وزیراعظم نے تعلیمی نصاب میں روحانیت اور تصوف کے مضامین شامل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔اس سے پہلے وہ تصوف کی عالمی یونیورسٹی بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کر چکے ہیں۔
ہمارے ویژنری وزیراعظم ان عامیوں کا جینا تو پہلے ہی مشکل بلکہ ناممکن بنا چکے ہیں،جن کو روٹی ،کپڑے،تعلیم،علاج،چھت اور روزگار جیسی لغویات کی ضرورت ہوتی ہے۔لے دے کر ایک ملنگ اور صوفی ہی ایسا طبقہ رہ جاتے ہیں،جو ضروریات زندگی سے بے نیاز ہوتے ہیں،بلکہ کچھ ملنگوں کو تو اپنے میم گاف کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اسی فائدے کے پیش نظر مستقبل میں تعلیمی اداروں سے ملنگ اور صوفی پیدا کرنے سے ملک کے سارے مسائل اسی ایک اقدام سے ہی حل ہو جائیں گے۔جبکہ موجودہ آبادی جلد ہی روزی روٹی،بجلی اور گیس کی ضرورت اور روزگار کی مشقتوں سے بے نیاز ہو کر جنگلوں اور بیابانوں میں ٹھکانہ کر لے گی،جہاں پر ہمارے درویش وزیراعظم کی موالی سرکار کو کبھی کبھار صرف تسبیحاں ،مصلے اور لوٹے وغیرہ ہی پھینکوانے پڑیں گے۔
ویسے بھی پاکستان تو اسلام کا قلعہ ہے،اسے ترقی اوربڑھوتری جیسی بے کار چیزوں کی کیا ضرورت ہے۔
اور یہ دنیا تو ویسے ہی عارضی پڑاو ہے،اصلی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے،جہاں پر سب لوگوں کو بھیجنے کی حکومت مکمل تیاری کر چکی ہے،جبکہ وہاں کے پرسکون ماحول کی وزیراعظم پہلے ہی نشاندہی کر چکے ہیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے،کہ ایسی ہی سرکار پڑوسی ملک میں اب کار حکومت سادھووں اور یوگیوں کے حوالے کرنے کا تجربہ کر رہی ہے ۔
‘خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو’
واقعی اس خطے کی طرح اس ملک کو بھی ڈاکٹرز اور انجینئرز کی نہیں بلکہ صوفیوں اور ملنگوں کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر اور انجینئرز تو پہلے ہی گلی گلی جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں،دوسرا ہر ملک ایسی فضول ڈگریاں رکھنے والے افراد تھوک کے حساب سے پیدا کر رہا ہے۔
یقیناً یہ ایک اچھوتا آئیڈیا ہے،کل کلاں کو ہم اپنی یہ منفرد ورک فورس پوری دنیا کو برامد بھی کر سکتے ہیں۔ہم چشم تصور سے یہ دیکھ سکتے ہیں،کہ کل کو ہمارے یہ مایہ ناز ڈگری ہولڈر ملنگ نیویارک اور پیرس سے لے کر لندن اور سڈنی تک کی سڑکوں ہر جگہ پر دھمال ڈالتے نظر آئیں گے
‘دم مارو دم ‘
‘مٹ جائیں غم’
روحانیت سے خالی کھوکھلی مغربی تہذیب ہمارے صوفیوں اور ملنگوں کے کشف و کرامات سے جلا پائے گی،اور ان کی کرامات سے اپنے بگڑے کام سنوارا کرے گی۔مثلاً وہاں پر مغربی طرز کے ہسپتالوں کی چھٹی ہو جائے گی ،اور ان لوگوں کی سب بیماریاں جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکے سے ٹھیک ہو جایا کریں گی۔ان کے شہروں میں پولیس جیسی کسی چیز کی حاجت نہیں رہے گی،کیونکہ جملہ سرکش خبائث کو ہمارے پہنچے ہوئے بابے اپنے قابو میں کر لیں گے ،اور پولیس والے،پولیس اسٹیشن کے اندر بیٹھے ہی ‘دافع بلیات بالعملیات’ جیسی کتابوں سے آزمودہ عملیات کر کے چوروں ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کی ہڈیاں چور کر دیا کریں گے،زیادہ خطرناک شیطان صفت مجرموں کو ہمارے ملنگ ایک ہی پھونک سے بھسم کر دیا کریں گے۔
وہاں کے بارز اور شراب خانوں کے مقابلے میں ہمارے ملنگ وہاں جگہ جگہ چنڈو خانے کھول لیں گے،جہاں بیئر اور وہسکی کی بجائے،گاہکوں کو بھنگ کے پیالے پیش کئے جائیں گے،جو کہ ہمارے ملک میں وافر مقدار میں موجود ہے،جس کی برآمد کرنے سے ہم کروڑوں ڈالرز کا ذر مبادلہ بھی کما لیا کریں گے۔
کچھ لوگ اس خیال کو احمقانہ کہہ سکتے ہیں،لیکن اگر دنیا میں چینی،اطالوی،ہندی اور میکسیکن کھانوں کے ہوٹل کامیابی سے چل سکتے ہیں،تو شراب خانوں کے مقابلے میں ملنگی چنڈوخانے کیوں نہیں چل سکتے۔
وہاں کے کوڑھ مغز گوروں کے جتنے بھی قبرستان ہیں سب ہی مزاروں کے بغیر ہیں،پتا نہیں ان کمبختوں کے مُردے کس کی انگلی پکڑ کر جنت میں داخل ہوتے ہوں گے،یا پتا نہیں ہوتے بھی ہو ں گے یا نہیں۔ہمارے بھیجے ہوئے ملنگ جیسے جیسے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے قبروں میں لیٹتے جائیں گے ویسے ویسے ان ‘بے مرشدے’ اور راندہ درگاہ گوروں کے قبرستانوں اور محلوں میں ‘بیڑے پار’کرنے والی ہستیوں اور سرکاروں کی کمی پوری ہوتی جائے گی۔اور ثقافتی طور پر ان کو یہ فائدہ ہو گا،کہ ہر سال ان ہستیوں کے عرس اور میلے کی صورت میں انہیں کئی اضافی تہوار بھی مل جائیں گے۔
اس کے علاوہ سائنس وٹیکنالوجی اور خلائی تحقیق وغیرہ جیسے فرسودہ شعبے وہاں اپنی اہمیت کھو دیں گے،کیونکہ ہمارے روحانی سائینس کے پی ایچ ڈی بابے پلک جھپکتے میں، ایک ہی پھونک یا انگلی کے اشارے سےچیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک سیارے سے دوسرے سیارے پر پہنچا دیا کریں گے۔
قصہ مختصر ہمارے وزیراعظم کا تعلیمی نصاب میں روحانیت کے درس شامل کرنے کا فیصلہ اور روحانی یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ دنیا بھر میں ایک ذبردست انقلاب لانے والا ہے۔مجھے تو اب دنیا میں ملنگی راج آتا نظر آ رہا ہے۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں