سماجی رسومات ، محترم رضی الاسلام ندوی اور ہم

انڈیا کے معروف فاضل مصنف جناب رضی الاسلام ندوی نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک تحریر میں اپنی والدہ کی وفات پر اتر پردیش میں اپنے گاؤں میں پائی جانے والی بعض رسوماتِ مرگ کا ذکر کیا ہے، ہم نے اس تحریر پر کچھ کمنٹس کیے ،خیال تھا کہ بات بس یہیں تک محدود رکھیں گے لیکن یہ موضوع بڑا دلچسپ ہے، کھد کھدی ہوئی کہ اس تحریر اور اس پر اپنے تبصروں کو بھی شیئر کیا جائے اور موضوع پر مزید چھیڑ چھاڑ بھی ہوجائے۔ سو پہلے ندوی صاحب کی تحریر دیکھیے، اس کے بعد تبصرے ہوں گے:
سماجی رسمیں:کتنی صحیح؟ کتنی غلط؟
امی جان کی وفات کے وقت گاؤں میں رائج بعض سماجی رسموں کا مشاہدہ ہوا ،احباب کی دلچسپی کے لیے انھیں بیان کردینا مناسب معلوم ہو رہا ہے ۔
1ـ رات ساڑھے گیارہ بجے انتقال ہوتے ہی خاندان اور پڑوس کی تمام خواتین اور مرد آگئے ، جو صبح تک مرحومہ کی چارپائی کے ارد گرد موجود رہے، یہ روایت یہ تاثر دینے کے لیے بھلی معلوم ہوئی کہ ہم لوگ غم میں برابر کے شریک ہیں۔
2 ـ صبح خاندان اور گاؤں کے مرد قبرستان پہنچ گئے، بوڑھے وہاں موجود رہے اور نوجوانوں نے ان کی نگرانی میں مل جل کر قبر کھودی، قبر میں پتھر کی جگہ لکڑی کا استعمال ہوتا ہے ، سو درخت سے شاخیں کاٹنے اور ان کے ٹکڑے کرنے کا کام بھی نوجوانوں نے انجام دیا۔
3ـانتقال کی اطلاع کے لئے پہلے مختلف علاقوں میں آدمی بھیجے جاتے تھے، اب موبائل سے یہ کام آسان ہوگیا ہے،اس طرح جہاں جہاں رشتے داری ہوتی ہے وہاں خبر جلد پہنچ جاتی ہے اور وہاں کی مسجد سے بھی اعلان کر دیا جاتا ہے۔
4ـ بتایا گیا کہ عورتوں کے کفن میں 7 کپڑے دیے جانے کا رواج ہے،میں نے کہا 5 کپڑے کافی ہیں، جیسا کہ فقہ میں بتایا گیا ہے، رسم پر عمل کی ضرورت نہیں ۔
5ـ ایک عجیب رسم یہ وسعجاری ہے کہ خاندان میں ہر گھر سے کچھ غلّہ آتا ہے، گیہوں، دھان، دال، مرچ، لہسن، نمک وغیرہ،سب کو اکٹھا کرکے میّت کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے، اس رسم کو روکنا ممکن نہ تھا ، چنانچہ جو غلّہ اکٹھا ہوا اسے علاقے کے دو مدرسوں میں بھیج دیا گیا۔
6 ـ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد جب لوگ واپس ہونے لگتے ہیں تو ایک شخص اذان دیتا ہے،اس کے پیچھے شاید یہ تصوّر ہے کہ اب منکر نکیر آکر سوال کر رہے ہوں گے ، اس وقت اذان کے ذریعے میّت کو لقمہ دیا جائے، میری شہرت وہابی کی حیثیت سے ہونے کی وجہ سے کسی کو اذان دینے کی ہمّت نہ ہوئی۔
7ـ تدفین کے بعد خاندان کے ہر گھر سے کھانا آگیا ، جو بعد میں بھی تینوں وقت آتا رہا،معلوم ہوا کہ 3 دنوں تک اہل میّت کو کھانا پکانے سے آزاد رکھا جاتا ہے ، منع کرنے کے باوجود کوئی نہیں مانا ، چنانچہ کھانے کی بہتات رہی، یہ رسم بھی اہل میّت کی دل جوئی کے لیے اچھی معلوم ہوئی۔
8ـ معلوم ہوا کہ بعض عورتوں نے دبی زبان میں یہ کہا کہ منگل کی موت اچھی نہیں ہوتی، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بد اعتقادی پھیلی ہوئی ہے کہ جو عورت منگل کو مرتی ہے اس کی روح دنیا ہی میں بھٹکتی رہتی ہے اور چڑیل کی شکل اختیار کرکے لوگوں کو ستاتی ہے(یہ بد اعتقادی ہندو اثرات کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے)
9ـ انتقال کے تیسرے دن اجتماعی قرآن خوانی کی رسم عام ہے،اسے “قل” یا”سوئم” بھی کہا جاتا ہے،اس موقع پر چنے پر اوراد پڑھے جاتے ہیں،اہل میّت جمع ہونے والوں کی ضیافت کرتے ہیں۔میں تیسرے دن اپنی ڈیوٹی پر واپس جا رہا ہوں، اس لیے اس رسم سے بھی محفوظ رہا۔
(ہمارے تبصرے)سر آپ اپنی والدہ کے جنازے کی رسموں کو یوں بیان کر رہے ہیں جیسے کسی ایسے علاقے کی رسمیں ہوں جہاں آپ اتفاقا ً گئے ہوں، کیا آپ وہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے نہیں تھے؟ آپ کے بچپن لڑکپن میں بھی یہ رسمیں رہی ہوں گی ، ہاں یہ ہے کہ کچھ رسمیں اچھی ہوتی ہیں اور کچھ بری آپ نے ان کو توازن سے بیان کیا اور بعض رسموں کو سراہا ،میرے خیال میں قرآن خوانی والی رسم بھی کوئی ایسی قبیح نہیں جس سے آپ بچنے کو غنیمت بتا رہے ہیں ۔باقی وہ رسمیں جن کو آپ سراہ رہے ہیں، قرون اولی ٰ میں تو وہ بھی نہیں پائی جاتیں ، اس لیے میرے خیال میں یہ کوئی وزنی دلیل نہیں سر رضی الاسلام صاحب۔اس سے میرا وہ دعویٰ پھر سے متحقق ہوا، جس کو میں نے فیس بک اور مکالمہ ویب سائٹ پر تفصیلی مضمون میں واضح کیا تھا کہ ہندوستان کے لوگ بالعموم بریلویانہ یا اس سے ملتے جلتے عقائد و رسوم کے قائل و عامل رہے ہیں ۔اسی بنا پر میں نے لطیف انداز میں ایک جملہ بنایا تھا کہ “ہربچہ بریلوی (بمعنی سنی )پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین (یعنی اس کا ماحول و تعلیم) اس کو دیوبندی یا اہل حدیث (بمعنی وہابی)وغیرہ بنا دیتے ہیں”۔ مطلب یہ کہ جناب رضی الاسلام ندوی صاحب ! آپ کی اصل بھی بریلویانہ ہے، بعد میں آپ اس سے متنفر ہوئے ہیں۔ ( اس کمنٹ پر ایک صاحب نے طبع آزمائی فرمائی ، ان کی طبع آزمائی اور ہماری جوابی طبع آزمائی بھی ملاحظہ فرما لیجیے)
ٹھیک ہی کہا۔۔۔۔۔۔ اصلاً انسان اندھیرے میں ہوتا ہے بعد میں اسے اللہ پاک کی خیرخواہی و توفیق سے روشنی میسر آتی ہے۔
تو حضرت کی والدہ کے بارے میں کیا خیال ہے ، اندھیرے میں چل بسیں؟
بالکل نہیں۔۔۔۔۔
اللہ کا شکر ہے ہم سب لوگ شروع سے روشنی میں ہیں۔اندھیرے کے شیدائیوں کو اندھیرا مبارک ہو۔
جن کی میت پر یہ رسومات ہیں، وہ اپنی زندگی میں اپنے ماحول میں ان سے اجنبی رہی ہوں گی؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا،بات صرف یہ ہے کہ ان میں ساری رسومات ہر گز خلاف اسلام نہیں ، جو غلط ہے اس کی اصلاح کر لیں، باقی سے اسلام کو کوئی پریشانی نہیں، کہیں سے اندھیرا داخل نہیں ہوگیا ان میں ، ذرا کھلا ذہن رکھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرون اولی لوگوں کو وہاں تو یاد نہیں آتا، جہاں وہ دین کے نام پر اور بہت سے اجتماعی کام کرتے ہیں ۔یہ جو لوگ اجتماعی طور پر کانفرنسیں اور اس طرح کے لا تعداد دیگر اجتماعات منعقد کر کے اجتماعی طور پر دین کو” ایصال ثواب” کرتے ہیں، اس کا ثبوت قرون اولیٰ میں ملتا ہے؟
میرے خیال میں ندوی صاحب نے جن رسومات کا ذکر فرمایا ہے ، ان میں سے نمبر 8 بد اعتقادی کی قبیل سے ہے ، جو اسلام کے نقطہ نظر سے غلط ٹھہرتی ہے۔ باقیوں میں کہیں مبالغہ ہو تو اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن بنیادی طور پر یہ اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہیں، ان میں سے کئی رسوم کو خود ندوی صاحب نے بھی سراہا ہے، یا ان کی کسی قباحت کا ذکر نہیں کیا۔اب اس میں کیا شرعی قباحت ہے کہ میت کے لواحقین کی دل جوئی کے لیے لوگ اس کے گھر میں آئیں، ان کے اور ان کے رشتے داروں کے لیے کھا نا بنائیں (کھانے کے کئی کئی دن دوسرےگھروں سے آنے کی رسم مناسب نہیں لگتی لیکن میت کےدفنانے کے دن ایسا کرنا میت والوں کی دل جوئی کے لیے ایک اچھی چیز ہے۔) فقہ میں 5 کپڑے خاتون کی میت لیے ہوتے ہیں ،وہاں 7 کا رواج تھا، تو اس میں شریعت کا کون سا ضابطہ ٹوٹتا ہے، وہ لوگوں کے اس خیال پر مبنی ہوں گے کہ عورت کے جسم کو زیادہ سے زیادہ احتیاط سے ڈھکا جائے۔( یہ بات اگرچہ ضروری نہیں لیکن موقع پر تو دیکھنا چاہیے کہ یہ کوئی ایسی رسم ہے بھی کہ نہیں جس سے اسلام کو خطرہ لا حق ہو) نوجوانوں کے محبت و ہمدردی میں قبرستان پہنچ کر بڑے بوڑھوں کی نگرانی میں قبر کھودنا تو عین اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔شہروں میں ایسی تہذیب اور شائستگی ہے نہیں تو گاؤں کی اس خوب صورتی کو خلاف اسلام قرار دینا ! ایسا سوچنا بھی بد ذوقی ہوگا۔ نوجوانوں کا قبر کے انتظامات کرنا، اس پر مٹی ڈالنا، لکڑی استعمال کرنا وغیرہ بھی اعلی ظرفی اور محبت و ہمدردری کے مظاہر ہیں۔قبر پر اذان دینے کو آپ غیر ضروری کہہ لیں ، لیکن اس سے بھی اسلام کو کیا خطرہ ہے؟ اذان تو توحیدو رسالت کا اعلان ہے، یہ تو کسی وہم و تخیل کے تحت دینا بھی برا نہیں ہو سکتا۔ خاندان کے ہر گھر سے غلہ آنا کہ اسے میت کے لیے صدقہ کیا جائے ، خدا لگتی بات یہ ہے کہ اس میں کیا برائی ہے؟ ہمارے ممدوح ندوی صاحب نے یہ غلہ مدرسوں کو بھیج کر مدرسوں کا فائدہ کر ہی دیا، کیا ان مدارس والے بھی اس رسم کو غلط قرار دیں گے ؟ انہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ اس سے”گلشن کا کاروبار” چلے گا۔انتقال کی خبر کے لیے آدمی بھیجنا پرانے زمانے کے ذرائع کے حوالے سے آپ ایسے ہی سمجھ لیں جیسے آپ کا فیس بک یا فون پر انتقال کی اطلاع دینا ، اگر یہ برا نہیں تو آدمی بھیج کر اطلاع دینا بھی کوئی اتنا برا نہیں رہا ہوگا، خیر اس کی اب گاؤں میں بھی ضرورت نہیں رہی۔ سب سے دلچسپ گفتگو پوائنٹ نمر9 پر ہے ، ندوی صاحب کا خیال ہے کہ وہ قل اور سوئم میں شرکت یا اجتماعی قرآن خوانی کی اس رسم سے محفوظ رہے۔ حضرت! آپ ان کئی رسموں سے تو محفوظ نہیں رہے جن میں کتاب اللہ کی تلاوت تھی نہ ذکر اذکارِ خداوندی، لیکن جس رسم میں کلام الہی پڑھا جا رہا ہے ، اس سے محفوظ رہنے کی یوں بات کر رہے ہیں، جیسے خدا نخواستہ کسی کفر سے بچے ہوں۔فضول اور بے سند دعوے بہت جلد دم توڑ جاتے ہیں، اجتماعی قرآن خوانی کا ہمارے معاشرے میں اب وہ لوگ بھی اہتمام کرنے لگے ہیں ، جو اس کے متعلق بدعت بدعت کی گردان پڑھ پڑھ کے بوڑھے ہوگئے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply