کمر پر جھولتی کنجیاں اور خالی بھڑولے۔۔عامر فاروق

مدت ہوئی چوہدری نے شبو کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ رسمی علیحدگی تو نہ ہوئی پر تعلق میں گرم جوشی بھی نہ رہی تھی۔

اس اُجاڑے سے پہلے نقدی اور زیور والی بکسا نما بڑی پیٹی کی کنجیاں شبو کے حوالے تھیں۔ کھیتوں سے آنے والی جنس، مال مویشی اور دودھ گھی کی فروخت سے ہونے والی آمدن کے علاوہ خشک اُپلوں اور چھان بورے والے کو روٹی کے سوکھے ٹکڑوں کی فروخت سے ملنے والے پیسے بھی شبو وصول کرتی۔ بڑے بکسے کی کنجیاں رنگین پراندے سے بندھی ہوئی اس کی کمر کے خم پر ہلکورے لیتیں جب شبو بن ٹھن کر، دنداسہ مَل کے اور سرمہ لگا کر بازار کا رخ کرتی۔ گھر کی کام والیاں بتاتی تھیں چوہدری کے علاوہ کسی کو کنجیوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ چوہدری البتہ بڑے آرام سے شبو کی کمر پر ہاتھ پھیر کر کنجیاں کھول لیتا اور جتنے ضرورت ہوتی  پیسے نکال لیتا۔

چوہدری تھا بھی ایک نمبر کا کایاں، پیسے سے پیسے بناتا اور گاؤں کے ارد گرد سستی زمینیں خرید کر مہنگے پلاٹ بنا کر بیچتا۔

شبو جب بازار آتی تو دکاندار بھی اڈیاں اٹھا اٹھا کر اس کی راہ تکتے۔ وجہ یہ کہ چوہدری کی منہ چڑھی سہاگن ہونے کے ناتے شبو دکانداروں کو کاروباری رعایتیں دینے یا نہ دینے کی مجاز تھی۔ اس لیے وہ اگر اس کی خوشنودی کے لیے اس کے قریب تھے تو اس کی سختیوں اور لالچ کے سبب دل ہی دل میں اس سے خار بھی کھاتے تھے۔

جب چوہدری اور شبو کی اَن بَن ہوئی تو منشی نے چوہدری کے حکم پر شبو سے بکسے کی چابیاں واپس لے لیں۔ شبو نے بادشاہی دیکھ رکھی تھی۔ اس بے وقعتی پر رنجیدہ ہو گئی۔ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ کچھ عرصہ گوشہ نشینی کے بعد اس نے پھر سے گاؤں میں خوشی غمی کے مواقع پر اپنی کاروباری سوجھ بوجھ کی ڈینگیں مارنا شروع کر دیں۔

ایسے ہی ایک موقع پر ان دکانداروں نے جو شبو کی حکومت کے دور میں چوہدری کے احمقانہ احکامات کے سبب نقصان اٹھا چکے تھے اور اب تک بحال نہ ہوئے تھے، شبو کی کتے والی کر دی۔ پہلے تو شبو ششدر ہوئی پھر پینترا بدل کر بولی، بھائیو غطی میری نہیں۔سب کیا دھرا چوہدری اور نئی چوہدرائن کا ہے پر وہ مانتے نہیں، اندر کی بات ہے دانے مک گئے ہیں۔

یہ غلطی مان لیں تو بندہ کچھ اور سوچے۔ لیکن انہوں نے ماننا نہیں اور تم ابھی مزیدذلیل ہو گے۔ میں ہوتی تو کوئی جتن کرتی، اب نصیب کا لکھا بھگتو۔ تم سب کا دوالہ نکلے گا۔

ادھر شبو بزعم خود عزت بچا کر محفل سے نکلی تو دوسری طرف بات نکل کر چوہدری تک پہنچ گئی۔ وہ تو غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ شبو کو پیغام بھجوایا کہ اس کے بوتھے کو جلاب لگنے سے پورے گاؤں میں چوہدری کی جو کتے والی ہوئی ہے اب شبو اس کا ازالہ کرے۔

شبو کو اور تو کچھ نہ سوجھا ،بس تیتری نائن کے ذریعے گاؤں میں بات پھیلا دی کہ میں نے تو دوالہ نکلنے کی بات نہیں کی۔ میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ بھڑولے خالی ہو گئے ہیں دیکھ سن لو جو کرنا ہے۔
مزے کی بات کہ اس عذر گناہ بدتر از گناہ ٹائپ کی فضول سی وضاحت پر جاگیر میں بے چینی پیدا ہونے کے خوف سے بوکھلایا ہوا چوہدری شانت ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی خوشی میں ایک ہاتھ سے مونچھیں سہلاتے ہوئے کنجیوں کی تلاش میں دوسرے سے اس نے نئی چوہدرائن کی کمر سہلانا شروع کر دی۔ اگلے روز ہی تو منشی نے بتایا تھا “چوہدری جی نال آلے پنڈ وچ سستی بھوئیں ملدی پئی اے، پنج ست سو کنال لے لاؤ، چنگے پلاٹ نکل آن گے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply