• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سرکاری ملازمتیں، مذہبی اقلیتیں اور کلیریکل غلطیاں

سرکاری ملازمتیں، مذہبی اقلیتیں اور کلیریکل غلطیاں

انیس مارچ ۲۰۱۷ کے روزنامہ "آج" پشاور کے اخبار میں ایک اشتہار شائع ہو۔ یہ اشتہار تحصیل مونسپل ایڈمنسٹریشن ضلع بنوں، خیبرپختونخوا کے آفس میں خاکروب کی سرکاری ملازمت کے لیے تھا۔ اس اشتہار میں سکیل نمبر دو پر صفائی کے لیے بھرتیاں درکار تھیں۔ اس میں اہلیت کے خانے میں مذہب لکھا گیا تھا ۔ خاکروب کے’’ اعلیٰ منصب‘‘ کے لیےمذاہب کی بنیاد پر جن کا نام لیا گیا ان میں شیعہ، ہندو، بالمیکی اور عیسائی شامل تھا۔ اس اشتہار کی اشاعت پر سوشل میڈیا پر بہت بحث ہوئی اور زیادہ تر لوگوں نے اسے اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس میں شیعہ مسلک کو بھی دیگر غیر مسلم اقلیت کے ساتھ خاکروب کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر تنقید کی شدت کو دیکھتے ہوئے صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت مختلف سیاسی لوگوں نے اس اشتہار کی مذمت کی۔ مختلف دانشوروں اور سوشل میڈیا پر متحرک صارفین نے اس پر بلاگز اور آرٹیکلز لکھے. مذکورہ محکمے کے عہدہ داروں نے اسے کلیریکل غلطی قراردی تو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اسے اپنی سیاسی رقابت کے لیے استعمال کیا۔
ادھر کچھ شیعہ جماعتوں نے شیعہ مسلمانوں کو غیر مسلم اقلیتوں‌ کی صف میں‌ کھڑے کرنے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا.
حسب معمول عدلیہ کی جانب سے خاموشی ہی دیکھے گئی.
یہاں تک تو معمول کا متوقع رد عمل تھا.
تاہم اس ایشو پر کچھ غیر معمولی رد عمل قابل ذکر ہیں:
• بعض تبصرہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ اشتہار جعلی ہے اور خواہ مخواہ اس فیک خبر کو پھیلا کر فتنہ پھیلایا جا رہا ہے۔
• بعض ایسے بھی لوگ دیکھے گئے جنہوں‌ نے اس اشتہار کی کھل کر حمایت کی ان کے نزدیک شیعہ دنیا کے بدترین کافر ہیں اس لیے ان کو اسی کام پر لگایا جانا چاہیے،
• بعض دیگر کا استدلال یہ تھا کہ ملک میں اقتدار اور اعلیٰ عہدوں پر صرف مسلم اکثریت کا حق ہے اور کمتر پیشوں کے لیے غیر مسلم اقلیتوں سے ہی کام لینا ٹھیک ہے اور یہ جمہوری اصول ہے کہ اس میں اکثریت کی رائے کو تسلیم کیا جائے لہذا ایسے اشتہارات پر شور مچانا صرف شرارت ہے۔
• بعض دیگر نے دنیا کے دیگر ممالک خاص طور پر امریکہ، یورپ اور بھارت میں مسلمان اقلیتوں کو درپیش تلخ امتیازی سلوک اور واقعات کو بنیاد بنا کر استدلال کیا کہ اگر ان ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو ہمارے ہاں موجود اقلیتوں کو ایسے مسائل برداشت کرنے ہوں گے۔

اس پورے رد عمل پر قابل اطمینان امر یہ ہے کہ چلیں ہم وہ دور دیکھنے لگے ہیں کہ منافرت اور تشدد کو حاصل سماجی قبولیت کم ہوتی نظر آرہی ہے اور لوگ کھل کر اس کے خلاف اپنا رد عمل دکھا رہے ہیں نیز سوشل میڈیا کی اس طاقت کو بھی ملاحظہ کر رہے کہ ایک ہی دن میں حکمران پارٹی کی قیادت، متعلقہ محکمے کے عہدہ داران سمیت دیگر وابستہ لوگوں اور اداروں کی جانب سے اس کا فوری نوٹس لیا جانے لگا ہے۔ مین سٹریم اردو اور انگیزی میڈیا نے اس ایشیو کو اٹھایا، سماجی احتساب کا یہ عمل بہت ہی قابل تحسین ہے.
مگراب بھی قابل تشویش امر یہ ہے کہ باقی مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی بعض کو چھوڑ کر زیادہ تر لوگ انسانی ہمدرددی پر مبنی رویہ نہیں دکھا پائے۔ کہیں اس مسئلے کو مسلکی عدسے سے دیکھا جا رہا ہے، کہیں اسے سیاسی جماعتوں کی رقابت کی نذر کر کے الزام تراشی کی جا رہی ہے اور کہیں اسے کلیریکل غلطی قرار دے کر جان چھڑانے کی ہی کوشش ہو رہی ہے۔ اور کہیں اس لیے شور و غل سامنے آیا ہے کیوں کہ یہ خیبر پختونخوا کے ’’پٹھانوں‘‘ کا معاملہ تھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے لیے مختلف صوبوں کی جانب سے گزشتہ تین سالوں کے دوران سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات کا میں نے جائزہ لیا تو معلوم یہ ہوا کہ وفاق، پنجاب، کے پی کے، سندھ، گلگت بلتستان ہر جگہ غیر مسلموں کو سکیل ون کے مختلف کاموں میں سے صرف صفائی کے کام کے لیے اہلیت میں ان کا نام دیا گیا ہے۔ میرے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ سب سے زیادہ وسائل کے حامل صوبہ بلوچستان (جسے سب سے زیادہ پسماندہ رکھا گیا ہے) کی صوبائی حکومت کی جانب سے شائع شدہ اشتہارات میں کہیں بھی یہ بات نظر نہیں آئی، ان کے کم و بیش تمام اشتہارات کے آخر میں یہی لکھا ہوا کہ معذوروں، خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے پانچ پانچ فیصد کوٹہ مختص ہے۔

سماجی زندگی میں امتیازی سلوک کا تناؤ اور احساس کیا ہوتا ہے اس کا ادراک کرنے کے لیے آپ مندرجہ ذیل اشتہارات پڑھتے جائیں۔
• ضلع آواران بلوچستان میں ابل پڑنے والے گٹروں کی صفائی کے لیے تیس لوگوں کی فوری ضرورت ہے اس کے لیے صرف پنجابی درخواست دے سکتے ہیں۔
• ضلع خانیوال میں کوڑا کر کٹ اٹھانے کے لیے پچاس سیٹوں پر درخواستیں‌مطلوب ہیں. صرف کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے لوگ ہی درخواست دینے کے اہل ہیں۔
• کراچی شہر کے دیہی علاقوں میں سیوریج نظام کی دیکھ بھال کے لیے دس بھنگیوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے صرف دیوبندی/ بریلوی یا اہل حدیث مسلک والے ہی درخواست دے سکتے ہیں۔
• لاہور میں سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی گندگیاں صاف کرنے کے لیے ۱۰۰ سیٹیں اردو بولنے والے مہاجروں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔
• پشاور شہر میں بند پڑے گٹروں کی بحالی کے لیے پچاس اہلکاروں کو پکی ملازمت دی جائے گی۔ صرف بلوچ درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔
• مری اور ایبٹ آباد میں سیاحوں کے کپڑے دھونے اور دیگر صفائی کے کام کے لیے سندھی لوگ رابطہ کریں۔
نوٹ: یہ اشتہارت فرضی ہیں جن میں فی الحال انہی طبقات کا نام دیا گیا ہے جن کا ذکر خیر زیر بحث بنوں کے اشتہار میں نہیں تھا۔

آپ سے متعلق اس قسم کے اشتہارات جتنے جلی حروف میں لکھے جائیں اور جتنے خوب صورت انداز میں پرنٹ کیے جائیں اور جتنے نمایاں انداز میں‌ انہیں‌ آویزاں کیے جائیں آپ کے لیے یہ اتنی ہی زیادہ تکلیف کا باعث ہوں گے۔ بنوں کی ضلعی انتظامیہ پر شیعہ مکتب فکر کی کی سخت تشویش اور ردعمل اس کا ایک مظہر ہے۔

اس کا ادراک ہم اس وقت کرپائیں گے جب آپ اپنے آپ کو اس درجہ رکھ کے سوچنے کی ہمت کریں گے۔ مگر کیا کریں آرام دہ کمروں میں پلنے اور زندگی بسر کرنے والے لوگ سماجی تفریق کے اس درد کا ادراک کیسے کریں گے۔ ہر وقت تعریفی القابات و نعروں کی گونج میں جی حضور سننے والے کان اس چیخ کو کیسے سنیں گے۔ ہر صبح ملکی ترقی کے اشاریے اور تنظیمی اجتماعات کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھنے والے رہنما گلی کوچوں میں سیوریج نظام اور قوم کی غلاظتوں کو ٹھکانے لگانے والوں کی حالت زار کیسے دیکھیں گے۔
صفائی کے کام میں کچھ خرابی ہونے کی بات نہیں ہے، صفائی تو اتنا اہم اور بنیادی کام ہے کہ اس کے بغیر تو روئے زمین پر انسانی زندگی کا تسلسل ناممکن ہے۔ اس لحاظ سے صفائی کرنے والے تو گند پھیلانے والوں‌ سے کہیں‌زیادہ بہتر ہیں. ویسے ہر ایک کو اپنا گند خود صاف کرنا چاہیے. آج کل صفائی کا کام بہت بڑا بزنس ہے جس میں‌اب کمپنیاں شامل ہو رہی ہیں، ان کی خدمات لی جائیں‌. صفائی کو ہم تحقیر کا پیشہ بنانے کے بجائے اسے نارمل پیشے کے طور پر دیکھ لیں اس سے احساس برتری اور احساس کم تری کے شکار دونوں طبقات کے نفسیاتی امراض کی شدت میں‌کمی آئے گی..
اصل خرابی کسی خاص مذہب، نسل، یا طبقے کو کسی خاص طرح کے کام کے ساتھ نتھی کرنے اور اس کا تعارف اس کے ساتھ منسلک کرنے میں ہے۔
بنیادی طور پر یہ شناخت کا معاملہ ہے۔ کام اور طبقہ دونوں‌ کو مختص اور متعین کرنے میں‌مسئلہ ہے. جب بطور شہری آپ کو ریاست ہی کی طرف سے کسی خاص طرح کی کم تر شناخت دی جائے تو معاملے کی شدت اور بڑھ جاتی ہے اور معاشرے میں چونکہ ریاست کا عمل دخل حاکمانہ ہوتا ہے اور اسے قانونی سمجھا جاتا ہے اس لیے شہریوں کی شناخت کے تعین میں ریاست کا کام بہت کاریگر ثابت ہوتا ہے . دوسری طرف پہلے سے ہی منافرت پر مبنی تقسیم در تقسیم کے شکار معاشرتی طبقات میں شناخت کی ریاستی تعیین بعض طبقات کے لیے سیاسی فوائد کا اور متاثر طبقات کے لیے مزید عدم تحفظ کے احساس میں اضافے کا ہی باعث بنتی ہے۔
سب سے پیچیدہ اور لاعلاج مرض وہ ہے جس کی موجودگی کا خود مریض اعتراف ہی نہ کرے۔ بلکہ انکار کے ذریعے ٹالتے ہوئے اس کی تشخیص، علاج اور دیگر لازمی اقدمات کے چکر میں ہی نہ پڑے۔ پاکستان میں مذہبی اقلتیوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ پر آج بھی کچھ بڑے دانشور اور قائدین سمیت زیادہ تر لوگ یہ موقف رکھتے ہیں کہ دہشت گردی، سماجی نا انصافی اور امتیازی سلوک کے صرف اقلیتیں شکار نہیں ہیں بلکہ زیادہ متاثر اکثریتی آبادی ہے، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اس پر شور کر کے پاکستان کو بدنام کرنا ایک مغربی ایجنڈا ہے جس پر یہاں کی کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور سیکولر خیالات رکھنے والے دانشور ہی ہر وقت چیختے رہتے ہیں۔
واضح‌رہے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ کلیرکل غلطی ہے، نہ کسی ایک جماعت کا مسئلہ، یہ کسی طرح مسلکی ایشو ہے اور نہ نسلی۔ یہ کسی ایک صوبے کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے قومی شعور کا معاملہ ہے کہ آج بھی کچھ شہریوں کو صرف ان کی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر درجہ انسانیت سے ہم انہیں گرادیتے ہیں، ہماری نظر میں وہ انسانی شرف کے مرتبے پر فائز نہیں‌ ہیں. ہمارے تحت الشعور میں‌ یہ بات رچی بسی ہوئی ہے کہ وہ انسانوں کی شکل میں‌ کم تر اور بد تر مخلوق ہیں جو صرف گندگی، غلاظت اور کوڑا کرکٹ کے ساتھ ہی جی سکتے ہیں ان کی روزی روٹی اسی کام سے وابستہ ہے۔ یہ کام سونپ کر اوپرسے ہم ان کو چوڑے، بھنگی، گندے، نجس اور پلید کے طعنے بھی دیتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ سوچ ہے جس کی بنیاد پر تعصب، تشدد اور قتل و غارت کو جواز نصیب ہوتا ہے اور ان کو صرف ان کے خاص عقیدہ یا وابستگی کی وجہ سے ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا انعکاس اور عملی مظاہرے جب پالیسی ساز ریاستی اداروں‌ کے کاغذات اور بیانات کے ذریعے ہونے لگیں تو یہ سوچ عوام کے ذہنوں میں‌ اس حد تک پختہ ہوجاتی ہے. ان کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کا مقام عوام کو ایک آئینی اور قانونی تقاضآ نظر آتا ہے. عام لوگ اقلیتوں کی اس حیثیت کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں پھر انہی سرکاری بیانیے کی چھتری میں ان پر ظلم و ستم کرنے اور ان سے تفریق سے پیش آنے کو حب الوطنی اور نظریہ پاکستان کی محافظت قرار دیتے ہیں۔ پھر سینے چوڑے کر کے اپنے آپ کو وطن کے وفادار اور اصل باشندے جبکہ مسیحیوں کو مغرب کے، ہندووں اور سکھوں کو بھارت کے ایجیٹ قرار دے کر انہیں پاکستان کے ناقابل بھروسہ اور مشکوک شہری سمجھنے لگتے ہیں۔
قائد کا بیان، مفتی کا فتویٰ اور سرکار کا حکم اگرچہ زیادہ تر صرف بند کمروں میں دیا جاتا ہے لیکن عمل داری، اور پھیلاؤ کے لحاظ سے ان کے سماجی اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان تینوں طبقات کی جڑیں عوام میں‌حاکمانہ انداز میں مضبوط ہیں. ان کا فرمایا ہوا سماج کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے اور دماغوں میں رچ بس جاتا ہے اور منہ سے لفظی اور ہاتھوں کے ذریعے اس کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ اس بیانے کو سرکاری شہ، مذہبی زبان اور نسل در نسل سماجی تسلسل و تعامل نصیب ہوتا ہے .
پاکستان کے مذہبی اقلیتوں کو کئی دیگر اہم مسائل بھی درپیش ہیں خاص طور پر آج کل سکھ کمیونٹی کو مردم شماری میں‌الگ مذہب کے طور پر تسلیم نہ کیے جانے اور نظر انداز کرنے پر بھی کافی تحفظات ہیں. اقلیتوں کو درپیش عدم تحفظ، سماجی سطح پر تحقیر، تفریق اور تضحیک ، سوشل بائیکاٹ اور منافرت کے بنیادی اسباب میں ریاستی اداروں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔
جب نصاب تعلیم کے ذریعے بچوں کو اور سرکاری تربیتی مواد کے ذریعے آفیسران اور اہلکاروں کو منافرت اور عصبیت کی تربیت دی جائے گی اور تعلیمی قابلیت کے بجائے کسی خاص حلیے یا وابستگی کو معیار بنایا جائے، ریاستی اداروں میں کام کرنے کے لیے اہلیت و قابلیت کے بجائے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جائے، معاشرے میں کم تر درجے کے کاموں کے لیے صراحت کے ساتھ نام لے کر کچھ مذاہب سے وابستہ شہریوں کو ان کی کل اوقات بتا دیا جائے تو یاد رکھیں اس کے بعد اوپر سے مساوات اور سماجی انصاف پر ہمارے دانشورانہ استدلال اور پاکستان کے تمام شہریوں کی برابری کے سیاسی بیانات بالکل کاریگر ثابت نہیں ہوتے۔ ریاست کے شہریوں‌میں‌ امتیازی سلوکے ایسے اقدامات ایک طرف آئین پاکتسان میں درج انسانی شرف سے متعلق اُن تمام دفعات کی خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف اسی آئین میں مذہبی آزادی کے آرٹیکلز کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے.
بعض دوستوں کے استدلال یہ ہے کہ اقلیتوں‌ کو غربت اور پسماندگی سے نکالنے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تو میری گزارش یہ ہے کہ اگر ریاست اس مقصد میں مخلص ہے تو وہ ان کے بچوں کو تعلیم و صحت اور روزگار کے بہتر اور باقار مواقع فراہم کر سکتی ہے۔
اگر ریاست ایسے مخلصانہ اقدامات نہیں‌ کر سکتی تو اقلیتوں کو صرف اس پیشے کے ساتھ مختص کر کے ان کی تقویت اور تحفظ دینے کی فکر چھوڑ دے. اور حکمران اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سماجی انصاف، مساوات، تعلیم، صحت اور ترقی کے یکساں مواقع کے کھوکھلے نعرے اور سیاسی بیانات کے لولی پاپ اپنے پاس رکھیں. منافقت چھوڑ دیں‌اور وہی کہیں جس کی گواہی زمینی حقائق دے رہے ہوں. یا تلخ زمینی حقائق میں بہتری کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں‌.

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply