تجربوں کے شوقین روتے کیوں ہیں ؟-حیدر جاوید سیّد

پیمرا کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی تقاریر، انٹرویو اور بیانات براہ راست دیکھانے پر پابندی کا معاملہ اب عدالت میں ہے پھر بھی بہت ادب کے ساتھ یہ دریافت کرنا بنتا ہے کہ خود عمران خان کے پونے چار سالہ دور میں ان کے چند مخالف سیاستدانوں کے بیانات و انٹرویو وغیرہ نشر کرنے پر جو پابندیاں لگیں وہ قانونی اور اخلاقی طور پر درست تھیں؟

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کا جیو نیوز پر نشر ہونے والا انٹرویو نشریات شروع ہونے کے چند منٹ بعد روک دیا گیا تھا کس نے حکم دیا تھا۔ پیمرا نے اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی ٹیلیفون کال پر حکم جاری کیا تھا۔

ایک بات طے ہے کہ جو کل غلط تھا آج درست نہیں ہوسکتا۔ لاہور میں وارنٹ گرفتاری کی تعمیل سے بچنے کے لئے عمران خان نے گھر کے ایک “حصہ” میں موجود (متعقلہ حکام جو کہتے ہیں لکھ نہیں سکتا) ہونے کے باوجود سینیئر شبلی فراز سے لکھوادیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ بعدازاں اسی گھر کے لان میں انہوں نے جو تقریر کی اسی تقریر کے ایک حصہ کی وجہ سے ان کی لائیو کوریج پر پابندی لگی۔

الیکٹرانک میڈیا کی اکثریت نے تقریر کے اس حصے کی نشریات “میوٹ” کردیں لیکن یہ ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر دستیاب ہے۔ یقیناً اس میں بعض جملے یا الفاظ ایسے ہیں جو قابل گرفت ہیں۔ مگر اکتوبر 2011ء کے بعد جب پاشا رجیم نے انہیں باضابطہ سرپرستی میں لیا تب سے اب تک ان کی کوئی ایک تقریر، بیان اور انٹرویو دیکھا دیجئے جس میں انہوں نے اخلاق کا دامن تھام رکھا ہو۔

حالیہ تقریر کا ایک حصہ جو پابندی کا باعث بنا کیا ایسی باتیں انہوں نے پہلی مرتبہ کہیں۔ پہلے جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے اس بیانیہ کو آگے بڑھاتے تھے۔ سب چور ہیں، میرے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں خدا نے مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کیا ہے یا اس سے ملتی جلتی دوسری باتیں جن میں مخالفین کی تضحیک کا پورا پورا سامان ہوتا تھا تب کسی کو اخلاقی اقدار اور “وقار” یاد نہیں آئے۔

اب لاڈلہ گریبان سے الجھتا ہی نہیں بلکہ بَھد اڑاتا ہے تو اخلاقیات و قانون یاد آنے لگے۔ جو بویا ہے اس کی فصل اب خوشی سے کاٹیئے تو سہی رونا دھونا کیسا۔

اس کے باوجود میری رائے یہی ہے کہ یہ پابندی اسی طرح غلط ہے جیسے ماضی میں الطاف حسین پر لگی یا دوسرے اس کی زد میں آئے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ پابندیاں مسئلہ کا حل نہیں حل صرف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تجربے کرنا چھوڑ دے اور سنجیدگی سے یہ تجزیہ کرے کہ اس کی لیبارٹری میں آج تک جتنے تجربات ہوئے وہ ناکام کیوں ہوئے اور یہ کہ ہر تجربہ بالآخر گلے کیوں پڑگیا۔

عین ممکن ہے کہ اس سوال پر غور و فکر سے کچھ رہنمائی مل جائے۔ حالانکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں وہ تو خود کو کرہ ارض اور بالخصوص مسلم امہ کی رہنمائی کیلئے مامور من اللہ سمجھتے ہیں۔

خان صاحب کے جو ساتھی اور ہمدرد پیمرا کے فیصلے پر چیں بچیں ہیں یہ اس وقت پیمرا کے اقدامات کا جذبہ حب الوطنی سے دفاع کرتے دیکھائی دیتے تھے جب نشر ہوتے پروگرام روک دیئے جاتے تھے۔ ہم تب بھی کہتے تھے کہ اداروں، عسکری محکموں اور فرد سبھی کو قانون کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے، رکھیل اور سہولت کار کے طور پر نہیں۔

ان لمحوں میں بھی یہی رائے ہے زیرزبر کے فرق کے بغیر۔ لیکن اس کا کیا کیجئے ہمیں آزادی اظہار زمانہ اپوزیشن میں مرغوب رہتی ہے اقتدار کے دنوں میں کِھلتی ہے۔ ایوان اقتدار میں غصے اور جذبات دونوں کو قابو رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ تب خان صاحب بنفسِ نفیس چیئرمین نیب کو فون کرکے پوچھتے تھے، فریال تالپور کو ہسپتال سے جیل کیوں نہیں منتقل کیا گیا؟

گو اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ اے این ایف نے منشیات کے مقدمہ میں دھرلئے گئے رانا ثناء اللہ سے تفتیش کا پروگرام براہ راست وزیراعظم کو دیکھایا تھا لیکن عمران خان جس کا نام ہے وہ اس طرح کی خواہش کر بھی سکتا ہے۔ ان کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کے بعض فیصلوں پر اسے لوہار ہائیکورٹ قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کیا کیا نہیں کرتا تھا۔

کسی کو “رنڈی ان منڈی” اور “حجاب والی طوائف” والے ٹرینڈ یاد ہیں۔ یقیناً وہ غلط تھے عین اسی طرح (ن) لیگ کے سوشل میڈیا کی جانب سے انہیں قادیانی نواز قرار دینے یا ان کے ننھیال کے بعض مرحومین کے مذہب پر سوال اٹھانا درست نہیں تھا لیکن اس کا ہوا کیا دونوں طرف کے بدزبانوں نے خاک چاٹی۔

ابھی سال بھر پہلے فواد چودھری اور بابر اعوان وغیرہ بعض عدالتی فیصلوں پر کہا کرتے تھے چند جج بیٹھ کر ملک کے سب سے مقبول رہنما کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اب کہہ رہے ہیں فلاں فلاں ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے یہ آزاد عدلیہ پر حملہ ہے۔

خان صاحب، دو قدم آگے بڑھے اور بولے چیف جسٹس عمر عطا بندیال قوم کے ہیرو ہیں۔ ہم ہیرو اور زیرو بنانے میں ایک پل سے بھی کم وقت لگاتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں کسی سیاستدان یا دوسرے شخص کی اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کرپایا کہ ملک میں دو ہی ادارے وحدت تحفظ اور انصاف کی علامت ہیں اولاً فوج اور ثانیاً عدلیہ۔

مسلح افواج وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔ یہ محکمہ ہے ادارہ نہیں۔ عدلیہ ایک دستوری ادارہ ہے۔ بدقسمتی سے دونوں نے پچھلی پون صدی میں بالادستی کا شوق پالا پوسا اور آگے بڑھایا۔ چار بار براہ راست مارشل لاء لگا۔ اسے قانونی جواز کس نے فراہم کیا؟ مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی بن مانگے تھمادیا گیا تھا۔

اس لئے کوئی ہمیں کم از کم یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ فلاں وحدت کی ضمانت ہے اور فلاں انصاف کی آخری امید۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ نظام انصاف، سماجی وحدت سمیت دوسری مختلف برائیوں کے بڑھاوے میں ان کا پورا پورا حصہ ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جس وقت جن لوگوں کو یہ بربادیاں فضل و کرم یا فیض کے چشمے دِکھ رہے ہوتے ہیں وہ داد دیتے ہیں باقی قابل گردن زدنی قرار دیئے جاتے ہیں۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی حالیہ باتوں پر غور کیجئے۔ موصوف فرماتے ہیں میں نے تمام معاملات میں عمران خان کو صادق و امین قرار نہیں دیا تھا۔ نظام عدل اور سیاسی عمل کی بربادی کا یہ کردار بھی اس ملک کے نظام عدل نے دیکھا اس کا بوجھ اٹھایا اور بھگتا۔

موصوف لاہور ہائیکورٹ کے جج کیسے بنے کس نے ٹائپ شدہ فہرست میں قلم سے ان کا نام لکھا۔ ظاہر ہے میاں نوازشریف نے کیونکہ ثاقب نثار ان دنوں اتفاق گروپ کے قانونی مشیروں میں شامل تھے۔

آصف سعید کھوسہ نوازشریف کے خلاف ذاتیات پر کیوں اتر آئے اس کے پیچھے ایک تلخ اور رشتوں کے ٹوٹ پھوٹ کی سیاہ داستان ہے۔ کیسے کیسے بونے بھگتے اس ملک اور نظام عدل نے، ایک طویل فہرست ہے۔ جسٹس منیر اور افتخار چودھری یا قیوم ملک تو معمولی سی “چیز” ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لائی لگ ہجوم کے ساتھ ماضی میں جو ہوا درست ہوا اور جو ہورہا ہے یہ بھی درست ہے یہ ہجوم اسی قابل ہے۔ خان صاحب اور ان کے حامی پچھلے کم از کم بارہ برسوں سے اپنے مخالفین کے خلاف جو زبان برت رہے ہیں ویسی زبان ان کے بعض مخالفین ان کے خلاف برتنے لگے ہیں تو اس پر رونے دھونے کی، ضرورت نہیں۔ یہاں سبھی تقریباً ایک جیسے ہیں۔

وہ میڈیا اینکر تو یاد ہی ہوں گے آپ لوگوں کو جو ایان علی کی طبی رپورٹ لئے ٹی وی سکرین پر بتایا کرتے تھے وہ زرداری کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس وقت چونکہ وہ پی ٹی آئی کے حامی اینکر تھے اس لئے ان کی یہ بات اور دعویٰ سچائی کے طور پر آگے بڑھایا جاتا تھا۔

وہ رویہ باتیں اور بہت کچھ تب غلط تھا اور اب اگر کچھ لوگ نئی “کہانیاں” سنارہے تو یہ بھی درست نہیں لیکن جو کل بے پرکیوں پر جھومتے تھے آج جزبجز کیوں ہوتے ہیں؟ حوصلہ کریں دشنام طرازی کا یہ بازار “ہمالیہ کے دامن” میں سجاتے وقت سوچنا تھا کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔

باردیگر عرض کروں الطاف حسین پر لگی پابندیوں کا جیسے کوئی جواز نہیں تھا نہ ہی عمرانی دور کے بعض اقدامات کا کوئی جواز تھا ویسے ہی اب عمران پر پابندیوں کا جواز نہیں۔ جواز پیش کرنے والوں کے لئے دعا بھی غیرضروری ہے ہاں”وہ لوگ” یہ ضرور سوچیں کہ اس طرح کی زبان دانی جب آپ کی چھتر چھایہ میں شروع ہوئی تھی تب آپ اسے ففتھ جنریشن وار کہا کرتے تھے۔

ہم نے تو 2018ء کے انتخابات سے قبل ہی عرض کردیا کہ یہ بدزبانی جس دن آپ کے گلے پڑی تب پوچھیں گے کتنے بیس کا سو ہوتا ہے۔ اس وقت آپ ہمیں سمجھاتے تھے کہ یہ عوامی شعور ہے چوروں کے خلاف۔ حضور اب وہ عوامی شعور عبادت کا درجہ پاچکا اور چیں بچیں ہونا صریحاً غلط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ باغ “آپ” نے لگوایا تھا اب پورا باغ پھل دار ہے، پھل کڑوا ہے تو منہ نہ بنائیں سیر ہوکر کھائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply