• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیالکوٹ میں انسانیت کا ایک اور قتل۔۔محمد وقاص رشید

سیالکوٹ میں انسانیت کا ایک اور قتل۔۔محمد وقاص رشید

کاش میں نے یہ ویڈیو نہ دیکھی ہوتی ،اگر دیکھ ہی لی تھی تو سنی نہ ہوتی۔ ۔ اسکی آواز بند کر لی ہوتی۔  یہ میری آنکھوں نے کیا دیکھ لیا۔ یہ میرے کانوں نے کیا سن لیا ۔ اب آنکھیں ہیں کہ زخم۔۔  یہ کان ہیں کہ آبلے۔۔ یا خدا  ۔۔یہ کیا ہو گیا ۔ اتنا ظلم اتنی بربریت، اتنی سفاکیت،  اتنی وحشت، او خدایا، او میرے مالک۔۔ ۔
اے دین فروش مُلاؤ۔۔ ۔مبارک ہو تمہیں کہ تم کامیاب ہو گئے ۔جو نفرت کا زہر تم نے لوگوں کی رگوں میں بھرا آج دیکھو اس نے ایک اور انسان کی جان لے لی۔ایک اور روح اس زہر آلود منافرت اور شر کی بربریت کا شکار ہو کر زمین سے کوچ کر گئی۔ ۔جشن مناؤ اپنی اس کامیابی پر، خوش ہو کہ تم نے میدان مار لیا اور تم کامیاب ہو گئے۔

کیا غضب ہے۔۔۔ کیا ظلم ہے ۔لکھتے ہوئے شرمندگی ،تاسف ،اذیت اور غم و غصے کے اظہار کا کوئی موزوں لفظ نہیں جس سے اپنے پاش پاش دل کی کیفیت بتا سکوں کہ  خبر کے مطابق سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن نژاد ورکر نے ایک کاغذ جس پر ایک خبر رساں ویب سائٹ کے مطابق درود اور دوسری کے مطابق یا حسین لکھا ہوا تھا اسے پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالا تو اس کا یہ فعل اسکی زندگی کے اذیت ناک اور دردناک ترین خاتمے پر منتج ہوا ۔خبر کے مطابق وہاں موجود سلامتی کے مذہب کے ہلاکت خیز عشاق نے وحشیانہ تشدد کی انتہا کرتے ہوئے سڑکوں پر گھسیٹتے مارتے ہوئے اس زہر کی بھینٹ چڑھا دیا جو انکی رگوں میں پچھلے کچھ سالوں سے بھرا جا رہا ہے۔ اسکا چہرہ مار مار کر بگاڑ دیا گیا اور تو اور اسکے بعد اسکی لاش کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔۔  او خدایا۔۔۔

سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کیا گزری ہو گی اسکے غریب خاندان پر،اسکے بچے تو اسکے چھٹی پر گھر آنے اور انکے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تحفے تحائف لانے کے منتظر ہوں گے ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست نے انہیں کیا تحفہ دیا۔ او مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں ۔ یہاں کی لاکھوں کروڑوں ماؤں کی طرح اپنے جگر گوشے باہر کے ملکوں میں بھیج کر انکے لیے دعائیں مانگنے والی ماؤں کی طرح اس مظلوم کی ماں بھی اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعائیں مانگتی ہو گی اور مطمئن ہو گی کہ اسکا بیٹا ایک مہمان نواز قوم میں موجود ہے۔  بڑی مہمان نوازی کی بھئی ۔۔ اسکی بیوی جو فکرِ معاش کی مجبوری میں اپنے سہاگ کو اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر دور بھیج کر کم ازکم اس بات پر مطمئن ہو گی کہ چلو سلامتی کے مذہب کے قائل ان لوگوں میں ہے جن کے نبی ص رحمت للعالمین ہیں اور اس عالمین میں سری لنکا بھی شامل ہے۔  اسکا بوڑھا باپ اسکی راہ تکتا ہو گا ۔او وحشیو ، بھیڑیو ، درندو سوچو۔۔  اگر زہر آلود ملاؤں کی نفرت کے کینسر سے تمہارا دماغ کچھ باقی بچا کہ  اب وہ خاندان اپنے جان سے عزیز باپ بیٹے بھائی خاوند اور ایک سہارے کی لاش کے جلائے جانے کے بہیمانہ مناظر دیکھ کر تو اس قابل بھی نہیں کہ  کم از کم اسکا جسدِ خاکی ہی مانگ لیں اس مہمان نواز اسلامی ریاستِ و ملت سے۔۔ ۔کیا کوئلے کے ٹکڑے مانگیں گے دفن کرنے کو۔
کاش یہ ویڈیو میں نے آواز بند کر کے دیکھ لی ہوتی خدایا۔۔  اے میرے رب ۔۔۔ کیا آوازیں آ رہی تھیں۔۔ ۔ ایک انسان کو جب درندے اذیت ناک ترین موت کی طرف بہیمانہ تشدد کے ذریعے دھکیل رہے تھے انکی زبانوں پر کس کا نام تھا۔۔ ۔ وہ کیا کہہ رہے تھے۔۔ ۔ کس کے اسم کی مالا جپ رہے تھے۔۔ ۔ وہ بدترین جانی دشمنوں کی سلامتی کی دعائیں کرنے والے۔ ۔ وہ طائف میں پتھروں سے لہو لہان کر دینے والوں کے حق میں دعا کرنے والے۔ ۔ وہ بدترین اذیتیں دینے والے گستاخوں اور شاتموں کو معاف کرنے والے۔ ۔ وہ۔ ۔ وہی ناں حاکم بن کر فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اقلیتوں کی جان مال عزت اور مزہبی آزادی کا ذمہ لینے والے ۔۔۔۔او میرے مالک۔۔ ۔یا خدایا۔

کیا منظر ہو گا آسمان پر۔۔۔۔وہاں جنت کے اس محل میں اس حوضِ کوثر کے کنارے۔ جہاں محسنِ انسانیت جنابِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ والہ و سلم تشریف رکھتے ہونگے۔ جب ایک انسان کو لرزہ خیر تشدد کا نشانہ بناتے ،ٹھڈوں ،ڈنڈوں اور پتھروں سے اسکا چہرہ مسخ کرتے۔  اسکی جان نکالتے۔۔۔ روح قبض کرتے۔۔۔ اسکی لاش کی بے حرمتی کرتے اور یہاں تک کہ اسکو جلا کر کوئلہ کرتے ہوئے انکے امتی انکے نام کے نعرے لگا رہے تھے۔۔۔۔۔۔تاجدارِ ختمِ نبوت ص زندہ باد۔۔  اور لبیک یا رسول اللہ ص کے واشگاف نعرے لگا رہے تھے۔۔ اوہ خدایا۔۔
ابھی چند گھنٹے قبل کی خبر تھی کہ ایک مفلوک الحال ذہنی طور پر غیر متوازن دکھتے شخص کو قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں اسی طرح قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔۔۔۔ پولیس اسکی جان بچا کر تھانے لے گئی تو تھانے کی عمارت کو آگ لگا دی گئی تھی۔۔۔۔ املاک کو بے دریغ نقصان پہنچایا گیا۔۔۔۔کئی گاڑیاں جلا دی گئیں۔ ۔۔

اس سر زمین پر مشعال خان سے لے کر آج پریانتا کمارا تک ہر انسان اپنی دردناک سسکیوں کربناک ترین آہوں اور نزع کی دل گداز ہچکیوں میں یہی سوال پوچھتے ہوئے جیتے جاگتے زندہ انسان سے ایک مسخ شدہ لاش بن جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے بعد اس پر رحم کرنا خود پر واجب کر لینے والے رحیم و رحمان خدا کے رحمت للعالمین پر مکمل کیے گئے سلامتی کے دین پر کسی کی جان یوں کیسے لی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔یہ سلامتی کا مذہب تو ہر گز نہیں تو پھر یہ زہرآلود قاتل نفرتوں کا مذہب کس کا ہے۔؟ ۔سال ہا سال اپنی زبانوں کے شر کا زہر بیچنے والے ملاؤں کو سلامتی کے نام پر حاصل کی گئی ریاست میں سفاک قاتل پیدا کرنے کے لیے کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی انسانیت کو زندہ درگور کرتے ہوئے محسنِ انسانیت کے نام کے نعروں پر ۔۔ ہے کوئی اس سے بڑی توہینِ مزہب۔۔۔ توہینِ انسانیت۔۔۔۔۔۔ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ و سلم ؟

پچھلی تقریباً  ایک دہائی میں مذہبی منافرت کے زہر سے بھرے یہ قاتل اگر یہ سوچنے کی صلاحیت رکھتے تو قاتل ہی کیوں بنتے کہ دنیا جب انسانیت کے اس بہیمانہ قتل کے دوران رسول اللہ کے نام کے نعرے سنتی ہے تو ہمیں چھوڑو انکے بارے میں کیا سوچتی ہو گی۔۔۔۔ہم سے بڑا بدبخت کون ہے۔۔۔۔۔ کہ جو کسی اخبار میں (معاذاللہ) انکے خاکے چھپنے کی مزمت کرتے ہیں اور انکے نعرے لگاتے ہوئے انسانیت کے بہیمانہ قتل کی ویڈیوز خود بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ریاست آخر کب سوچے گی کہ ایک ہی وقت میں فیٹف کی لسٹوں میں نام ،اسلامو فوبیا پر تقریریں اور اپنے ملک میں مزہبی انتہا پسندوں کے زہر آلود کاندھے پر رکھ کر سیاسی بندوق چلانے سے یہ ملک ایک ایسا دوزخ بن جائے گا جہاں پر زندگی کی مسخ شدہ لاش یونہی سڑکوں پر جلتی رہے گی۔۔۔اور زندہ نما مردہ اسکی لاش کے ساتھ سیلفیاں لیتے رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply