اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط8)۔۔سلمیٰ اعوان

روم کے لئے روانگی

o لگتاتو کچھ یوں تھا جیسے خدا مجھے سیاپے اور مصیبتوں میں ڈالنے کے لئے اٹلی لایا تھا
o آصف علی زرداری سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟
o سفر پر آٹھ دائرے کھینچے اور پورا روم اِن دائروں میں نمایاں ہوگیا
o سب سے پہلے کلوزیم جائیے یہی پڑھا، یہی سنا۔ مگر دل سپینش سٹیپ زکیٹس کے میوزیم جانے پر مچلا

اب ہوا کیا؟ روم جانا تھا۔ ایک تو اِس نام سے وابستہ زمانوں بھر کا رومانس اور فینٹسی، اوپر سے اپنے اکیلے ہونے کے تھوڑے بہت ڈر ڈُکرکے ساتھ اِس کے ایک بڑے شہر اور کیپٹل سٹی ہونے کارعب و دبدبہ جان ودل کو د ہلا ئے دے رہا تھا۔
صبح کاذب کا ڈولا ابھی ٹیرس کے سامنے والی عمارت کے بنیروں پر اُترا ہی تھا کہ آنکھیں پٹ سے کھل گئیں۔ ایک تو میں اپنی اس نور پیر کے ویلے سے جاگنے کی عادت سے ناکوں ناک آئی پڑی ہوں۔ گندی عادت۔ اور نہیں تو مقدر میں یہ ذرا دیر تک سونے کی عیاشی بھی نہیں۔
اوپر سے طرّہ اقبال فیملی بھی اسٹیشن پر مجھے چڑھانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ میں تو سویرے سویرے ہی نہا دھو، ایک جوڑا پرس میں گھسیڑ کر تیار شیار ہوئے بیٹھی تھی۔ چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیاں کم ہو گئی ہیں۔ٹرین سروس کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا ہے۔ان سب سے میری آگاہی تو اتنی نہ تھی۔
اقبال جب مجھے سکوٹر سے اُتار کر اسٹیشن کی پارکنگ میں اُسے لا ک لگا رہا تھا۔ وہ ٹرین جو مجھے سہولت اور کوئی پندرہ منٹ کے مارجن سے گاڑی میں سوار کر ا سکتی تھی ہمارے اسٹیشن چیزاتے سے رخصت ہو رہی تھی اور وہ بیوقوف مجھے بتا رہا تھا کہ ہمیں تو اِسے پکڑنا چاہیے تھا۔
”گدھے۔ مجھے غصہ آیا۔ یہ تو تم نے بتا نا تھا۔“
”کوئی بات نہیں۔“ حد درجہ لا پروائی کا عنصر تھا انداز میں۔
پندرہ منٹ بعد آنے والی ٹرین نے جب میلانوکودور نو پر اُتارا۔ پونے نو بج رہے تھے اور ابھی ہمیں میٹر و پر چڑھنا تھا۔ سیڑھیا ں کس تیزی سے اُتریں کہ بے اختیار ہی کہنا پڑا۔
”یا اللہ میرے گوڈوں کی خیر۔“
ٹکٹوں کو ٹرن سٹلز Turnstiles سے مس کر کے راستہ کھولنے کی بھاگ دوڑ کا منظر بھی بڑاپُرجوش سا تھا۔ ایک بار بونگے نے غلط سیڑھیا ں چڑھا دیں۔ بہر حال جلد ہی احساس ہونے پر پھر دُڑکی لگائی۔ چلو یہاں Escalators نے مدد کی اور عین چنترال کے ہال میں پہنچا دیا۔ایک دو، تین۔ اِن برقی زینوں کے بعد اقبال نے مجھے ٹرین ٹرمینل کی لابی میں دھکیل دیا یوں جیسے کہتا ہو میں تو یہاں تک لے آیا ہوں۔گاڑی ملتی ہے یا نہیں اگے تیرے پھاگ لچھئیے۔
اُس وقت گھڑی پر نو بجنے میں ایک منٹ اور پچیس سیکنڈ تھے۔سانسیں لوہار کی دھونکنی کی مانند پھُولتی تھیں۔ ہونٹ خشک تھے اور چہرے پر ہوائیاں اُڑتی تھیں۔
”یااللہ اِن مصیبتوں کے لئے، اِن سیاپوں میں ڈالنے کے لئے تو مجھے یہا ں لا یا تھا۔ہر روز ایک نئی مصیبت۔“
اب نو بجنے میں صرف ایک منٹ تھا۔اور وہ منٹ قیامت کا تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا اور میرے سوال کا کاسہ پھیلا ہوا تھا کہ گاڑی کونسے پلیٹ فارم پر کھڑی ہے؟اِس نفسانفسی میں شاید اوپر والے کو ترس آگیا تھا۔ پتہ نہیں کون تھا؟ اُس نے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔
پہلی بوگی کے پاس یونیفارم میں دو بندے کھڑے تھے۔ میں نے اُسی کے کھلے دروازے سے اوپر جانے اور اندر ہی اندر اپنے کمپارٹمنٹ میں جانے کا عندیہ دیا۔ آواز میں گھبراہٹ، لہجے میں اضطراب تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا۔
اُس نے دسویں بوگی کی طرف اشارہ کیا۔
”ہائے میرے اللہ عین تیرے پچھواڑے۔“
اب آؤ دیکھا نہ تاؤاُسے بازو سے پکڑا اور گھسیٹنے لگی کہ مجھے پہنچاؤ۔
بے چارہ نوجوان بے بس ہو گیا۔
”ریلیکس ریلیکس۔“ اُس نے میری حالت زارکو دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر میں تو اڑی جا رہی تھی۔بوگی نمبر دس کے پہلے پوڈے پر قدم رکھا ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔بیٹے کو ہوائی بوسہ دیا۔اونچی آوازمیں اُس کو دعا دی اور شکر شکر کرتی اندر آئی۔
حلق میں کانٹے چُبھ رہے تھے۔ ایک سیٹ پر ایک معمر مرد پانی کی بوتل سامنے رکھے بیٹھا تھا۔ اُس کی بوتل کو ہاتھ میں پکڑا۔جُھک کر اُسے بتایا کہ میں بہت پیاسی ہوں۔ بُہت مشکل سے گاڑی پکڑی ہے۔ لیٹ ہو گئی تھی۔ وقت نہیں تھا کہ بوتل خریدتی۔
”اگر یہ پانی میرے اندر نہ گیا تو یہیں پھُڑک کر مر جاؤں گی۔“
دراصل تیسری دنیا سے تھی نا۔جن کی وقت کے معاملے میں ڈنڈیاں مارنے کی عادت ہے۔
وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھتا تھا اور میں زور سے ڈھکن کھول بوتل سے گھٹ گھٹ پانی پی رہی تھی۔ عجیب ڈھٹائی تھی میری۔پر کیا کرتی۔ مرنا تو نہیں تھا مجھے۔
کمبختوں کی گاڑیا ں کیسی ہیں؟ کم از کم اندر ڈائننگ کاریں ہونی چاہیئیں۔ہاکرز کے دو تین چکر لگنے چاہئیں۔ چائے کافی ملنی چاہیے۔
چلو واپس جا کر اٹلی کی وزارت سیاحت کو چھِٹی لکھوں گی کہ بس آپ کے ہاں یہ کمی نظر آئی ہے اگر آپ اس پر غور کریں تو میرے جیسی بہتوں کا بھلا ہوگا اور کوئی بے چاری پھڑک کر مرنے سے بچ جائے گی۔
لاہور ائیر پورٹ پر میلان آنے والی ایک خاتون سے جو اٹلی میں بیس سال سے رہ رہی تھی ملاقات ہوئی تھی جس نے اپنے میلان سے روم کے لئے ایک سفر کی روئیداد سُنائی تھی۔ راستے کے حُسن و خوبصورتی کے جو اُس نے گڈے باندھے تھے۔میں نے انہیں سانس روک کر سنا تھا اور آج سفر کرتے ہوئے اُس کی باتیں میرے کانوں میں گونجتی تھیں۔ روم کے قریب پہنچنے تک مجھے تو اِس راستے میں قابل ذکر اور قابل دید بس اِس کی پستہ قامت پہاڑیوں اور ڈھلانوں کے سوا کچھ اور اگر نظر آیا تھا۔
تو وہ ہرے بھرے جنگلات کا سلسلہ تھا جو آنکھوں کو طراوت اور تازگی کے ساتھ ساتھ خوشی وسرشاری سے بھی نہال کرتا تھا۔
میں سوچنے پر مجبور تھی کہ آخراُس عورت کو اِس درجہ گڈے باندھنے کی ضرورت کیا تھی کہ میری آنکھیں کھڑکی کے شیشوں سے ہی چپکیں رہیں۔ بہت سوچنے پر مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ گجرات کی وہ عورت نو عمری میں اپنے گھر سے نکلی اور میلان آگئی۔ اُس نے دنیا تو کیا اپنے ملک کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اگر شمالی علاقہ جات کا حسن دیکھ لیتی تو غش کھا کر گر پڑتی۔
میرے موبائل کی بیل نے متوجہ کیا تھا۔ نثار احمد میلان پی آئی اے آفس کا کوئی کارندہ جسے اسماء نے مجھے وصول کرنے اور ہوٹل پہنچانے کی تاکید کی تھی بات کرتا تھا۔میں نے ممکنہ وقت کا بتایا۔
روم کا مضافات شروع ہو رہاتھا اور میں صرف یہی بات ایک تسلسل سے سوچے چلے جا رہی تھی کہ کتنی تمنا تھی اِس عظیم الشان، سفاک اور اندھی طاقت کے مظہر شہر کودیکھنے کی۔ یورپین تہذیب کا ایک شوکیس جس کے قدیم ترین ورثے حیران کرنے والے ہیں اور ماڈرن سانچے اِسے توانائی سے مالا مال کرتے ہیں۔
گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہوتے رُک گئی۔ اسٹیشن لابیاں ٹرین ٹریکوں کے لیول سے روم میں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ مجھے یہ سسٹم بہت اچھا لگاتھا۔
میں انسانوں کے اِس روانی سے بہتے ہجوم میں نثار احمد کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ناکامی پر نمبر ملایا۔پتہ چلا کہ وہ وہیں کہیں موجود تھا۔ چلو دو تین منٹ میں ہی اُسنے مجھے ڈھونڈ لیا۔شلوار قمیض کے ہوتے ہوئے بھلا پہچان کی کیا دشواری تھی۔
اُ س نے میرے ہاتھ میں پکڑی میری ننھی مُنی سی بقچی پکڑی اور میں اُس کے ساتھ باہر آگئی۔ سڑک پر آنے کے ساتھ اُس کا پہلا سوال آصف علی زرداری سے میری رشتہ داری کس نوعیت کی ہے؟کے متعلق جاننے کا تھا۔ چلتے چلتے رُک کر میں نے ہونقوں کی طرح اُسے دیکھا اور خود سے کہا۔
”ارے یہ اُس نے کیا پوچھا ہے؟ مجھ غریبڑی کا کیا واسطہ ناطہ اُس کھرب پتی سے۔“
دفعتاً جیسے برق سی کوند جائے۔یقینا اسماء نے اپنے عملے کو میرے سلسلے میں مرعوب کرنے کیلئے کوئی بڑ ماری ہوگی۔پھر ایک خیال نے بھی مجھ سے پوچھا۔پی آئی اے میں زرداری کے شیئرز ہیں؟یقینا ہوں گے۔ اگر ظاہراً نہ ہوں تو اندر خانے ہوں گے۔بڑے لوگوں کے طورطریقوں اور ہتھکنڈوں کو ہم جیسے بھلاکیا سمجھیں؟
بہرحال میں نے ہوشیاری سے کام لیا اور بات نبھا دی کہ اچھے تعلقات ہیں۔ میرا خیال ہے نثار احمد بڑا کائیاں قسم کا آدمی تھا۔ سمجھ گیا تھا۔ بولا کچھ نہیں۔ پر چہرے نے اندر کے سمجھنے کو بوتھے پر سجا لیا تھا۔
میں نے بھی ”بھاڑ میں جائے جو مرضی سمجھے“ کہتے ہوئے بڑی چاہت سے اپنے گردوپیش کو دیکھا۔ شاندار عمارتیں، خوبصورت سڑکیں۔ ابھی پچاس قدم چلی ہوں گی کہ پہلے وہ ایک جانب مڑا۔ Fiammaہوٹل کا پوچھا اُنہوں نے دوسری جانب کا راستہ دکھایا۔
لیجئیے ایک خوبصورت چار منزلہ عمارت کے سامنے کھڑی ہوکر میں نے اطمینان اور سرور سے اِسے دیکھا۔عمارت کے خودکار دروازے کھلے اور میں نے اندر داخل ہو کر پسندیدہ نظریں اپنے گردوپیش پرڈالیں۔
ایک ہوٹل کوجیسا نظر آنا چاہیے تھاویسا ہی میرے سامنے تھا۔ریسپشن پر ساری کاروائی بھگتائی۔55 یورو کے حساب سے سنگل بیڈ والا کمرہ تین دنوں کی بُکنگ۔
میں نے نثار احمد کو وہیں سے بصد اصرار ٹوکرے بھر شکریے کے ساتھ واپس بھجوانا چاہا۔مگر وہ مجھے کمرے میں پہنچانے پر مُصر تھا۔
”چلو بیبا کر لو اپنا شوق پورا۔مائی کو ایک جوڑے اور واش روم کی چپل کے بوجھ سے لدے شاپر کو اُٹھانے کی زحمت سے بچاکر ثواب کما نا ہے تو بھئی کماؤ۔“
کمرہ اچھا تھا۔نثار احمد نے واپسی ٹکٹ خریدنے کی پیشکش کی جسے میں نے شکرے کے ساتھ یہ کہتے ہوئے ردّ کر دیا کہ میرے موڈ کا کچھ پتہ نہیں۔روم سے محبت نے زیادہ اچھل کود کی تو ایک آدھ دن مزید ٹھہر سکتی ہوں۔مگر حقیقتاً ایسا نہ تھا۔یونہی مجھے خیال آیا تھا۔ اسے پیسے دے کر میں کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس جاؤں۔کون اسماء کو چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے پریشان کرے کہ دو قدم پر تو اسٹیشن ہے۔جب جی چاہا لے آؤں گی۔
جانے سے قبل اُس نے ایک بار پھر زرداری سے میرے تعلق کی نوعیت جاننا چاہی۔ منہ پھٹ عورت ہوں۔زیادہ دیر ملّمع سازی نہیں کرسکتی۔اب بھئی اسماء بُرا مانتی ہے تو مانے میں کیا کروں۔
”ارے میرے بچے ہمارا کیا تعلق اِن اونچی جاتی کے لوگوں سے۔ہاں مگر چھوڑو اِس بات سے کیا لینا دینا۔ تم نے جو یہ مہربانی کی اُس نے مجھے پندرہ منٹ میں یہاں پہنچا دیا۔ تمہاری عدم موجودگی میں یہی مرحلہ آدھ گھنٹے میں ذرا خجل خواری سے طے کر لیتی۔ اس لئے تمہارا بہت بہت شکریہ۔ جیتے رہو۔“
روم ایسا شہر ہے جس کی شما ل، جنوب، مشرق، مغرب ہر سمت تاریخی اثاثوں سے بھری پڑی ہے۔ اُس نے میرے دیئے ہوئے پین سے میری کاپی جو میں نے کھول کر اُ س کے سامنے رکھی تھی پر آٹھ دائرے بنائے۔
کاپی کے داہنے ہاتھ چھوٹا سا دائرہ کھینچتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اسٹیشن ہے۔اِس کے قریب ہی نیچرل میوزیم ہے۔اوپر ایک بڑا سا دائرہ اور بنا۔ وہا ں بورگیزBorghese Gallery اور ذرا نیچے سٹیشن اس کے بعد Spanish Steps دکھاتے ہوئے کہا کہ دونوں جگہیں خوبصورت اور تاریخی حوالوں سے اہم ہیں۔انگریز ی کا وہ شاعر جو بڑی رومانی نظمیں لکھتا تھا اور جوانی میں مر گیا تھا۔وہ یہیں ساتھ ہی عمارت میں مرا تھا وہاں اُس کا میوزیم ہے۔
”اوہو تم کیٹس کی بات کر رہے ہو۔“
میراسارا اشتیاق میرے چہرے پر اُمنڈ آیا تھا۔ اُدھر ہی Pizza Del Popoloاور شاپنگ مارکیٹ ہے۔آگے ویٹی کن سٹی ہے مغربی جانب۔ شمال مغربی سمت ویٹی کن کا دائرہ کھینچ گیا تھا اور ساتھ ہی تھوڑی سی وضاحت کہ میوزیم کا دیکھنے سے تعلق ہے۔رومن کیتھولک کی ساری تاریخ مجسم ہے وہاں۔
اُسی طرف ایک لکیر دریا کی کھینچی اور بتایا کہ یہ Tiber River ہے۔ اب دریا کے اندر کی جانب ایک اور دائرہ کھینچا گیاکہ یہ Pantheom Neighbourhood ہے۔ میں تو اِسے روم کادل کہتا ہوں۔
نثار احمد نے کاپی پر سے نگاہیں اٹھائیں۔ میری طرف دیکھا اوربولا۔
”بہت لوگوں کا یہی کہنا ہے ہاں البتہ جب آپ اُسے دیکھ لیں گی تو شایدآپ بھی یہی کہیں۔“
اب مرکز میں ایک دائرہ کھینچا۔ یہ پرانا روم ہے۔ یہیں Colsseumہے۔ یہیں رومنوں کی تاریخ ہے۔ عین نیچے اور مغربی جانب ذرا اونچائی پر دودائرے اور بنائے گئے۔نیچے والے میں اُس نےTestaccio اور دریائے Tiber کے پارTastevere لکھے۔
پھر قلم مجھے تھماتے ہوئے وہ اُٹھا اور اُس نے کہا اگر آپ نے اِن سب کو دیکھ لیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے تھوڑا بہت روم دیکھ لیا۔
میں نے کاپی پر نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا۔”تم روم میں کب سے ہو؟ بڑے ماہر لگتے ہو۔ تمہارا علم اور معلومات بہت متاثر کن ہیں۔ اِس انداز میں گائیڈ لائنیں یہ تو بڑی ٹیکنیکل اپروچ ہے۔
اُس کا لہجہ نارمل تو تھا مگر اس میں کوفت اور بیزارگی کا عنصر بھی تھا۔ دس سال سے ہوں۔ پی آئی اے کے بڑے لوگوں، اُن کے رشتہ داروں اور اُن کے واقف کاروں کا خادم اعلیٰ ہوں۔کوئی بڑی اور بااثر شخصیت جب بھی آتی ہے تو انہیں لئے لئے پھرنا اور اُن کے لئے ہر سہولت بہم پہنچانا میرا فرض منصبی ہے۔
اُسے رخصت کرنے کے بعدمیں بستر پر لیٹ گئی۔ تنہائی، آرام دہ بیڈ، روم شہر میں خود کی موجودگی کا سرور، سب دل خوش کن تھے۔
پورے آدھ گھنے بعد مجھے احساس ہوا میں تو بہت بُھو کی ہوں۔ منہ ہاتھ دھویا۔ کنگھی پٹی، تھوڑی سی لبوں کی لالی سے صورت کو گوارا کرنے کی کوشش ہوئی۔ دروازہ لاک کرنے کے بعد اُن بھول بھلیوں سے احسن طریقے سے نکلنے اور لفٹ تک پہنچنے کی کامیابی نے دل شاد کیا۔چابی کاؤنٹر پر دیتے ہوئے خودسے کہا۔
”بات ہوئی نا۔“ وینس یاد آیا تھا۔
مگر اُسے خدا حافظ اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے سے قبل میں نے یہ جاننا ضرور ی سمجھا کہ اِس وقت جب ایک بجنے والا ہے مجھے کن چیزوں کو دیکھنا چاہیے؟
میری اِ س بات پر وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اُس نے کاغذ قلم مانگا۔
پہلی بات کہ آپ روم کی سیر کے لئے رومہ پاس لیں۔ یہ آپ کو تین دنوں کے لئے ٹرانسپورٹ اور اہم جگہوں پر ٹکٹ کے لئے لائنوں میں لگنے اور ٹکٹ کے خرچ سے بچائے گا۔ بیس یورو کا یہ ٹکٹ آپ کو ٹرین اسٹیشن جہاں سے ابھی آپ آئی ہیں سے مل جائے گا۔
اسٹیشن تو اتنا بڑا ہے۔ میں نے بات کاٹی۔”ارے بھئی نیوز سٹینڈوالے بیچتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی کتابوں، رسائل اور اخبارات کا اسٹال نظر آئے۔ اُ ن کے پاس چلی جائیے۔بروشر اور نقشے بھی مل جائیں گے وہیں سے۔“
ہوٹل سے نکلی تو ساتھ ہی جنرل سٹور نظر پڑا۔ لیجئیے بنگالی لڑکوں سے متھا ٹکرایا۔ اب یہاں اپنی بنگلہ دیشی محبت کی ساری روئیداد پھر محبتوں کے شیرے میں گوندھ کر سنائی۔ لڑکوں نے محبت تو دکھائی۔ مگر کاروباری ذہنیت کا بھی اظہار ہوا۔ دودھ اور پانی کی بوتلیں بسکٹ،کیلے، آڑو اور سیب لئے۔
تو کمرے میں آکر میں نے دودھ کی ایک بوتل اور پانی کی دو بوتلیں پئیں۔تھوڑی دیر ٹھہر کر دو کیلے کھائے۔سیب کھایا۔آڑو دھو کر شاپر میں لپیٹ کر دو عدد کیلوں کے ساتھ بیگ میں رکھے کہ تھکن کی صورت میں توانائی بحال رکھنے کا موثر بندوبست ہو۔
اسٹیشن پر کتابوں کی دکان کھوج کی۔ایک ملی تو وہاں سے رومہ پاس نہیں ملا۔میں نے لعنت بھیجی۔سڑک پر ایک چھوٹی سی دکان سے نقشے کا پوچھا۔نقشہ ملا۔رومہ پاس بارے دریافت کیا۔جواب نفی میں تھا۔ہاں البتہ ہوپ آن اور آف کے ٹکٹ دستیاب تھے۔
اب جب آدھا دن گزر چکا تھا اس کے لینے کا فائدہ۔اس پروگرام کو تو کل کیلئے رکھا جائے۔ نقشہ کھولا۔لمبا چوڑا سا۔اب جس جس موٹی سرخی پر نظردوڑاتی ہوں وہ خیر سے مجھ سے بھی زیادہ اتنی گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی نظرآتی ہے۔دریا بڑا کلیئر تھا۔ کولو سیئم coloseum کا پتہ چلتا تھا۔اب جو غور کیا تو ماتھے پر ہاتھ مارنا پڑا کہ سارے کا سارا اطالوی زبان میں تھا۔لکھے موسیٰ تے پڑھے خدا والا معاملہ تھا۔
اور کچھ سمجھ نہ آیا تو سڑکوں پر مٹر گشت شروع کردی۔ معلوم ہواکہ روڈ کی ہر تیسری چوتھی دکان کسی بنگالی کی ہے یا وہ وہاں ملازم ہے یا مالک ہے۔
”واہ بھئی واہ۔بنگالیوں نے تو بڑے جھنڈے گاڑے ہیں۔انہی چکر بازیوں میں ایک دکان میں بیٹھ گئی کہ مستفیض الرحمن نے بیٹھنے کو کرسی دی تھی۔ اُسے انگریزی چھوڑ اُردو بھی بہت اچھی آتی تھی۔
سعودی عرب میں پندرہ سال گزارنے والا عربی اور انگریزی بولنے پر بھی قادر تھا۔بڑا وسیع المطالعہ شخص تھا۔عرصہ دس سال سے اٹلی میں تھا۔سخت محنت اور جدوجہد کرنے والا۔“
روم کے بارے بات کرنے پر بولا۔
”بھئی میرے لئیے تو روم یورپ کا اہم ترین اور بہت بڑا شہر ہے۔لندن اور پیرس جیسا۔صدیوں کی تاریخ کو کلیجے سے لگانے اور سنبھالنے والا۔کوئی دو صدیا ں پہلے لفظ “روم”اپنے معنی و مفہوم میں تہذیب و تمدّن کا کھلا اظہار تھا۔اس کی ہر چیز خواہ اس کا تعلق رومن ایمپائر سے ہو یا لاطینی اور یونانی زبانوں سے یا غیر لاطینی وحشی و غیر مہذب لوگوں سے۔مگر آج کی دنیا میں “روم”کا مفہوم قطعی طور پر نئے معنی لئیے ہوئے ہے۔اٹلی کا سیاسی دارلخلافہ،کیتھولک مذہب کا مرکز اور قدیم دنیا کی باقیات جسے ایک طرح نظرانداز کردیا تھا مگر یہ اپنی جدیدیت کے ساتھ ساتھ اُس عہداور اس کی اُس خوشبو کو بھی زندہ کرتا ہے۔
تو اب گائیڈ کریں کہ ڈھائی بج رہے ہیں کِس طرف نکلوں؟
اس وقت دکان پر کوئی اکّا دکّا گاہک آتے تھے۔یہ سونئیرز،فوٹومشین،انٹرنیٹ کی دکان تھی۔پرانا روم سب سے پہلے دیکھئیے۔قدیم زمانوں میں تو یہ عالیشان اور حددرجہ خوبصورت عمارتوں کا ایسا شہر تھا جسمیں کوئی ایک ملین لوگ رہتے ہیں۔مگرآج کے تناظر میں یہ کلاسیکل نظاروں کا شہر ہے تو پہلے کلوزیمColosseum جائیے۔
مگراب سچی بات یہی ہے کہ طبیعت نہ تو کلوزیم جانے پر مائل ہوئی اور نہ ویٹی کن کیلئے۔گودونوں جگہوں کا اشتیاق کچھ کم نہ تھا۔مگر یہاں دل کا معاملہ تھا اور دل تو Spanish Stepsجانے اور کیٹس کے اُس عارضی ٹھکانے کو دیکھنے کیلئے ہی ھُمکا اور مچلا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments