کی نہیں اور مرد سمجھنے کی چیز ہے محبت کرنے کی نہیں۔’’
یہاں اس کے متضاد رویے گردش میں ہیں۔شاید عورت کو سمجھنے کے عنوان کو اتنا فوکس اس لیے بھی کیا جا رہا ہے کی کہیں عورت مرد کو محبت دینے کی بجائے سمجھ نہ  جائے۔
نئے لکھنے والے کسی حد تک اس حدود کو بھی پھلانگ رہے ہیں ۔ اور اس کو مثبت انداز سے بدلنا بھی ہو گا اگر ادب اور معاشرے میں توازن بر قرار رکھنا ہے ۔ ورنہ انتشار کا رویہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جو ادب کو بھی انتشاری بنا رہا ہے ۔
نئے لکھنے والے اس مروجہ پیٹررن کو بہت با شعور طو ر پھلا نگ رہے ہیں ۔ جو مثبت ہے اور امید ہے کہ ہم جلد مقالاجات کے یہ عنوان بھی دیکھیں گے۔
اردو ادب میں مردانہ کردارو ں کا نفسیاتی مطا لعہ
اردو ادب میں مردانہ جزیات نگاری
اردو ادب کا مرد
توازن تو یو نہی قائم ہو تا ہے ۔ اور مجھے نئے لکھنے والے سے یہ توقع ہے کہ وہ افسانے کو اس حسن سے مزید نو ازے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply