تقسیم۔۔حسان عالمگیر عباسی

پاکستان کا قیام ہی تقسیم کا اعلان تھا۔ اب کچھ لوگ پاکستانیت کا پتہ پھینکتے ہیں اور کارڈز لے اڑتے ہیں۔ پاکستان نے قربانیوں کے بعد لوہا منوایا۔ یہ غلط تھا یا صحیح، اس کے نتائج مثبت میں آئے یا منفی میں بحث میں شامل ہی نہیں ہے لیکن یہ چیز طے ہو گئی ہے کہ جیتنے کے لیے دشمن پیدا کرنا ضروری ہے اور دشمن کے دشمن کو دوست بنانا بھی اہمیت سے خالی نہیں۔ یہی تاریخ ہے، یہی حال ہے اور یہی کل ہے! یہ بھی بحث نہیں ہے کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط!

بحث یہ ہے کہ تقسیم ہو کر ہی کچھ ہاتھ آیا ہے۔ امت بھی تقسیم ہوئی تو اسلامی قومیں نہا دھو کر صاف ستھری نظر آئیں۔ جو اسلامی قومیں امت امت کرتی رہیں انھیں بھی ایک نظر ضرور دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ کیوں شش و پنج میں ہیں؟ کیوں پارٹی بازی کرتے ہیں؟ وجہ یہی ہے کہ مفادات! صرف مفادات! اگر کامیابی چاہیے تو ٹوٹ جاؤ، توڑ دو، حکمرانی کرو!

ابھی کچھ دن پہلے ہمیں بلوچستان کی تحریک کی کامیابی ملی۔ کیوں؟ وجہ یہی تھی کہ وہ اپنی جگہ ایک تھے لیکن پارٹی وارٹی سے بیزار، لڑنے والے جھنڈے گھر کی الماری میں لپیٹ کر میدان عمل میں اترے، ایک خیال کی خواتین لیڈ کر رہی تھیں اور ان کی طرف سے کھسوٹنے لوٹنے والوں کو للکار پڑ رہی تھی۔ جونہی لیڈر صاحب پارٹی میں مقید ہوئے تو حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو ان کو ہی کسی پارٹی کا ٹکٹ دے کر انتخابات میں اتار لیا جائے۔

ہم دراصل لکیر کے فقیر ہیں۔ ہماری عقلوں پہ بھی اخلاص سوار ہو چکا ہے۔ حلفاً کہا جا سکتا ہے کہ کراچی والے حافظ صاحب بھرپور قائد ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ قوم کے لیے جیت نہیں سکیں گے؟ کیونکہ وہ قید ہیں۔ وہ تقسیم کا پتہ نہیں کھیل رہے۔ کون سی پاکستانیت؟ اس کا مطلب بھی آتا ہے ہمیں؟ نتائج ملے؟ نہیں! بالکل نہیں! سب کھیل رہے ہیں۔ آپ بھی کھیلو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ صرف ان کے لیے ہے جو حقوق کی جنگ واقعی لڑنا چاہ رہے۔ ہاں، اگر ایسے ہی رہنا ہے تو خیر سے رہو۔ اگر چاہتے ہو کہ ان کا کتا مکھن کھائے اور تمھارا بھائی پاپڑ بیچے پھر ٹھیک پٹڑی پہ ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply