ہائے یہ ابنِ آدم۔۔ڈاکٹر صابرہ شاہین

سنا ہے کہ اِک
خالی آنکھوں سے ‘نہ دکھنے والا کریہہ
بے حقیقت سا جرثومہ ہی
کر و فر سے
زمانوں ‘جہانوں کی سب وسعتوں میں
ہی ٹانگیں پسارے
یونہی نسلِ آدم کی شہ رگ پہ بیٹھا
عجب طنطنے سے’ فنا بانٹتا ہے
بشر’ جس کی ہیبت سے لرزاں رہی ہیں
حیات اور پھر نیستی کی فضائیں
یہ ابنِ آدم’ خدا کا یہ مغرور نائب کہ
جس نے’ خود اپنی ہی جاتی کے
کمزور اور ناتوانوں پہ اپنی
خدائی کا تھا خونی خنجر چلایا
وہ چنگیزی فطرت کا فانی بشر
ہاں وہی ‘ابنِ آدم
کہ منہ کو چھپائے ہوئے’ آج کل
زرد رو
‘سہما سہما ہوا بس
پناہ مانگتا ہے
دعا مانگتا ہے۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply