مداری۔۔عارف خٹک

مداری۔۔عارف خٹک/فیس بک پر موجود چھوٹے موٹے گروپس نہ تو علم بانٹ رہے ہیں نہ آپ کے یا ہمارے کسی کام کے ہیں۔ ان کا کام گاؤں دیہاتوں کے میلوں میں دکھائے جانے والے مداریوں کے تماشے جیسا ہے۔ چرب زبان اور انسانی نفسیات کو سمجھنے والے، جو آواز لگا کر آپ کو متوجہ کرتے ہیں کہ

“بھیّا آئیں ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ کیسے ہماری ایک آواز پر آپ کا ناڑا کھلتا ہے”۔

آواز میں خوداعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، لہذا سب اپنی شلواروں کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ کہیں واقعی! ہمارا ناڑا کھل ہی نہ جائے۔ لوگ کھیل میں محو ہوتے ہیں کہ جیب کترے سیدھے سادے تماش بینوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرلیتے ہیں۔ یہی اس تماشے کا اصل مقصد ہے۔ مداری کی اصل کمائی یہی ہے۔

فیس بک پر موجود گروپ جو ممتاز مفتی، پروین شاکر، یا کسی معروف شخصیت کے نام پر بنے ہیں، کم پڑھے لکھے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ، آئیں حضور اردو ادب ہم سے سیکھیں۔ ۔ممتاز مفتی، بانو قدسیہ اور منٹو مرحومین دوبارہ جنم لیکر آپ کی خدمت کیلئے پھر سے کوشاں ہیں۔ احساس کمتری کے مارے لوگ جنہوں نے آج تک نصابی کتب بھی نہیں پڑھی ہوتیں، دو دن میں ممتاز مفتی پر اتھارٹی بننا چاہتے ہیں۔

ایڈمن حضرات کہیں سے کاپی پیسٹ مار کر ان پر ممتاز مفتی یا منٹو لکھ لیتے ہیں۔اور گاؤں دیہاتوں کے سادہ لوح تماش بین “واہ واہ” کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پانچ دس ہزار کے فالور ز میں دس پندرہ حسین لڑکیوں کو چن لیا جاتا ہے جو نازک سے کمنٹس کرکے شیدے مصلّی اور ہم جیسے کم ذاتوں کو کہیں جانے نہیں دیتیں  کہ سونیا بی بی نے ہمارے “بہترین” پر لائک کرکے گویا ہمیں فرنچ کس سے نواز دیا ہو۔

ایڈمن حضرات یا حضرت ایک گھاگ دلال کی طرح اپنے فالورز کی نفسیات سمجھتے  ہیں ، لہذا سونیا اور روزینہ کو اس بات پر آمادہ کرلیتا ہے کہ چارپائی پر لیٹے اپنی تصویر پوسٹ کردیں تاکہ پانچ دس ہزار شلواروں میں سنسناہٹ برپا ہو۔ میں نے خود ان گناہگار آنکھوں سے دنیائے فیس بک کے معززین کو ان  کت خانوں میں کتا بنتے دیکھا ہے۔

خوش قسمتی سے کچھ خواتین ان گروپوں سے نکل ہماری فرینڈ لسٹ تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ جن کی سفارش ہمارے قریبی پرستار کرتے ہیں۔ انباکس کے ایک ہیلو کے بعد اوپری جسم کی ایک تصویر آجاتی ہے کہ
“خٹک صاحب  آپ کی مردانگی کے بڑے قصے سنے ہیں”۔
ہم ہکا بکا تصویر کو دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ شاید مولانا فضل کریم ہمارے جذبات کیساتھ کھیل رہا ہے سو تبلیغ کرنے لگ جاتے ہیں۔
“بیٹا آپ جو بھی ہیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں، ایسا نہ کریں”۔

یہ الگ بات کہ جب فون پر ان سے بات شروع ہوتی ہے تو بات کرنے سے پہلے ہم اپنی قمیض اتار لیتے ہیں۔

ہم  اکثر اپنی شرافت کے قصّے فخریہ  گھر میں سناتے ہیں تو بیگم کہتی ہیں کہ تمھاری مثال اس کارٹون کریکٹر جیسی ہے جو پوری دنیا میں تباہیاں مچانے کے بعد معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھتا ہے۔
“Do you hate me?”

ad

ایڈمن ضد کے بڑے پکے ہوتے ہیں۔ مختلف گروپوں کی آپس میں ٹھن بھی جاتی ہیں۔ ایک دفعہ “جنسی علوم” گروپ کے مخالف گروپ کیساتھ اس بات پر ٹھن گئی کہ اس گروپ میں خواتین اپنی پہلی رات کے قصے کھل کر بیان کررہی تھیں۔ لہذا ہمیں حکم ہوا کہ اپنی “شب زفاف” کے قصے کھل کر بیان کیے  جائیں ۔ ہم اس بات کیلئے قطعی تیار نہ ہوئے کہ کون اپنی منکوحہ کے زیر و بم بیچ محفل موضوع سخن بناسکتا ہے۔ سو منع کردیا۔ اور اگلے دن ایڈمن نے ہماری تاریخی بے عزتی کرکے گروپ بدر کردیا۔ دوستوں نے بہتیرا وجہ پوچھی تو بتایا ایک بار منیر نیازی نے بتایا کہ اس سے زیادہ بے عزتی کبھی نہیں ہوئی، ہوا یوں کہ وہ ایک تانگے میں سوار ہوئے۔ اس تانگے کی ایک اور تانگے والے سے ٹھن گئی۔ اب دونوں تانگے نہایت خطرناک انداز میں بگٹٹ بھاگنے لگے۔
منیر نیازی اور دیگر سواریوں نے گھبرا کر شور مچادیا کہ “تانگے کی رفتار کم کرو”۔
جب اصرار بڑھا تو کوچوان نے مقابل کوچوان کو یہ کہتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں
” پْتر جے میریاں سواریاں ڈرپوک  نہ ہوندیاں تے تینوں دسدا”

یہاں معلوم ہوتا  ہے کہ ایڈمن صاحب ، جس کا اصل کام ہی مداری والا ہے، گاؤں دیہاتوں کی انڈر میٹرک ثمینہ، روزینہ، شبانہ کو خود اعتمادی سے بھرپور آواز میں ممتاز مفتی کے اقوال زرّیں دکھا کر متوجہ کرتا ہے۔
“عورت ایک شجر سایہ دار ہے۔ مرد کلہاڑی ہاتھوں میں تھام کر اس شجر کو کاٹ لینے کے درپے ہے”۔

روزینہ، شبانہ، ثمینہ اور سونیا کو اپنے اپنے شوہر ظالم لگنے لگتے ہیں اور ایڈمن کو توجہ سے سننے لگ جاتی  ہیں۔ دروغ بہ گردن راوی کہ یہی مداری کھیل فیس بک پر موجود کچھ جانے پہچانے “مذہبی اسکالرز” بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اصل کھیل یہیں  سے شروع ہوتا ہے۔ ایڈمن اور اس کے دوست، ان تماش بین خواتین کے کھوپچوں میں پہنچ کر ان کی دلجوئی کرنے لگتے ہیں اور اگلے ماہ ان بیچاریوں کی ننگی ویڈیوز ہم جیسے اخلاق باختہ لوگ مختلف واٹس ایپ کلوز گروپ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان گروپوں سے بچیں۔ ان گروپوں کا علم و ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کو خود نہیں معلوم کہ ممتاز مفتی اور منٹو کا تعلق شکارپور سے تھا یا پشاور سے۔ یہ اصل مداری ہیں۔ جن کا مطمع نظر فقط آپ کی شلواریں ہیں۔اور کون آپ کی جیب صاف کرتا ہے، آپ نہیں جانتے مگر مداری ضرور جانتا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply