• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پری میریٹل کونسلنگ شادی کو کیسے بچا سکتی ہے۔۔تنویر سجیل

پری میریٹل کونسلنگ شادی کو کیسے بچا سکتی ہے۔۔تنویر سجیل

ارے ! سنا تم نے سکینہ کو طلاق ہو گئی ہے ۔

ہائے کتنی خوبصورت ، پڑھی لکھی تھی  اور جاب بھی اتنی اچھی کر رہی تھی اتنی محنت سے پڑھ لکھ کے ، اتنی اچھی جاب کر نے کے باوجود اس کا گھر نہیں بس سکا ۔۔

ویسے یہ مرد بھی  نا ں  بہت نا ہنجار ہوتے ہیں ان کو ذرا پروا ہ نہیں ہوتی کہ جس کو طلاق دے رہے ہیں  اس کی باقی زندگی کتنی اذیت اور ویرانی سے گزرے گی اوپر سے اکیلے  ہی بچے کو پالنا ، زمانے کے  طعنوں  اور لوگوں کی ہوس سےبچتے رہنا۔کوئی ایک مصیبت ہے جو طلاق کے بعد بیچاری برداشت کرےگی ،سہے گی ۔۔

ہاں ! تم بالکل ٹھیک کہ رہی ہو ۔۔

حالانکہ  اس کا مرد بھی بظاہر بہت خوبصورت ، لائق اور کماؤ تھا ۔ گھر بھی بہت بڑا اور ہر سہولت تھی  مگر پتہ نہیں۔۔نجانے لوگ کیا چاہتے ہیں پل بھر میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اب اس عذاب کو نہیں جھیلنا ۔۔

ویسے مرد سے یاد آیا وہ اپنے محلے کے غفور صاحب بھی کتنے بے بس، محروم اور لا چار انسان ہیں ۔ اپنی بیوی  سے کتنی محبت کرتے تھے اسے تو جیسے گھر کی  ملکہ بنا رکھا تھا ہر وقت ان کی خدمت میں لگے رہتے تھےایسی کون سی خواہش تھی جو انہوں نے پلک جھپکنے میں پوری نہ کی ہو ۔

مگر بیگم صاحبہ کے مزاج ہی نہیں ملتے تھے ہر وقت طعنہ و تشنیع جاری رہتی تھی کبھی غفور کے والدین کو کوسنے دینا تو کبھی غفور کو زبان کی چھری سے کاٹنا ۔ آخر غفور بھی کب تک برداشت کرتا اس نے اپنی تمام کوشش اور خدمت کر دیکھی کہ بیگم سے نبھ سکے مگر۔۔نہ  جی  آخر معاملہ طلاق تک  پہنچ کر ہی ٹھنڈا ہوا ۔۔

مجھے تو کبھی کبھی مرد ذات پر ترس آتا ہے کہ نجانے کتنے جتن کرتے ہیں گھر بسانے اور چلانے کے لیے مگر عورتیں گھر رہ کر بھی سکون اور شکر ادا نہیں کرتیں ۔۔

یہ وہ دو کہانیاں ہیں جو معاشرے میں ہر دوسرے گھر میں نظر آتی ہیں ایسی اور بھی شدتیں، نفرتیں اور حماقتیں ہوں گی  جو ابھی قلم  کے سپرد نہیں ہو سکیں۔البتہ ان کہانیوں کو بیان کرنے کا ایک خاص مقصد ہے جو کہ قارئین کی نذر  کرنے کی کوشش ہے۔

بلا شبہ روز اوّل سے لیکر اب تک شادی شدہ  زندگی پر بہت سے نظریات ، دلائل اور فکری معاملات پر بحث ہوتی رہی ہے  کہیں تو لگتا  ہے کہ مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم  اور کہیں لگتا ہے کہ مرد پس رہا ہے اور عورت ظلم ڈھا رہی ہے  سچائی کیا ہےاور کیسے ناپی جا سکتی ہے اس حوالے سے بہت سی آرا  ء سامنے آسکتی ہیں اور دونوں جانب کے لوگ شائد کبھی ہار نہ مانیں ۔

جیسا کہ رواج ہےکہ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی قابلیت،  اس کام سے متعلقہ آگاہی، مہارت  اور کام کو سرانجام دینے میں در پیش مشکلات کے بارے اگر فرد کو اس کا م کے آغاز میں ہی تربیت دے دی جائےتو اس کام کے نتائج متاثر کن اور بہترین مل سکتے ہیں ۔ ایسے ہی شادی جیسے احساس معاملے پر جب نظر ڈالی جائے تو اس کام کے لیے واحد کوالیفکیشن  جو دیکھی جاتی ہے وہ بالغ ہونا ہے۔

چلیں جی یہ  بھی ٹھیک ہے کہ  شادی کے لیے بالغ ہونا لازمی شرط ہے ۔چاہےشخصی اوصاف، عادات، رویہ جات  کو ثانوی حیثیت دے دی جائے۔ اب ذرا مزید گہرائی میں جائیں تو اپنے خاندان  اور آس پاس طے ہوتی شا دیوں کے طریقہ کار اور مطلوبہ ڈیمانڈ پر غور کریں کہ لڑکی والوں کی کیا کیا خواہشات ہوتی ہیں جو لڑکے میں بدرجہ اتم موجود  ہوں  اور لڑکے والے کیا چاہتے ہیں  کتنا جہیز و انعام و اکرام ہو تو شادی طے پائی جانی چاہیے  ۔

دونوں طرف کے شادی کرنے والوں کے رجحانات پر  غور کیا جائے تو علم ہو گا کہ دونوں ایک خاص قسم کی سودے بازی کرنا چاہتے ہیں جس سے شادی جیسا بزنس کامیاب ہو سکے ۔

مگر بُرا ہو انسانی فطرت کا کہ  یہ زیادہ دیر مادی ضروریات  کی وافر موجودگی یا غیر مو جو دگی  پر کبھی اطمینان  حاصل نہ کر سکی  اور ہمیشہ پیار، خلوص ، خوبصورت رویوں ، بہترین عادات اور پرکشش شخصیت سے ہی مسحور ہونا  اور سکون حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اگر انسان کے خوشی کے اسباب غیر مادی اشیاء ہیں تو شادی میں لڑکے اور لڑکی  کی تعلیمی قابلیت کا اچار ڈالنا ہے جواتنی اچھی جامعات اور درسگا ہوں میں خاک چھاننے کے بعد بھی ایسے  اوصاف نہیں پیدا کر سکے کہ وہ  ایک بیوی  یا شوہر کوسنبھال سکیں مگر سچ تو یہی ہے کہ تعلیم کی  ڈگری والے بھی اکثرایسی ا ہلیتیوں اور صلاحیتوں سے  محروم  ہوتے ہیں ، جو شادی جیسے کام کے لیے کوالیفکیشن جیسی حیثیت  رکھتیں ہیں۔

تو ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے کہ شادی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی؟  یا اس کے لیے کوئی نئی ڈگری یا کورس پڑھنا پڑے گا۔؟

ہاں بات کچھ کچھ ایسی ہی ہے  کہ جب آپ چاہتے ہوں  کہ آپ کسی بھی  کام کو بہترین انجام دے سکیں تو اس کے لیے آپ کو اس کام کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی شادی جیسے احساس رشتے کے لیے بھی تو کسی تربیت کا ہونا ضروری ہے جو مرد و عورت کو اس قابل بنا سکے کہ وہ رشتے نبھا سکیں اور سمجھ سکیں کہ شادی کا مطلب خوشی ہے  نہ کہ شادی کر کے خود اور دوسروں کو عذاب میں مبتلا کر لیں ۔

واہ! آ پ تو اپنی دکانداری  چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں ایسا کونسا کورس ہے شادی کو بہترین اور قائم دائم رکھ سکتا ہے مجھے نہیں لگتا کہ ایسی کوئی  ضرورت ہے کہ یہ کورس یا تربیت لی جائے  کیونکہ  ہمارے آباؤ اجداد نے تو  کوئی  ایسی تربیت نہیں لی پھر بھی ان کی شادیاں بہترین رہی ہیں ۔

آپ اسے دکانداری سمجھیں یا دیانت داری سے عقلمندی کا مظاہرہ سمجھیں ۔

ہمارے آباؤ اجداد کے پاس اتنی جدت بھری زندگی نہ تھی جو  ان کے ذہن اور جذبات میں ایسی سنسنی پیدا کرتی کہ وہ اتنے غیر مستقل مزاج ہوجاتے کہ خود کے موڈ پر قابو نہ رکھ پاتے  اور متلون مزاجی کے مریض کہلاتے ۔اور ایک ایسی جلد باز جاہلانہ فطرت کے بن جاتے کہ  جذباتی فیصلے لیتے   ہوئے گھر اجاڑ لیتے۔  دوسرا ان کو نہ  ایسے کسی چیلنج کا سامنا تھا جو اکیسویں صدی کی پیداوار ہیں ۔ ویسے بھی پہلے لوگ اتنے تعلیم یافتہ بھی نہ تھے مگر باشعور تھے اور تعلق کو نبھانے کے ڈھنگ سے آشنا بھی تھے ۔ مگر آجکل تو  خود کی پیدا کی گئی اولاد پر ہی ذرا قابو ہو تو گھر کیونکر  ٹوٹیں۔

ہاں البتہ جس تربیت کی آج ضرورت ہے اس کو پری میریٹل کونسلنگ کہتے ہیں ، جس کا رواج اب ہر باشعور شخص رکھتا ہے کیونکہ وہ باشعور  سمجھتا ہے کہ انسان کی کچھ مجبوریاں ہیں  کچھ حدیں  ہیں اور ذات کے خلاء ہیں    جو شائد اس کو اس قابل نہ بناتے ہو ں کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی دوسرے فرد کی دخل اندازی کو قبول کر سکیں اس کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکیں اور زندگی کے نئے سفر کو سہانا بنا سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ رشتہ ازدواج کا پابند ہونے سے قبل ماہرین نفسیات سے  شادی سے قبل ہی مشاورت لیتا ہے تا کہ وہ اپنی شخصیت کے ان تاریک پہلوؤں کو جان سکے جو اس کی  ازداوجی  زندگی کو روشن نہ کر سکیں  گےوہ اس بات کا  بھی فہم لیتا ہے کہ شادی شدہ زندگی سے جڑے تمام معاملات کو کس طرح سے خوش اسلوبی کے ساتھ  نبھا سکے گا  یہ مشاورت اتنی ہی اہم ہے جیسے کسی بچے کو حروف تہجی  سکھائے بغیر اس سے تقاضا کیا جائے کہ وہ اک بہترین مضمون لکھ دے ۔تا کہ وہ شادی کر کے خود بھی سرشار زندگی گزار سکے اور پارٹنر کو بھی زندگی میں آگے  بڑھنے اور بہتر زندگی گزارنے کا موقع دے سکے۔

تو مطلب یہ ہے کہ آپ شادی سے پہلے شادی کے بعد پیش آنے والی زندگی کے لیےضروری آگاہی، اہلیت اور قابلیت کا اندازہ لگا کر مردو عورت کو نبھا کرنے کا سلیقے سکھاتےہیں جس کا نام آپ نے پری میریٹل کونسلنگ رکھا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جی بالکل تھوڑا  وقت نکال کے اس بارے مزید آگاہی لے لیجیے گا۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply