• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔یاسر لاہوری

حضرت محمد ﷺ بطور ترقی پسند رہنما۔سیاسی اور سماجی اصلاحات/مکالمہ سیرت ایوارڈ۔۔۔یاسر لاہوری

حضور علیہ السلام اس دنیا میں صرف نماز، روزہ اور حج وغیرہ کی تعلیمات دینے آئے تھے؟اس بات کا جواب ہے کہ “نہیں” مگر وہ کیسے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور علیہ السلام کا اس دنیا میں آنے کا اہم مقصد لوگوں کو ذاتِ الہی سے متعارف کروا کر انہیں عبادتِ الہی پر لگانا تھا۔لیکن جب ہم حضور علیہ السلام کو ایک سیاسی و سماجی رہنما کی صورت میں دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی بعثت کا ایک اہم مقصد اس دنیا کو اندھیروں سے نکال کر ترقی کی طرف لے کر جانا بھی تھا۔اور یہ بات حضور علیہ السلام کو بھیجنے والے رب نے بھی فرما دی کہ “یہ قرآن ہے ہم نے اس کو آپ کی طرف اس لئے اتارا ہے تا کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئیں” (سورہ ابراہیم)

آپ علیہ السلام کی حکمرانی کے سبب آئے ہوئے انقلاب کو صرف اپنوں نے مانا؟ ایسا نہیں ہے۔بلکہ آپ نے عرب کی حکومت ہاتھ میں لیتے ہی وہ وہ کام کیے کہ رہتی دنیا تک آپ علیہ السلام کی سیاست ایک تاریخی مثال بن کے رہ گئی۔قیصر روم حضور علیہ السلام کے متعلق سن کر اپنے دربارِ عام میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ “اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو عنقریب جس زمین پر میں کھڑا ہوں، اس نبی کی حکومت یہاں تک بھی پہنچ جائے گی” (بخاری)

حضور علیہ السلام کی سیاست کو، آپ کے پیش کردہ آئین کو اور آپ کی حکمرانی کے سبب پیدا ہونے والے پر امن حالات کو دیکھ کر کئی یہودی اورعیسائی قبائل نے آپ کی ریاعا بننے کی خواہش کی۔آخر حضور علیہ السلام نے سیاسی اور سماجی حوالے سے ایسا کیا کِیا تھا؟ کہ نہایت مختصر مدت میں انسانیت کی کایا ہی پلٹ گئی۔آئیں اگلی چند سطور میں ہم حضور علیہ السلام کے سیاسی اور سماجی حوالے سے کئے گئے چند ایک اہم اقدامات پر نظر ڈالیں۔

1-سیاسی اصلاحات
حضور علیہ السلام نے سیاست میں آ کر اپنی ریاست مدینہ کے تعلقات کو اکیلے ہی دوسری ریاستوں سے بڑھایا۔حالانکہ دوسری قوموں کے ساتھ معاہدے کرنے کے لئے آج ہر ملک میں الگ الگ محکمے قائم ہیں، کیوں کہ یہ کام کسی ایک شخص کا نہیں ہوتا۔اس کام کے لئے عقل کے ساتھ ساتھ تجربہ و دور اندیشی اور معاملہ فہمی کی صفات بھی درکار ہوتی ہیں۔حضور علیہ السلام نے مدینہ میں آ کر اپنی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہی یہودیوں کے ساتھ معاہدے کر کے تاریخ رقم کی۔

اس معاہدے سے یہ فائدہ ہوا کہ مذہب اور نسل الگ الگ ہونے کے باوجود ایک خاص وقت تک یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے لئے دنیاوی معاملات میں معاون و مددگار ثابت ہوتے رہے۔آئین و قوانین پر اس قدر پختگی سے عمل کیا گیا کہ فرمایا “فاطمہ بنت محمد ص بھی اگر چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے”

سیاست، حکمرانی اور ریاست کی حدود دن بدن وسیع ہونے کے باوجود خود کو اور اپنی ٹیم (صحابہ) کو عیاشی میں نہیں ڈالا۔تکبر، غرور اور اکڑ دور دور تک نظر نہیں آتی تھی۔سیاست کے کامیاب رہنما ہونے کے باوجود حضور علیہ السلام اس قدر سادہ طبیعت تھے کہ اپنے جانثاروں میں بیٹھے ہوئے پہچانے نہیں جاتے تھے کہ رعایا کون ہے اور بادشاہ کون ہے۔

آپ ذرا سوچیں کہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی، کچی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار مسجد۔اسی مسجد میں عبادت کی جاتی تھی، اسی میں صحابہ کی تربیت ہو رہی تھی۔وہی مسجد حضور علیہ السلام کے لئے پارلیمنٹ اور صدر ہاؤس تھی، اسی مسجد ہی سے اسلامی افواج کو ترتیب دیا جاتا تھا۔اس قدر سادہ طبیعت سیاست دان ہونے کے باوجود جب حضور علیہ السلام دوسرے بادشاہوں کو خط لکھ کر اسلام لانے کا حکم دیتے تو بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہ سوچ میں پڑ جاتے تھے کہ اب کیا کِیا جائے۔

رسول علیہ السلام نے آج کے روایتی سیاست دانوں کی طرح سیاسی اثر و رسوخ کو اپنا گھمنڈ نہیں بنایا۔ایک شخص حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو ڈر سا گیا، فرمایا ڈرو نہیں میں ایک غریب قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی (ابن ماجہ)

2- سماجی اصلاحات
حضور علیہ السلام کے سماجی رویے اور تعلیمات سے متاثر ہو کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا کہ جس معاشرے کو وقت کی نگاہ بھی فخر سے دیکھتی ہو گی۔جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، وہ اپنی بھوک پیاس بھول کر دوسروں کا خیال رکھنے لگے۔

دورِ جاہلیت میں ایک ایسا معاشرہ بھی تھا کہ جس میں عورت کے مخصوص ایام کے دوارن اسے گھر کے کسی کونے میں محصور کر دیا جاتا، اس عورت کے ہاتھ جس چیز کو چھو جاتے اس چیز کو بھی ناپاک سمجھا جاتا۔اسے کھانا پکانے کی اجازت نہیں تھی۔ایک ایسا معاشرہ کہ جس میں مردوں کو عورت تو چاہیے تھی لیکن اس عورت سے پیدا ہوئی لڑکی نہیں چاہیے تھی۔حضور علیہ السلام نے سماج کی ان رسموں کو توڑ کر عورت کو اس کا حق عنایت فرمایا۔سماجی طور پہ معاشرہ اس قدر نیچے جا چکا تھا کہ غلام کوڑیوں کے بل بکتے تھے، پھر اس زمانے نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام نے اس سماجی رسم کو بھی ختم کیا اور کئی ریاستوں کو غلاموں کے حوالے کر کے انہیں بھی سرداری والے عہدوں سے نوازا۔

“عورتوں کو چاہیے کہ وہ تمہارا حق ادا کریں اور تمہیں چاہیے کہ تم ان کا حق ادا کرو” یہ فرما کر اس سماج کو سمجھا دیا کہ نکاح کر کے عورتیں تمہاری بیویاں بنتی ہیں نہ  کہ غلام!
“جب تم کھانا کھانے لگو اور غلام پاس ہو تو اسے بھی کھانے پر اپنے ساتھ بٹھا لو” حضور نے یہ فرما کر پیسے عہدے کی بنا پر انسانوں کو تقسیم کرنے والی اس خود ساختہ سماجی رسم کو بھی پاش پاش کیا۔جس طرح آج کے جدید دور میں قیدیوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے، اسی طرح حضور علیہ السلام سے پہلے بھی قیدیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، بدر میں ہاتھ آنے والے قیدیوں کو صحابہ کی نگرانی میں دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

مختصر کے خود غرضی ہمدردی اور ایثار میں بدل گئی، جھوٹ بولنے والے سچ کی طرف آ گئے، انسانوں پر ظلم کرنے والے بارگاہ الہی میں آنسو بہا بہا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگے۔حقوق تلف کرنے والے حقوق ادا کرنے لگے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگیں چھیڑنے والا سماج اور معاشرہ اخوت و بھائی چارے کی مثال بن گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات جو قلم نہیں بلکہ دل کہنا چاہتا ہے کہ حضور علیہ السلام جس طرح مذہبی حوالے سے ایک کامیاب رہنما ثابت ہوئے بالکل اسی طرح آپ سیاست اور سماجیت کے اصولوں پر بھی پورا اترے۔دینی رہنما کی طرح سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی آپ کا مقابلہ دنیا کا کوئی بھی دوسرا رہنما نا کبھی کر سکا نا کبھی کر سکے گا۔ہمارے بالخصوص مسلم معاشرے سے منسلک تمام قسم کے سیاسیات اور سماجیات کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ہم بھی ترقی کر سکتے ہیں بشرطیکہ اگر ہم حضور علیہ السلام کو دینی رہنما کے ساتھ ساتھ اپنا “سیاسی اور سماجی” رہنما بھی مان کر ان کے اس تناظر میں ارشاد فرمائے گئے فرامین کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply