زما جانانہ گُل خانہ

زما جانانہ گل خانہ
شخصی خاکہ
انتساب: عارف خٹک کے نام
۔
کرنل خان نے کہا، ہمارے یار آغا کی فلاسفی یہ ہے کہ موٹے آدمی کیلئے بہت زیادہ موٹی محبوبہ بھی ایک بونس سے کم نہیں بلکہ ایک خدائی عطیہ ہے جسے وزن کئے بغیر قبول کرلینا چاہئے، یہ آپشن ازدواجی فاقے کاٹنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

آجکل کی جنریشن کا شوق ہی عشق کرنا ہے، عشق سے مراد وہ تمام منزلیں مارنا جو قبول ہے پہ منتج ہوں، محبوب کے پیچھے بھاگنا، ہاتھ پاؤں جوڑنا، جوروجفا سہنا، تعلقات بیلنس رکھنے کیلئے بیلنس ڈلوانا، بے تکی باتوں پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسانا اور محبوبہ ایسی ڈھونڈتے ہیں جس کا گریبان فیشن میں چاک ہو، تراشیدہ زلفیں ہوا کے دوش پر لہراتی ہوں اور پیمائشِ اعضاءِ ثلاثہ صفر سے زرا سی اوپر نکلتی ہوئی ہو۔

فربہ انداز محبوب کی تلاش میں سرگرداں عاشق اب تک صرف ایک ہی دریافت ہوا ہے جس کا عشق اٹھتا ہی بھاری بھر کم وجود کے سہارے ہے، جیسے جیسے محبوبہ کا وجود پھولنا اور پھیلنا شروع ہوتا ہے ویسے ویسے ان کا عشق بھی پھلنے پھولنے اور پھیلنے لگتا ہے، یہ حیرت انگیز شخص ہمارا دوست گل خان ہے۔

سمارٹ ہونے کے چکر میں لڑکیاں اس قدر بدل گئی ہیں کہ لبہائے گلرنگ نظر نہ آئیں تو آتے جاتے کسی طرف سے بھی لڑکی معلوم نہیں ہوتیں، پاس کھڑی ہوں تو بھی پتا نہیں چلتا کہ کونسے اعضاء کہاں واقع ہیں، ایسی مشکوک مہہ جبیں گل خان کو نہیں بھاتی، پسند آ بھی جائے تو اس میں ہوا بھرنے کے اوزار، ذرائع اور طریقے ڈھونڈنے لگتا ہے تاکہ کسی طرح سے پھول کر گوہرِ مقصود بلکہ گُہر کی کان بن جائے۔

بقول حضرت عدمؔ
میں سیدھی لکیروں کی کیا داد دوں … جو خط دلربا ہے وہ خم دار ہے

یوسفی صاحب نے بارے کسی کے ارشاد کیا کہ موصوفہ کی ذاتی فہرست مضامین کا آسانی سے مطالعہ کیا جا سکتا تھا، کرنل خان نے کہا، مس لوسی کامڈن دوہرے اخلاق کی حامل ایک خوشمزاج خاتون تھیں، مس لوسی ایک قدم آگے بڑھ کے احوال پوچھتیں تو ان کے اخلاق ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مزاج پوچھتے تھے، غالب نے کہا تھا آؤ کہ ہم تم مل کے آسمان کا دستور بدل ڈالیں اور شراب کے پیالے کو گردش میں لاکے تقدیر کا رخ پھیر دیں۔

گل خان کو ایسا ہی محبوب چاہئے جس کی فہرست مضامین آسانی کیساتھ پڑھی جاسکے اور اس کے اخلاق دوقدم آگے بڑھ کے احوال پوچھنے والے ہوں، گل خان مس لوسی کے اخلاق کو محبت بھرے شراب کے دوپیالے قرار دیتا ہے اور غالب کی طرح ان پر فریفتہ بھی ہو جاتا ہے۔

مس پارس نے کہا کرنل خان آپ اس صوفے پر بیٹھیں یہ آرام دہ ھے، کرنل صاحب نے بیٹھ کر دیکھا تو صوفہ واقعی مس پارس کی طرح نرم و ملائم اور بہت آرام دہ تھا، جب جب گل خان جہاز میں بیٹھتا ہے تو ایک آہ بھر کے کہتا ھے، محبوبہ کو بھی جمبو جیٹ کی طرح اندر سے ایسا ہی ہونا چاہئے آرام دہ، نرم اور کشادہ، بندہ اندر جا کے اس کے دل پر پپی کرکے وہیں سیٹ کھول کر سو جائے یا دائیں طرف کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتا رہے، یا پھر کم ازکم لڑکی ایسی ہونی چاہئے جس کے پاس نسوانی حسن کی جگہ دو جڑواں فلیٹ ہوں اور کھلے کھلے ہوں، دل چاہے تو ان میں رہائش رکھ لے، رات کو ایک میں سو جائے تو صبح دوسرے سے برآمد ہو، اور عقبی حصے کا رقبہ بھی نئی دہلی جتنا وسیع و عریض ہو تاکہ جی چاہے تو ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کیلئے اس پر باغ یا گولف کورس بنا لیا جائے۔

گل خان کے دائیں بائیں اگر درجن بھر دبلی پتلی حسینائیں بھی رنگ و نور کی برسات لئے کھڑی ہوں اور ایسے ماحول میں ایک موٹی لڑکی سامنے سے آجائے تو گل خان باقی سب کو ڈز ڈز خیالی گولیاں مار کے اس ایک کو حسرت سے دیکھنے لگتے ہیں کیونکہ جو بندہ ایکبار کسی تنگ گلی کی بھیڑبھاڑ میں پھنس چکا ہو وہ پھر کھلے کھلے راستے ہی تلاش کرتا ہے، صاحباں نے کہا تھا سُنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے، خان صاحب چاہتے ہیں کُھلیاں ہوجان گلیاں تے وچ گل خان آسانی کیساتھ پھرے۔

کرنل خان مادام پیکارڈ کی خوشبودار چائے اور اس کے ذوق نفاست سے ایسے متاثر ہوئے کہ پھول والی پلیٹ میں چاہا دل رکھ دیں، گل خان اتنا متاثر صرف ایسی میڈم سے ہوتے ہیں جس کی چائے بیشک جیسی بھی ہو لیکن پیمائشِ ثلاثہ 336:224:336 سے رتی بھر کم نہ ہو۔

سارہ نے کرنل صاحب سے کہا، انگریز کا تصور عیش بس اتنا ہی ہے کہ ہاتھ میں گلاس ہو، اس میں جام ہو تو بہتر ورنہ کوئی محلول ضرور ہو، گل خان کا تصور عیش بھی فقط اتنا ہی ہے کہ ہاتھ میں پکڑنے کیلئے کچھ مل جائے اور دونوں ہاتھوں سے تھامنے لائق ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

کرنل خان نے کہا تھا، عورتوں کے کاموں کو سمجھنا لازمی ہوتا تو کوئی کام بھی کبھی شروع نہ ہو پاتا، یہی حال گل خان کا ہے، پھر بھی سمجھنے کی کوشش کر لیتے ہیں، شائد کچھ سمجھ میں آجائے!

فیس بک پر ہمارا سب سے پیارا دوست گل خان ہی ہے، اس بات کا احساس پہلی بار اس وقت ہوا جب ہم نے ان کی فرینڈلسٹ میں لڑکیوں کی بھرمار دیکھی، ہرچند کہ گل خان نے ہمیں بہت یقین دلایا کہ یہ سب لڑکیاں نہیں عبدالغفورز ہیں لیکن بعد ازاں جب وہ لڑکیاں ہی ثابت ہوئیں تو گل خان کے ساتھ ہمارا پیار مزید بڑھ گیا یہ سوچ کر کہ وہ ہمیں بے راہ روی سے بچانے کیلئے کتنا جھوٹ بولتے رہے، اس خیرخواہی پر ان کا شکریہ ادا کرنا بنتا ہے اسی لئے یہ محبت نامہ لکھا بلکہ گھسیٹا جا رہا ہے۔

گل خان کی زنانی برگیڈ کا حال بھی بڑا عجیب ہے، کرنل خان کے بقول لڑکیاں ان کی تحریر دیکھ کر پہلے حسرت زدہ ہوتی ہیں کہ اب تک انہیں پڑھا کیوں نہیں، پھر ان کی تحریر دیکھ کر حیرت زدہ ہوتی ہیں کہ یہ کیسا لکھتے ہیں، پھر انہیں چس پڑجاتی ہے بلکہ عیش ہو جاتی ہے، گو کہ زنانی برگیڈ ان کی تحریروں پر تبصرے نہیں کرتی لیکن ان کی خاموشیوں میں بھی مینی۔مینی۔تھینکس، لوو یو، لویو، موا موا، جانو جانو، ام ام، پپ پپ چھپے ہوتے ہیں۔

کرنل خان نے کہا فرانسیسی جب اپنے لہجے میں انگریزی بولتے ہیں تو ہر ۔ر۔ کی جگہ ۔غ۔ لگا جاتے ہیں، جب تک ہم اس ۔غ۔ کی جگہ ۔ر۔ لگا کے لفظ سمجھنے کوشش کرتے ہیں تب تک وہ دس ۔غ۔ آگے نکل جاتا ہے، گل خان کی تحریریں بھی کچھ ایسی نشیلی ہوتی ہیں کہ لوگ ایک کے نشے سے ابھی نکلتے نہیں کہ دو چار ع۔غ مزید آجاتی ہیں، اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ام ام، پپ پپ، جانو جانو والی چیزیں ان کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیتیں، شام کے بعد ان سب کا نشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔

گل خان کی تحریروں میں نشہ ان کے دوٹوک الفاظ اور لگی لپٹی رکھے بغیر کھلا کھلا لکھنے کی وجہ سے ہے، دوٹوک کا تو پتا نہیں البتہ اتنا کھلا کھلا ضرور لکھتے ہیں کہ ایک لفظ سے دوسرے کا فاصلہ اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک گرلفرینڈ سے دوسری کا ہونا چاہئے۔

زنانی برگیڈ تو ایک طرف، گل خان پر تو ہمیں بھی بہت پیار آتا ہے پر وجہ سمجھ نہیں آتی، شائد ان کی کلین شیو والی فوٹو من میں اٹکی ہوئی ہے، گل خان جب کلین شیو تھے تو زیادہ معصوم لگتے تھے، ان لمبی لمبی مونچھوں میں تو صرف لڑکیوں کے کام کے ہیں اور اگر داڑھی رکھ لیں تو مسرت شاہیں بھی سو نفل پڑھنے کو تیار ہے تاکہ الیکشن میں انہیں کم از کم ایک مولوی سپورٹر تو مل جائے۔

گل خان ہمارا قیمتی سرمایا ہے بلکہ بلینک چیک ہے لیکن لیتا کوئی نہیں، ایک پان والے سے کہا، یہ لو سرمایہ اور چھ پان دے دو … مگر وہ نہیں مانا، اسے خوف پڑ گیا کہ یہ گھر لیجانے والا سرمایہ نہیں ہے، پھر یہ سرمایہ کام میں لانے کے لئے ایک فارن بینک سے بات کرنی پڑی… یوں تو فارن بینک والے بھی متفق ہیں کہ خان صاحب ہمارا قیمتی سرمایہ ہے لیکن وہ ٹریولرز چیک نہیں لیتے، خان صاحب کی صبح کہیں ہوتی ہے تو شام کہیں، اتنا ٹریول کرتے ہیں لیکن موٹی پھر بھی نہیں مل کے دے رہی۔

گل خان نے جب پشاور جانا ہوتا ہے تو چپکے سے چلے جاتے ہیں لیکن جب واپس آنا ہوتا ہے تو باقاعدہ اعلان کرتے ہیں کہ گل خان پشاور سے چل پڑا ہے، نہ بھی اعلان کریں تو جس طرح سے فیسبک کی کھڑکیاں بجنے لگتی ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ لالہ آرہا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جسے دیکھ کر اکثر بچیاں انہیں لالہ کہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتی ہیں۔

خان صاحب بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں، ایچیسن لاہور میں داخلہ مل رہا تھا مگر آپ کو یہاں کا ماحول پسند نہیں تھا اس لئے کنیئرڈ کالج میں درخواست دے دی، داخلہ کمیٹی نے کہا چلو خیر ہے، نرم سا تو ھے… لیکن پھر داخلہ ہوتے ہوتے رہ گیا جب خان صاحب نے شکریہ ادا کرنے کیلئے میڈم کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی فرط جذبات سے یہ کہہ دیا، پہ لاس کہ واخلا…

کنئیرڈ کالج میں جب داخلہ نہ ملا تو طلاوت خان سے گریجوایشن کرکے آپ نفسیات کی اعلیٰ تعلیم کے لئے روس چلے گئے… وہاں جا کر پتا چلا کہ ان کے ہاں نفسیات ہوتی ہی نہیں، وہاں صرف واڈکا ہوتی ہے اور باقی جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ واڈکا کے ہی زیر اثر ہوتا ہے… روسی چونکہ اعلیٰ تعلیم کیلئے افغانستان گئے ہوئے تھے لہذا وہاں کوئی مائینڈ کرنیوالا نہیں تھا اس لئے خان صیب نے ایک یونیورسٹی سے نفسیات کی تعلیم مکمل کرلی۔

ابتداء میں جب لیکچرز شروع ہوئے تو خان صیب نے کہا، میم پہلے ہم کو نفسیات دکھاؤ، ہم کو پسند آئی تو پھر ہم پڑھے گا، میم نے کہا کامریڈ، وہاں خوچہ کو کامریڈ کہتے ہیں، خوچہ نفسیات دیکھنے کی چیز نہیں صرف پڑھنے کے کام آتی ہے، خان صیب نے کہا نہیں مڑا، طلاوت خان کہتا ہے جس کسی چیز کا نظریہ ہوتا ہے وہ چیز بھی ضرور موجود ہوتا ہے، اس لئے پہلے ہم نفسیات دیکھے گا پھر پڑھے گا، استانی نے ایک دن تنگ آکے کہا، اچھا دیکھ لینا مگر چکھنے کی فرمائش مت کرنا۔

میں نے کہا خان صاحب کبھی ہم کو بھی سمجھاؤ یہ نفسیات کیا ہوتی ہے، کہنے لگے نمکین ہوتی ہے لالہ، میں نے کہا یہاں بھی نمکین ہی ہوتی ہے، خان صاحب نے فرط جذبات سے اٹھ کر گلے لگا لیا، کہنے لگے اس کا مطلب ہے ہم دونوں ایک جیسے تعلیم یافتہ ہیں، اس دن سے ہماری دوستی مزید گہری ہوگئی۔

جیسے جیسے دوستی آگے بڑھی تو پتا چلا کہ خان صیب ہمارا بدر منیر ہے مطبل کہ ہمارا ہیرو ہے لیکن اس کے ہم پلہ ہیروئین نہیں مل رہی… ہیروئین بنانے کے لئے بہت سے لڑکے دیکھے ہیں لیکن بات نہیں بنتی… جس دن کوئی ملکہ شیراوت جیسا پوپٹ لڑکا مل گیا تو گل خان کی فلم پر کام شروع ہو جائے گا لیکن مصیبت یہ ہے کہ اسے لڑکا بھی سابقہ عدنان سمیع جیسا وسیع الرقبہ درکار ہے۔

خان صاحب بہت نیک اور شریف انسان ہے بلکہ ملامتی درویش ہے… پشتو فلموں کی موٹی موٹی ہیروئینوں سے ملتے ہیں لیکن کوئی اوچھی حرکت کبھی نہیں کرتے بس میٹھی میٹھی باتوں سے انہیں گرم کرکے چھوڑ دیتے ہیں پھر ان کو ٹھنڈی کرنے کیلئے پنکھا چلانا پڑتا ہے، یہی کچھ یہ فیس بک پہ کرتے ہیں اسی لئے میں ان کا زبردست فین ہوں۔

گل خان کی شرافت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن میں نے کہا، ایک لڑکی گھیری ہے بھائیا، کیا پروگرام ہے تو گل خان غصے میں آکے بولا، شرم کرو لالہ، شرم کرو، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم ایسی حرکتیں بھی کرتے ہو، توبہ کرو، توبہ استغفار، پھر دس دن بعد گل خان کا اپنا میسیج آیا، آلکا چرتہ ای، زما سرا یو بچہ اشتے دے، دا ٹول سپن سڑے دے، رازا مڑا، ڈیر ڈیر موج کواہ، میں اور کیا کہہ سکتا تھا، بس توبہ استغفار کہہ کے میسج بند کر دیا۔

گل خان بچیوں کو سیٹ کرنے اور مجھے چھیڑنے سے کبھی باز نہیں آتا تھا، پھر جب اسے اندازہ ہوا کہ میری تحریریں دیکھ کر بچیوں کا جھکاؤ میری طرف ہو رہا ہے اور میری تحریر سے مقابلہ بھی نہیں کیا جاسکتا تو مجھے باقائدہ استاد کہنا شروع کر دیا تاکہ مجھے بڑا بھائی مشہور کیا جا سکے، جب اس سے بھی کام نہ چلا تو پھر باقائدہ اعلان کردیا کہ لالہ صحرائی اردو والا لالہ ہے یعنی کہ بھائی، بھیا، ویرا، پراء اور میں پشتو کا لالہ، لالیہ، ہوں یعنی کہ ہر گل۔مکئی کا مشترکہ موسٰی۔خان

دبئی سے ایک خاتون نے پوچھا، آپ گل خان کے بہت قریب ہو، وہ آپ کا تذکرہ بہت کرتا ہے، آپ کو استاد مانتا ہے اس لئے ایمانداری سے بتاؤ کہ وہ کیسا بندہ ہے، میں نے سوچا ایمانداری گئی تیل لینے، یہ مجھے استاد کہتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ استادی ہی کرنی چاہئے اس لئے کہہ دیا کہ گل خان انتہائی لفینٹر بندہ ہے، ایک نمبر کا لُچا، لفنگا، آوارہ، بدمعاش اور غنڈہ ہے، بچیاں بچے سب بغل میں لئے پھرتا ہے اسلئے دور دور ہی رہا کرو، بچی نے ایک سمائلی بھیج کے فرمایا، شکریہ لالہ، اردو والا لالہ، مجھے دراصل ایسے ہی لالہ، پشتو والے لالہ، کی تلاش تھی جو تھری ان ون مشین کو سنبھال سکے، تھری ان ون واشنگ مشین ہوتی ہے جو ایک چکر سیدھا اور دوسرا چکر الٹا گھومتی ہے اور دھو کے سُکھاتی بھی خود ہی ہے، خان صاحب اب سال میں دوبار دبئی ضرور جاتا ہے۔

گل خان میں یہ بڑا کمال دیکھا ہے کہ پشتو والا لالہ الٹا بھی لیٹ جائے تو بچی اسی پر جا کے مرتی ہے، ایک تو اردو والے لالہ کے پاس یہ فن نہیں، رہی سہی کسر اس نے مجھے کانفرنس میں گھسیٹ کر پوری کر دی اور مجھ سے تقریر کروا کے تو گویا میری بساط ہی لپیٹ دی، یہ ایک گھناؤنی سازش تھی تاکہ لڑکیوں کی توجہ مجھ پر سے ہٹا دی جائے اس لئے مجھے انکل مشہور کر دیا اور اپنی چمی مشہور کرلی۔

جو لوگ سمجھتے ہیں کانفرنس میں ایک مرد نے دوسرے مرد کی چمی لیکر غلط کیا ان کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ یہ مردانہ چمی نہیں تھی بلکہ یہ ان تشنہ لب خواتین کیلئے ڈیموگراف تھا جن کی اب دھڑا دھڑ فرینڈ ریکویسٹیں گل خان کو آرہی ہیں، ساتھ میں وہ اپنے گالوں کی فوٹوز بھی بھیج رہی ہیں۔

بعض بیبیوں کو تو تصویر دیکھ کے اس چمی کی آواز بھی سنائی دیتی ہے، کسی خاتون نے مجھ سے پوچھا، جب خان صاحب نے استاد کا چما لیا تو پُچآااک کی آواز بھی آئی ہوگی، میں نے کہا جی محترمہ جب آپ کو اتنا پتا ہے کہ زور کا چما لیتے ہوئے پچاک کی آواز آتی ہے تو پھر ضرور آئی ہوگی، پھر اس نے کہا یہ آواز میں اپنے کانوں کے پاس سننا چاہتی ہوں، عرض کیا کہ پھر اپنے کان خان صاحب کو ہدیہ کر دیں لیکن پہلے مہر طے کرلینا، یہ الگ بات ہے کہ وزن تھوڑا ہونے کی وجہ سے اس کی دال نہیں گلی۔

کرنل خان کے مطابق آپ لندن میں کسی میم کا ہاتھ دیکھ کر اسے یہ بتائیں کہ مس تیری تقدیر میں ایک شہزادہ لکھا ہے تو وہ خوشی سے آپ کا منہ چوم لے گی، ایسی بشارت گل خان کو دی جائے کہ تمہاری قسمت میں ایک جہازی سائز کی محبوبہ لکھی ہے تو وہ آپ کے گال چوس لے گا، وکیل بابو سے لندن کے مغالطے میں کانفرنس کے موقع پر دراصل یہی غلطی ہوئی تھی، وہ ایک لمحے کیلئے بھول گئے تھے کہ میں لہور میں ہوں اور گل خان کو کشادہ محبوب کی بشارت دے رہا ہوں۔

کرنل خان کہتے ہیں ایک ماہر معاشیات پہ ہر وقت علم اقتصاد طاری رہتا ہے، ایک شاعر پہ ردیف قافیہ کے اوزان اور گل خان کے اوپر ہمہ وقت علمِ اخلاقِ نسواں اور ان کا وزن طاری رہتا ہے بلکہ اب تو اتنا حاوی ہو گیا ہے کہ انہیں کسی طرح بھی یہ سمجھانا ممکن نہیں رہا کہ دبلی پتلی لڑکی کے بھی وہی فنکشن ہوتے ہیں بھیا جو موٹی کے ہیں، لڑکی کو لڑکی سمجھنا چاہئے، یہ کوئی راشن تو ہے نہیں جو سال چھ مہینے کا اکٹھا کرلیا جائے، لڑکی نازک جذبات کا نام ہے ساڑھے چارمن ماس کا نام نہیں، اس لئے لڑکی، راشن اور راشن ڈپو میں کچھ تو فرق کر لینا چاہئے۔

اس سمجھانے کا بھی الٹا اثر ہوا، خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ موٹی لڑکی میں نازک جذبات بھی شائد زیادہ ہوتے ہیں، یا پھر ان کا خیال ہے کہ شاخ نازک پہ جو آشیانہ ہوگا وہ ناپائدار ہوگا اس لئے تناور درخت پر جھولا جھولنا چاہئے، بہت سمجھایا کہ بھیا لڑکی کے اندر محبت فی مربع انچ کے حساب سے نہیں بھری ہوتی کہ دبلی میں کم ہوگی اور موٹی میں زیادہ بلکہ یہ ایک لہر ہوتی ہے جو سب میں ایک جیسی اٹھتی ہے، صرف اسے بیدار کرنا پڑتا ہے اس کے بعد دونوں کی لہریں ایک جیسا کام کرتی ہیں، اس بات کا اثر بھی الٹا ہوا اب وہ چاہتے ہیں کہ ان لہروں کا پورا تربیلا ڈیم ان کے پاس ہو۔

دراصل وہ اٹھارہ بچوں کی ماں جس نے یہ کہا تھا بہن زندگی میں سچا پیار نہیں ملا اس خاتون کی طرح خان صاحب کو بھی کسی گرلفرینڈ سے سچا پیار نہیں ملا، اس لئے خان صاحب یہ چاہتے ہیں کہ دس پندرہ کی بجائے ایک ہی قوی الجثہ محبوبہ ہو جو انہیں بہت سا پیار دیدے یا ان کا اپنا پیار برداشت کرلے۔

گل خان کے پستول کی بہت شہرت سنی تھی اس لئے ان سے ڈر بھی لگتا تھا، ڈر اس بات کا نہیں کہ گولی نہ مار دیں، ڈر اس بات سے تھا کہ گرم گرم گولی کہیں ہاتھ پہ نہ رکھ دیں، صبح ان کی پوسٹ دیکھ کے جی چاہتا تھا شام کو ان سے ملاقات رکھی جائے لیکن شام ہوتے ہی خوف سا آنے لگتا تھا کہ رات رکنے کا نہ کہہ دیں کہیں … اس خوف سے نکلنے کیلئے پھر ایک دن ان کے ساتھ اپنا پستول ناپ کے دیکھا تو احساس کمتری ختم ہوگیا، میرے پاس بھی ویبلے کا ہے مگر گل خان سے بڑا ہے، اس لئے اب ان سے ڈر نہیں لگتا۔

گل خان کی تحریریں دیکھ کر سوچا ایکبار ان سے کھل کے پوچھ ہی لینا چاہئے کہ آخر چاہتے کیا ہیں، میرے ہاتھ میں پستول دیکھ کر گل خان نے ہاتھ اوپر کرتے ہوئے کہا، سچ بتاؤں لالہ، ہر کوئی دبلی پتلی سمارٹ لڑکیوں کو چاہتا ہے، یہ موٹی لڑکیاں بیچاری کدھر جائیں، ان کے ساتھ بھی جذبات ہیں ان کو بھی انسان سمجھنا چاہئے، ان کو بھی پسند کرنا چاھئے، آخر کس چیز کی کمی ہے ان میں اس لئے میں موٹی لڑکیوں کو آئیڈیل بتاتا ہوں تاکہ لوگ ان کو بھی پسند کریں، ان کیساتھ شادی بنائیں، شائد اس بات سے کسی موٹی بچی کا بھی بھلا ہوجائے۔

گل خان کا ممتا سے بھرپور مدرٹریسوی لیکچر سن کر مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا، پستول میرے ہاتھ سے نیچے گرگیا اور میں نے اپنا سر پکڑ لیا، گل خان نے گولیاں نکالنے کیلئے پستول کھولا تو وہ پہلے ہی خالی تھا، بس پھر اس نے جس طرح کی جوابی کاروائی کی ہے اس سے پڑنے والے نیل کے نشان ابھی بھی باقی ہیں۔

وہ اپنے عکس کو آواز دے کے کہتے ھیں … ترا جواب تو میں ھوں، میرا جواب نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ جسے کرنل خان کا نہیں پتا اسے بتانے کی ضرورت بھی نہیں، باقی رہا گل خان تو اس کی تلاش ابھی تک جاری ہے جس دن مل گیا اس دن اس کی تصویر بھی اس کہانی کیساتھ لگا دی جائے گی تاہم یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ گل خان کا عارف خٹک نامی بندے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر ان دونوں کے درمیان کوئی ظاہری یا باطنی مماثلت پائی جائے تو یہ محض اتفاقیہ بات ہوگی۔
٭٭٭٭٭
۔

Facebook Comments

لالہء صحرائی
ایک مدھّم آنچ سی آواز ۔۔۔ ایک حرفِ دلگداز لفظوں کے لشکر میں اکیلا ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply