دور اور کہیں لے چل۔۔رؤف الحسن

دور اور کہیں لے چل۔۔رؤف الحسن/مملکت اسلامیہ میں پہلا واقعہ جس نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا، وہ اس بٹالین کا ہے جہاں میرا بچپن گزرا۔ گھر کے سامنے پارک میں آوارہ کتوں کو ٹریپ کر کے پارک کے دروازے بند کر دیے گئے اور انہیں ڈنڈوں اور بیلچوں سے مار دیا گیا۔ میں اور اماں اتفاق سے گھر کی چھت پر تھے جہاں سے پارک صاف دِکھتا تھا۔ میں وہ منظر اور چیخیں شاید کبھی نہ بھول سکوں۔ اس واقعے کے بعد اگلی کئی راتیں میرے اوپر بہت بھاری گزریں۔

دوسرا بڑا واقعہ سیالکوٹ میں دو بھائیوں پر سرعام تشدد اور قتل کا تھا۔ اس واقعے کو میں کبھی بھول نہیں پایا۔

تیسرا واقعہ میرے ماموں لوگوں کی طرف کا تھا جہاں ایک ڈاکو عوام کے ہتھے چڑھ گیا اور تشدد میں اپنی جان کھو بیٹھا۔

چوتھا واقعہ رینجرز اہلکار کی سرعام فائرنگ سے سرفراز نامی شخص کے قتل کا تھا۔ سرفراز کی چیخیں اور اس کا تڑپتا جسم اب تک ذہن سے محو نہیں ہوئے۔

پھر اس طرح کے واقعات کا تسلسل ہے۔ قصور میں زینب کا واقعہ، ساہیوال میں CTD اہلکاروں کی فائرنگ سے میاں بیوی کے جاں بحق ہونے کا واقعہ۔ اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت۔ بلوچستان میں ایف سی اہلکاروں کا حیات بلوچ کا قتل۔ شادی کے پہلے  ہی دن جہیز کم لانے پر بیوی کا قتل۔ نجی بینک میں گارڈ کے ہاتھوں منیجر کا قتل جس پر ہجوم “لبیک یا رسول اللہ” کے نعرے لگا رہا تھا۔

ایک اور اہم واقعہ ان تمام کے درمیان تحریک لبیک کے دھرنے کا ہے۔ اسی دھرنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک چھوٹے بچے کی کیلے کی ریڑھی سے لوگ کیلے اٹھائے جا رہے تھے۔ وہ چھوٹا بچہ انہیں روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ زیادہ دکھ اس بات پر ہوا کہ “لبیکیوں” نے شوشا چھوڑا کہ وہ تو لنگر تھا جو وہ بچہ تقسیم کر رہا تھا۔

پھر آج سیالکوٹ کا واقعہ جہاں ہجوم نے سری لنکن منیجر کو توہین رسالت کے شبے میں قتل کر دیا اور لاش کو آگ لگا دی۔ ابھی کھانا کھانے نکل رہا تھا کہ ٹوئٹر پر اس واقعے کی ویڈیو دیکھ لی۔ مجھ سے اٹھا ہی نہیں گیا۔ تب کا وہیں بیٹھا اس بدبودار معاشرے کی انسانیت پر سوال کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اس واقعے کے لیے بھی جواز تراش لیں گے۔ یہاں یہی ہوتا آیا ہے۔ سمجھ نہیں آتی ایسے لوگوں کے حلق سے نوالہ کیسے اتر جاتا ہے، رات کو نیند کیسے آ جاتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم آخر کر کیسے لیتا ہے؟

ایک ہجوم ہے بس جو مار دو، کاٹ دو، جلا دو کے نعرے لگاتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے سامنے ریاست، ادارے، عام لوگ سب ہی بے بس ہیں۔ جنسی درندوں کا ایک جنگل ہے جس میں سب ایک موقع کی تلاش میں ہیں۔ گلا پھاڑتے ناصحوں کا کارواں ہے جو کفر کا فتویٰ لگانے کے انتظار میں ہیں۔ سچ کی جگہ جھوٹ ہے۔ سکون کی جگہ اشتعال ہے۔ مسکراہٹوں کی جگہ گالیاں ہیں۔ برداشت کی جگہ لعن طعن ہے۔ جہاں فرد کو ہونا چاہیے تھا وہاں ہجوم ہے، اور جہاں ہجوم ہونا چاہیے تھا وہاں سناٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس غلیظ معاشرے میں بدترین زمانے کے بدترین لوگ ہیں۔ جتنا جلد از جلد ہو سکے اس گھٹیا معاشرے پر لعنت بھیج کر یہاں سے جان چھڑا لیں۔ کسی ایسی جگہ جا بسیں جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(ایسے ہر موقع پر مجھے اختر شیرانی کی نظم بہت یاد آتی ہے)
اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہہ عالم سے لعنت گہہ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل!
اے عشق کہیں لے چل!

Facebook Comments

Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. " He was right. I play, and play it beautifully.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply