• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چائنا پاکستان اقتصادی راہداری(ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک رخ)۔۔۔انفال ظفر

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری(ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک رخ)۔۔۔انفال ظفر

2013میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور چائنا کے وزیراعظم لی کی کیانگ نے چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کا اعلان کیا۔بہت سارے ماہر اقتصادیات اور معاشیات نے اس منصوبے کو سراہا اور خاص طور پاکستانی عوام کی طرف سے پاک چین زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ہماری بھولی بھالی عوام کو ہر حکمران،بیوروکریٹ اور ڈکٹیٹر الو بنا کے گیا ہے۔اس منصوبے کا پاکستان کو کیا عارضی فائدہ ہے یا مستقل ہے۔یا پاکستان کسی اور طرف تو نہیں جارہا ہے۔کیونکہ کسی بھی پاکستانی حکمراں کو ہمارے مستقبل کی فکر تو ہے ہی نہیں۔باتوں اور دعوؤں سے بڑھ کر کوئی بھی ان کا عمل سراہنے کے لائق نہیں ہے۔کیا چائنا پاکستان کے ساتھ اس منصوبے پر مخلص ہے۔؟

1600میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بر صغیر میں قدم رکھا تھا۔تب ان کا مقصد بھی برصغیر کی اقتصادی اور معاشی حالت بہتر کرنا تھا۔اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی نے وہاں تجارت شروع کی اور مغل بادشاہوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیں۔آہستہ آہستہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے کیمپ اور دفتر بنانے شروع کر دیے۔جب ایسٹ انڈیا کمپنی  نے کئی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا اور کئی علاقوں میں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔تو حالات بگڑنے لگے تب مغلوں کی عقل ٹھکانے لگی کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھے تھے۔مگر پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔انگریز بر صغیر میں قبضہ گیر ہو چکے تھے۔اور مغلوں نے اپنی غفلت کا جو انجام بھگتا وہ سب جانتے ہیں۔اور خود بہادر شاہ ظفر نے اپنی بربادی اس شعر میں بیان کی:

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

اگر چائنا کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسرا رخ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔کیونکہ اس کے کچھ کچھ آثار آنا شروع ہو گئے ہیں۔
دو سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں کچھ چائنی انجینئرز پاکستانی پولیس کی گاڑی پر چڑھ کر   غنڈہ گردی کر رہے تھے۔گورنمنٹ کی بے حسی اور بے بسی دیکھیے کہ اس خبر کو دبا دیا گیا۔
پچھلے دنوں جب نواز شریف کو عدالت نے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تو چائنا کے ایک وزیر کا ٹویٹ آیا جس میں صاحب عدالت کو تلقین کر رہے تھے کہ “یہ فیصلہ پہلے آجانا چاہیے تھا”۔مطلب کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے سے آگے اب پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھی دخل انداذی شروع کر دی گئی ہے۔
2004سے گوادر پورٹ ہم نے چائنا کے حوالے کی ہوئی ہے۔اور اب ہمارا اس پر اختیار اتنا ہے کہ گوگل یا وکیپیڈیا پر  ہی صرف یہ پاکستان کی ملکیت ظاہر کی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان پر اثرات
ہم اپنی تہذیب،شناخت جلد ہی کھو دیں گے۔
اللہ سلامت رکھے پاکستان کو لیکن حالات کچھ مستقبل کا عکس کچھ یوں دکھا رہے ہیں کہ برصغیر میں ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی آ رہی ہے۔گوادر پورٹ جس کو ہم اپنا فخر سمجھتے ہیں یہ بھی کھو دیا جائے گا۔چائنا نے ہمیں اب تک کافی قرضہ دے دیا گیا جو کہ ہر سال بڑھ رہا ہے۔پاکستاں جب قرضے کی بوجھ میں سارا دب جائے تو اس کے پاس گھٹنے ٹیکنے کے علاؤہ کچھ نہیں بچے گا اور چائنا کی ہر بات ماننا پڑے گی۔

Facebook Comments

Anfalzafar
میں یو ای ٹی میں انجنیئر نگ کاطالب علم ہوں۔میرے مطابق لکھاری یا ادیب کا لکھنے کا مقصد واہ واہ حاصل کرنا یا شہرت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ لکھے تو مقصد ہو کہ پڑھنے والے کی اصلاح ہو ،پڑھنے والے کو تحریر سے علم ملے وہ محظوظ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply