سنا ہے کہ اِک
خالی آنکھوں سے ‘نہ دکھنے والا کریہہ
بے حقیقت سا جرثومہ ہی
کر و فر سے
زمانوں ‘جہانوں کی سب وسعتوں میں
ہی ٹانگیں پسارے
یونہی نسلِ آدم کی شہ رگ پہ بیٹھا
عجب طنطنے سے’ فنا بانٹتا ہے
بشر’ جس کی ہیبت سے لرزاں رہی ہیں
حیات اور پھر نیستی کی فضائیں
یہ ابنِ آدم’ خدا کا یہ مغرور نائب کہ
جس نے’ خود اپنی ہی جاتی کے
کمزور اور ناتوانوں پہ اپنی
خدائی کا تھا خونی خنجر چلایا
وہ چنگیزی فطرت کا فانی بشر
ہاں وہی ‘ابنِ آدم
کہ منہ کو چھپائے ہوئے’ آج کل
زرد رو
‘سہما سہما ہوا بس
پناہ مانگتا ہے
دعا مانگتا ہے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں