قانون کی برتری۔۔عاصم اللہ بخش

ایک خدا ہے ۔۔۔۔ مالکِ کُل اور ہر چیز پر قادر۔ وہ اپنے کسی عمل کے لیے کسی کو بھی جوابدہ نہیں، پھر بھی وہ کہتا ہے کہ “اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہوگئی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کر دیا جاتا” (الشوریٰ 14) یعنی وہ جو قادر مطلق ہے وہ بھی طے شدہ قانون کی پاسداری کرتا ہے۔ اس سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور ایک اس کے بندے ہیں ۔۔۔ جو اپنے تئیں اس کے نام لیوا ہیں، اس کے بتائے احکامات کے پابند ہیں، اور حالت ان کی یہ ہے کہ ان کے لیے قانون یا طے شدہ طریقہ کار ہر وقت جوتی کی نوک پر ہے۔ ان کے لیے ان کا ذاتی فیصلہ ہی سب کچھ ہے۔ دیگر ہر شے، ہر اصول و ضابطہ پر حاوی۔ یہ ہے بنیادی فرق اصلاح اور فساد کے مابین۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
قانون سے انحراف، خواہ اس کے لیے وجہ کتنی ہی مقدس اور پرکشش کیوں نہ ہو سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں لاتا۔ آپ اللہ رسول کا نام لے کر یہ سب کریں یا ملک کے وسیع تر مفاد کا ڈھول پیٹتے ہوئے ۔۔۔۔ سب کا انجام انتشار، نفرت اور بربادی ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قانون کی عملداری کو روندنے کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر بہانے تراشتے آئے ہیں۔ “آئین اہم نہیں ملک اہم ہے” ، “عدالت کی ضرورت نہیں گستاخ رسول کی سزا موت ہے”، اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ اس طرز عمل سے ملک نے بھی وسیع تر مفاد کے بجائے وسیع تر نقصان اٹھایا اور اب عوام بھی گستاخ اور شاتم بننے اور بنانے کے عمل سے دوچار ہیں۔ اس تباہی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وجوہات تو مقدس بتائی جاتی ہیں جبکہ ایجنڈا سو فیصد ذاتی ہوتا ہے۔
اس صورتحال کو ٹھیک کرنا ہے تو میری نظر میں اسکی ایک ہی صورت ہے، اس ملک میں “ا” سے لے کر “ی” تک کو یہ بخوبی علم ہو کہ اسے قانون کے مطابق چلنا ہے اور کوئی نعرہ اور کوئی بہانہ اس سے مفر کا باعث نہیں بن سکتا۔ دوسری جانب اس سے بھی بڑھ کر اہم ہے کہ قانونی ضوابط، عملدرآمد کا طریقہ کار، اور اس عملدرآمد پر مامور شخصیات کا انتخاب اتنا فول پروف ہو کہ سب کا اس پر اعتماد ہو۔ عوام کے لیے عدالت جانے کا آپشن کسی بھی دیگر آپشن سے بڑھ کر قابل ترجیح ہو۔
چند برس قبل اسی سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر ایسے ہی ایک ہجوم نے بہیمانہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ وہ مذہب سے متعلق معاملہ نہیں تھا ۔۔۔ لیکن لوگوں کا رویہ تب بھی ایسا ہی تھا ۔۔۔ آج مذہب کی توہین کا الزام لگا کر وہی جرم ہؤا۔ یہ mob mentality کا کلیدی عنصر ہوتا ہے کہ جب لوگوں کو لگے کہ وہ بھیڑ میں چھپ سکتے ہیں تو ان کا اندر کا بھیڑیا بھیانک روپ میں سامنے آنے لگتا ہے۔ اس درندگی کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو اور عدل کی رفتار تیز تر۔ کسی کو بھی قانون سے کسی بھی صورت استثناء نہ حاصل ہو۔ ورنہ عوام میں تشدد کا بڑھتا رجحان اور ریاست کا تیزی سے مفلوج ہوتا نظام جلد یا بدیر معاشرے کی مکمل شکست و ریخت اور بالآخر خانہ جنگی پر منتج ہو گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply