• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان (قسط چہارم) ۔۔ حمزہ ابراہیم

آیت اللہ سیستانی: جمہوریت کے نگہبان (قسط چہارم) ۔۔ حمزہ ابراہیم

(عرضِ مترجم: یہ مضمون پروفیسر کارولین سايج کی کتاب ”پیٹریاٹک آیت اللہ ز“ کے دوسرے باب کا ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف کی تدوین کردہ کتاب ”النصوص الصادرہ“، طبع ششم، بیروت، سنہ 2015ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

آیت اللہ سیستانی کوئی تجربہ کار سیاست دان نہ تھے لیکن وہ ایک سیاسی حس رکھتے تھے جس سے وہ ریاست کی بنیاد بننے والی دستاویز اور اداروں کے گہرے مضمرات کو سمجھ سکتے تھے۔ اے جی سی اور عبوری انتظامی دستور کی ساختاری فرقہ واریت نے ملکی سطح پر بھی اور خطے میں بھی اثرات مرتب کرنے تھے۔یہ 2004ء کے ابتدائی ایام تھے جب عبوری انتظامی دستور نافذ ہوا، اور اس وقت وطن کی سلامتی کو خانہ جنگی یا دہشتگردی کے خطرات لاحق ہونے کی بات کوئی نہیں کر رہا تھا لیکن آیت اللہ سیستانی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کی تشکیل میں چھپے خطرات کی پیش بینی کرنے میں کامیاب رہے۔البتہ وہ اس میں تنہا نہ تھے: خطے کے ماہرین نے لبنانی طرز کی تقسیم اقتدار کی خامیوں اور اس کے عراق کیلئے خطرناک ہونے کے بارے میں پہلے سے مقالے لکھ رکھے تھے۔ بطورِ کلی تقسیم کی بابت آیت اللہ سیستانی کے انتباہات کا رخ کردوں کی جانب نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت اور آئینی عمل کی مقبولیت کی طرف تھا۔ درحقیقت ان کے بیانات کا بیشتر حصہ فرقہ وارانہ جنگ کے خطرات کے بارے میں ہوتا تھا جو آگے چل کر عراقی ریاست کو لاحق ہونے والے تھے۔ شیعہ سنی تقسیم کے بارے میں ان کے خیالات کی بنیاد یہ تھی کہ :”اگر بیرونی ہاتھ عراق کے معاملات میں دخل نہ دے تو عوام آپس میں بہتر طریقے سے ہم آہنگ اور یکسو ہو جائیں گے۔“ [44] [النصوص الصادرہ، صفحہ 65] آیت اللہ سیستانی نے ریاست کا شیرازہ بکھرنے کے بارے میں پہلے سے انتباہ کر دیا تھا کیوں کہ وہ عبوری ڈھانچے اور عملی تشدد میں موجود تعلق کو سمجھ رہے تھے، اسلئے نہیں کہ وہ کسی خاص نسلی گروہ کے مخالف تھے۔ ان کا پیغام کسی کے خلاف نہ تھا: وہ گروہ جنہیں سیاسی عمل میں حصہ نہ دیا گیا وہ تشدد کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔ یہ نسخہ سانحے کو ہی جنم دے سکتا تھا۔

انتخابات اور ایک نیا آئین

30جنوری 2005ءکو انتخابات کی تاریخ قرار دئیے جانے کے بعد آیت اللہ سیستانی نے دوبارہ اپنی توجہ سیاست پر مرکوز کی۔بہت کچھ داؤ پر لگ چکا تھا۔ دو سو پچھتر رکنی پارلیمان نے دائمی آئین تدوین کرنا تھا اور 15 اکتوبر 2005ء میں ریفرنڈم کے ذریعے نئے آئین کی توثیق تک عبوری حکومت بنا کر سب آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی تھیں۔اس کے بعد دسمبر 2005ء میں مستقل آئین کے تحت پہلی پارلیمان بنائے جانے کیلئے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔10 اکتوبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی سے ان کے مقلدین نے سوال کیا کہ انتخابات کےمعاملے میں ان کی ذمہ داری کیا ہے؟ انہوں نے جوابی فتوے میں بتایا کہ انہیں کیا کرنا چاہئیے۔ انہوں نے تمام مرد و خواتین شہریوں سے کہا کہ وہ ووٹر لسٹ میں اپنے نام کے اندراج کی تصدیق کریں، اور اس کام میں ایک دوسرے کی مدد کیلئے  انجمن سازی کی تلقین کی اور کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”ہر عراقی شرکت کرے۔“ [45] (بمشارکۃ جمیع العراقیین[النصوص الصادرہ، صفحہ 131]) عراقی سماج پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر کے مطابق یہ ”عوامی جمہوریت کیلئے علمائے دین کے اعلیٰ ترین عزم کا اظہار تھا جس کی عراق کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔“ [46]اس ’ووٹ دو‘ فتوے میں صرف مقلدین کے بجائے سب عراقیوں کو مخاطب کیا گیا تھا۔

آیت اللہ سیستانی نے ووٹ دینے کو شرعی ذمہ داری قرار دیا۔ انکی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ اس سے تمام عراقیوں کو ایک ایسی ریاست بنانے کیلئے مل کر چلنے کا موقع ملے گا جس میں سب برابر ہوں، جس کیلئے وہ ایک سال سے انتھک کوشش کر رہے تھے۔اس مرتبہ انہوں نے، ماضی کے برعکس، بار بار فتویٰ جاری نہ کیا۔سیاسی عمل کی جزئیات میں مداخلت سے پرہیز کے عزم پر ثابت قدم رہتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ وہ راستہ ہموار کریں گے مگر سفر پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ اس طرح اکتوبر میں دیا گیا فتویٰ سب عراقیوں سے انتخابات  میں شرکت کی درخواست تھی۔ جب جنوری 2005ء کے انتخابات نزدیک آ گئے تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ آیت اللہ سیستانی ایک اور بیان جاری کریں گے یا کم از کم شیعہ تنظیموں کے اتحاد، ائتلاف العراقي الموحد، کی حمایت کریں گے۔ [47] وہ اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال کر بادشاہ گر بن سکتے تھے۔ لیکن اگر انہوں نے اس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہوتا یا جنوری کے انتخابات کی بابت فتویٰ یا فتوے دئیے ہوتے تو مبصرین اور مقامی سیاست دانوں نے ان کو شک کی نگاہ سے دیکھنا تھا، انہیں فرقہ پرست سمجھنا تھا۔ ذارئع ابلاغ نے ایسی خبریں چلائیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آیت اللہ سیستانی نے ائتلاف کی حمایت کی ہے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی تصدیق کیلئے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ [48]

یہ سوال کہ آیا آیت اللہ سیستانی ائتلاف کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں، صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کیلئے ایک اہم موضوعِ بحث تھا۔بہت سے محققین اس بات پر متفق تھے کہ انہوں نے ائتلاف کی حمایت کی ہے، بلکہ فتوے کو ایک اور انداز میں سمجھا جائے تو ان کیلئے ”دعا“ کی ہے۔ تاہم اگلی سطر میں انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والی  سب سیاسی جماعتوں کی ”تائید“ کرتے ہیں۔ جب ان سے وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جماعتوں کو ان کا نام یا نفوذ اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔ تاہم ان کے کئی نمائندوں اور شاگردوں نے ائتلاف  کی حمایت کی، جس سے محققین نے یہ تاثر لیا کہ2005ء میں آیت اللہ سیستانی اس کی حمایت کرنے جا رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2004ء کو آیت اللہ سیستانی نے اس معاملے پر ایک سوال کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ اس اتحاد کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، لیکن وہ انتخابات میں حصہ لینے والی سب جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے باقی جماعتوں پر فوقیت دیتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ لوگ ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان کا نام استعمال کر رہے تھے۔ [49] انتخابات کے فوراً بعد آیت اللہ سیستانی کے نمائندے حامد الخفاف نے ان کا بیان جاری کیا جس میں آئین اور سیاسی عمل کے بارے میں افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہوں نے نہ تو کوئی نیا بیان جاری کیا ہے نہ ہی ان کی ”سابقہ آراء“ میں حالیہ دنوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے مستقل آئین اور عراقیوں کی قومی شناخت کے تحفظ کے بارے میں اپنے سابقہ موقف کو باقی رکھا۔ وہ قومی اکٹھ میں عوامی نمائندوں کے ترتیب کردہ بنیادی نکات کے حامی رہے۔ ائتلاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران آیت اللہ کی بڑی بڑی تصاویر سب شہروں میں، یہاں تک کہ پولنگ سٹیشنوں  پر بھی، آویزاں کی تھیں۔ آیت اللہ نے کہا  کہ ”جو لوگ ان سے محبت کرتے ہیں وہ ایسا کام نہ کریں۔“ [50] [النصوص الصادرہ، صفحہ 141] ان کے رد عمل کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی عمل سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ خطے کے تمامیت خواہ آمر ہمیشہ اپنی بڑی بڑی تصویریں شہر بھر میں آویزاں کرواتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو ظلِ الٰہی اور طلسماتی شخصیت کے طور پر منوائیں۔ یہ انداز آیت اللہ سیستانی کیلئے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ سیاست پر اثر انداز ہونے اور اس میں عملی حصہ لینے کے بیچ موجود حد کا خیال رکھا۔ اب کچھ نہ کرنے کا وقت تھا۔

جنوری کے انتخابات جوں جوں قریب آنے لگے، ایسے وقت میں جب عراقی عوام کو پر جوش ہونا چاہئیے تھا، تشویشناک انداز میں دہشتگردی میں اضافہ ہونے لگا اور اس نے فرقہ وارانہ رنگ پکڑ لیا۔ ائتلاف اور کرد جماعتوں نے انتخابات میں واضح برتری حاصل کر لی لیکن سنی عربوں نے انتخابات میں کم حصہ لیا۔ وہ آبادی کا تقریباً 20 تھے لیکن صرف دو فیصد ووٹ دینے گئے۔ سنی عرب علاقوں میں تشدد عام تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے سنی گروہوں، جیسےہيئہ علماء المسلمين، نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (عرضِ مترجم: عرب عراقیوں میں اہلسنت اقلیت میں ہیں لیکن پچھلے اسی سال سے عراق میں آمروں کی حکومتوں نے ان کو خصوصی مراعات دے کر شیعہ عرب اور سنی کرد شہریوں کو محروم رکھا تھا تاکہ عوام کو تقسیم کر کے آسانی سے حکومت کی جا سکے۔ اب صدام کے اقتدار سے الگ کئے جانے اور جمہوریت کے آنے کو سنی عربوں کی مراعات کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔)

اہلسنت عربوں کی کم شرکت نے سارے عمل کی مقبولیت کو خطرے میں ڈال دیا جس نے انتخابات جیتنے والوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ سنی عربوں کو مستقبل میں آئین لکھنے کے عمل میں شریک ہونے پر راضی کریں۔ (سنی علاقوں میں کم ووٹ کاسٹ ہونے کی وجہ سے) 275 کامیاب امیدواروں میں صرف 17 سنی عرب تھے۔ چھ ماہ بعد، جون 2005ء میں، آیت اللہ سیستانی نے انتخابی عمل میں ایسی تبدیلیاں کرنے پر زور دیا جو آئندہ بننے والی اسمبلیوں میں سنی عربوں کی کما حقہم نمائندگی کو یقینی بنا سکیں۔آیت اللہ سیستانی نے تجاویز بھی مرتب کیں جو جنوری کے انتخابات میں اپنائے گئے نظام کا متبادل ہو سکتی ہوں۔ اس طرح قومی انتخابات میں ووٹر ملک گیر فہرستوں کے بجائے صوبائی سطح پر بننے والی فہرستوں میں سے اپنے نمائندگان چن سکیں گے۔ نئی صوبہ محور تجویز ماننے سے نشستوں کی تعداد کو آبادی کے تناسب سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہو گا۔ اس طرح ووٹ ڈالے جانے کی شرح کا اثر نہیں ہو گا۔آیت اللہ سیستانی نے واضح کیا کہ اس نئے انتخابی نظام کی اہمیت یہ ہے کہ یہ عراق کی نازک سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ اس لئے یہ اقدام اٹھا رہے تھے کہ ماضی میں ”بہت سی غلطیاں ہوئیں۔“ ہمیشہ کی طرح آیت اللہ سیستانی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ”سب شہریوں کو“ جمہوریت میں حصہ لینا چاہئیے۔ [51]

مئی میں نئی حکومت کے آغاز کے بعد آئین لکھنے والوں میں باقی ماندہ اختلافی نکات پر بحث شروع ہوئی۔سب سے زیادہ جس نکتے پر بحث ہوئی وہ وفاقیت اور عراق کی متعدد علاقوں میں تقسیم کا خطرہ تھا۔ وفاقی طرز حکومت کے بارے میں مسودہ کردوں نے تیار کیا تھا اور مرحوم آیت اللہ باقر الحکیم کی جماعت المجلس الاعلى الا سلامی العراقی، نے اسکی حمایت کی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے ان بحثوں میں دخل نہ دیا اور مختلف گروہوں کو مذاکرات کرنے دئیے۔وہ اس لئے خاموش نہ تھے کہ یہ بحث اہمیت نہ رکھتی تھی، بلکہ اس لئے کہ گروہوں کو اپنا اختلاف خود حل کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ امریکہ یا عراقی گورننگ کونسل کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے، اسی طرح وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئیے۔ جمہوری طور پر منتخب شدہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی نظام کے ساتھ تعامل میں ان جماعتوں کے ارتقاء کا احتمال کافی زیادہ تھا۔جیسا کہ آگے چل کر ہوا، آیت اللہ سیستانی کی پیش بینی کے مطابق مستقل آئین کے نکات پر علاقائی اور نسلی بنیادوں پر مفاہمت پیدا ہوئی۔ سب گروہوں کے حقوق کے تحفظ کا خیال عبوری انتظامی دستور میں بھی رکھا گیا تھا، اس دستاویز کو مشہور ماہر قانون اینڈریو آراتو نے ”موزوں پیرہن“ سے تعبیر کیا تھا جس کے آگے چل کر اچھے سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔ [52]

مستقل آئین میں وفاقی طرز پر کردوں کے علاقائی خودمختاری کے بہت سے  مطالبے تسلیم کئے گئے، جنہیں ”اقالیم“ کی صورت میں بیان کیا گیا۔کردوں نے عبوری انتظامی دستور میں دئیے گئے سب اختیارات کو دوبارہ حاصل کر لیا اور ان کے علاوہ بھی مرکز پر کچھ امتیازات حاصل کر لئے۔آئین کی شق 117 نے کردوں کے تین صوبوں دہوک، اربیل اور سلیمانیہ کو قانونی طور پر علیحدہ علاقہ تسلیم کیا جو ”حکومتِ اقلیمِ کردستان“ کے ماتحت ہوں گے۔اس حکومت کے پاس وفاقی قوانین کے اطلاق میں تبدیلی کرنے کا حق تھا، سوائے ان مخصوص شقوں کے جو وفاق کا خاصہ ہیں، اور اس کو اپنی حفاظت کیلئے ایک نیم فوجی لشکر رکھنے کی بھی اجازت تھی۔اس کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے پاس بیرون ملک سفارت خانے کھولنے کا حق بھی تھا۔ آئین کی شق 4 میں عربی کے ساتھ ساتھ کردی زبان کو بھی قومی زبان تسلیم کیا گیا۔جنوری 2005ء میں جب صوبائی انتخابات ہوئے تو کردستان کی قومی اسمبلی کیلئے بھی انتخابات برپا ہوئے، جو حکومتِ اقلیمِ کردستان کی الگ پارلیمنٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔ کردستان قومی اسمبلی نے 12 جنوری 2005ء کومسعود بارزانی صاحب کو کردستان کا صدر منتخب کیا۔ [53] مولانا سید عبد العزیز الحکیم، جو عراق کے جنوب میں خودمختاری کے حامی تھے، نے ایک دھماکہ دار بیان جاری کرتے ہوئے جنوب کے نو شیعہ اکثریت والے صوبوں کے لئے ایک اقلیم قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ وہ ایک ایسی علاقائی اکائی کا تصور پیش کر رہے تھے جیسی کردوں کو شمال میں حاصل ہوئی تھی۔ یہ وزیر اعظم ابراہیم جعفری کی سوچ سے اختلاف تھا، جو مرکز کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے تھے اور ان نو صوبوں کو الگ الگ حیثیت دینا چاہتے تھے۔ [54]ان صوبوں میں عراق کی آدھی آبادی اور اسی فیصد تیل پایا جاتا ہے۔ [55] اس کا مطلب تھا کہ یہ ایک شیعہ شناخت کا علاقہ بن جائے گا اور ایسی اکائی بھی بن سکتا ہے جو مرکز پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتا ہو۔ کردوں نے طاقت کے اس ارتکاز کو رد کرنا تھا اور سنی عربوں میں یہ احساس پیدا ہونا تھا کہ وہ درمیان میں کمزور اور بے بس رہ جائیں گے۔ ان کیلئے وفاقی طرز کی ریاست میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مولانا حکیم کا پیش کردہ تصورآیت اللہ سیستانی کی خواہش سے انحراف تھا جو ریاست کے نزدیک تمام عراقیوں کی برابری کے قائل تھے۔ یہ بیان آیت اللہ کے عراق کی وحدت کے تصور سے بھی ٹکراتا تھا اور اس نے دوبارہ عراق کی ”سرد تقسیم“ کی بحث کو زندہ کر دیا۔ [56]اہم بات یہ ہے کہ سید عبد العزیز الحکیم کا تصور شیعہ سوچ کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔شیعہ عوام کی اکثریت مضبوط مرکز دیکھنا چاہتی تھی اور صرف کردوں کیلئے جزوی وفاقیت کی قائل تھی۔ [57]سال بھر کیلئے بصرہ کے شیعوں میں قریبی علاقوں کی ایک اقلیم کیلئے کبھی کبھی تحریک اٹھتی رہی لیکن اس چھوٹی اکائی کے حق میں بھی عوامی حمایت بہت کم رہی۔ مقتدیٰ الصدر اور حزب الدعوه بھی مضبوط مرکز کے قائل تھے۔ 2007ء تک سید عبد العزیز الحکیم کی جماعت مجلس اعلیٰ کا وفاقیت اور ایک بڑے شیعہ اقلیم کے بارے میں جوش بھی مدہم پڑ گیا۔ اب مجلس اعلیٰ نے بھی ”عراقی عوام کی رائے“ کو اپنے بیانیے کا مرکز بنا لیا۔ [58] واضح تھا کہ عوام کی اکثریت کے وفاقیت کو پسند نہ کرنے کی وجہ سے انہیں اپنا موقف بدلنا پڑا ہے۔

لیکن ”تجزیہ طلبی“ کی اصل بنیاد وفاقی طرز کے آئین میں استعمال ہونے والی زبان کی ساخت تھی جس کے بارے میں آیت اللہ سیستانی ہمیشہ خبردار کرتے رہے تھے۔ آئین کی شق 118 میں کہا گیا تھا کہ اگر صوبوں کی ایک سادہ اکثریت الگ اکائیاں بنانا چاہے تو انہیں اس کا حق ہو گا۔ در حقیقت آئین کی شق 112 تا 117 کی تشریح نے مستقبل میں مختلف اکائیوں کی شکل میں ممکنہ تقسیم کی ضمانت دی تھی۔ آنے والے چند سالوں میں عراقیوں میں اقالیم کی ساخت اور ان کے اختیارات ، خصوصاً تیل اور سرحدوں پر تجارت کے معاملات، پر بحث ہونی تھی۔ آیت اللہ سیستانی نے جس طرح انتخابات میں جزئی بحثوں میں حصہ نہ لیا تھا اسی طرح وفاقیت کے سوال پر بھی جزئیات سے الگ رہے۔در حقیقت جب آئین کا مسودہ تیار ہو گیا تو تمام تر مسائل کے باوجود آیت اللہ سیستانی نے اس کی مخالفت نہ کی۔ انہوں نے عراق کے تمام شہریوں سے درخواست کی کہ وہ ریفرنڈم میں آئین کے حق میں ووٹ دیں ”اگرچہ کچھ خامیاں دور نہیں ہو سکی ہیں۔“ [59]

15 اکتوبر 2005ء کو (ریفرنڈم کے ذریعے) آئین نافذ  کر دیا گیا۔ اس وقت تک آیت اللہ سیستانی کردوں اور مجلس اعلیٰ کی سیاسی نظام میں زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی ضد سے تنگ آ چکے تھے۔ ایک مقلد نے 15 دسمبر 2005ء میں 275 رکنی ارکان نمائندگان کے چناؤ کیلئے آنے والے انتخابات کے بارے میں سوال کیا۔ان انتخابات میں نشستیں آبادی کے تناسب کے حساب سے تقسیم کی گئی تھیں تاکہ اہلسنت کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سنی عربوں نے جنوری 2005ء کے انتخابات میں نہایت کم ووٹ ڈالے تھے لیکن دسمبر کے انتخابات میں بہت سوں نے شرکت کی اگرچہ وفاقیت کی شقوں کے خلاف ان میں ناراضی پائی جاتی تھی۔ انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ اس معاہدے کی بنا پر نہیں کیا کہ پہلی پارلیمان کے ماتحت  آئین پر نظرِ ثانی کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو ترامیم کی تجاویز تیار کرے گی جنہیں ایک واضح اور سادہ انداز میں اپنایا جا سکے۔ دسمبر میں سنی عربوں نے 275 میں سے 60 نشستیں جیت لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آیت اللہ سیستانی نے ایک مختصر فتویٰ دیا جس میں زور دیا کہ سب مرد اور خواتین ووٹ دیں اور انتخابات میں عوام کی ”پر زور“ شرکت کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے ووٹرز کو یہ نصیحت بھی کی کہ اپنی ووٹ کو ضائع ہونے یا تقسیم ہونے سے بچائیں۔ [60] (وعلی المواطنین- رجالاً و نساءاً – ان یشارکوا فیہامشارکۃ واسعۃ   [النصوص الصادرہ، صفحہ 148])  اس سیاسی رسہ کشی کے ماحول میں اس نصیحت کو ائتلاف العراقي الموحد کی ملفوف حمایت سمجھا گیا جو جنوری کی نسبت دسمبر میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا۔ [61] ائتلاف یوں بھی اکثریت کی نمائندگی کرتا تھا، چنانچہ اس کی جیت کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ تاہم اگرچہ اس اتحاد میں مضبوط مرکز کے حق میں کچھ بلند آوازیں موجود تھیں لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ائتلاف کی حکمت عملی عراق کی تمام آوازوں کی عکاسی نہیں کرتی تھی، بلکہ صرف حزبِ اقتدار کی نمائندگی کرتی تھی، وہ افراد جو امریکی حملے سے پہلے اور بعد میں امریکی انتظامیہ سے رابطے میں تھے۔ اس رابطے نے شیعہ موقف کے بارے میں امریکیوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا کہ شیعہ عوام وفاقیت کے قائل ہیں۔ مئی 2006ء میں امریکی سینیٹر جو بائیڈن کی طرف سے عراق کی ”سرد تقسیم“ کا منصوبہ پیش کرنے پر اس رابطے کا بھی ایک اثر ہو سکتا ہے۔ بائیڈن کے منصوبے ”ایک عراق اور تین اکائیاں“میں مسئلہ یہ تھا کہ عراق کا آئین وفاقیت کو عراق کی حکمرانی کے ایک کلی اصول کے طور پر قبول نہیں کرتا تھا۔کردستان کے سوا کوئی اور وفاقی اکائی بنانا عوام کی منشاء پر چھوڑ دیا گیا تھا جسے ریفرینڈم کے ذریعے متعین کیا جانا تھا۔ بائیڈن صاحب کا بیان عراقی آئین کے خلاف تھا، جو غیر ملکیوں کو عراقی ریاست کے ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کا حق نہیں دیتا، نئی وفافی اکائیاں عراقی عوام نے ”نچلی سطح پر“ طے کرنی ہیں۔ [62] (جاری ہے)

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply