• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/ پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی میرے خوابوں کا ایک دیومالائی کردار تھے۔(آخری قسط24)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/ پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی میرے خوابوں کا ایک دیومالائی کردار تھے۔(آخری قسط24)۔۔۔سلمیٰ اعوان

اچھی چائے کا ایک کپ،اچھی کتاب اور سیر سپاٹا کوئی ان کے بدلے ہفت اقلیم بھی دے تو نہ لوں۔
قہوے کی خوشبو کمزوری کِسی گلی محلے سے گزرتے ہوئے یہ مہک باورچی خانے کی کھڑکی سے اُچھلتی کُودتی باہر نکل کر میرے نتھنوں میں گھُس جائے تو پاگل کرتی اِس خوشبو سے محظوظ ہونے کے لئیے میں چند لمحے اُس گلی میں رُکنا چاہے پسند کروں پر اُس گھر کا دروازہ کھول کر یہ صدا کبھی نہ لگاؤں کہ بی بی اللہ کے نام پرمولا کے نام پر ایک کپ مجھے بھی عنایت ہو۔
یقیناًاِس میں کچھ میری غیرت اور شرم کا دخل ہرگز نہیں۔مجھے کِسی کے گھر کی چائے پسند نہیں آتی۔چائے دانی کاخوبصورت ٹی کوزی سے ڈھنپا ہونا ضروری، فی کپ کے حساب سے پتی اُس میں ڈلی ہو۔قہوہ بھاپ اُڑاتا اوردودھ بہت اچھا۔
گیارہ بجے ٹی ٹائم۔
ہر مہینے میں ایک دن ایسا آتا جب میرا دودھ والا ناغہ کرتا۔تپ چڑھتی۔غصے سے کہتی تو اُس کا جواب ہوتا۔
”کسی اور کا بندوبست کر لیں بی بی۔ہم سے لینا ہے تو یہ ناغہ برداشت کرنا ہوگا۔دودھ کی کیا اوقات؟ ہماری تو جان و مال اُس پیران پیر غوث اعظم کی سرکار پر قربان۔یہ تو ہمارا معمولی سا نذرانہ ء  عقیدت ہے۔آپ مجھے کوسا نہ کریں۔“

یوں اِس انداز میں ہر ماہ چاند کی گیارہویں کو یہ پیر مجھ سے متعارف ہوتا۔یہ پیر میرے لئیے اجنبی تھوڑی تھا۔دیومالائی سا کردار تھا اُس کا۔سارا بچپن اور لڑکپن اُس کی سچائی کی کہانیاں سُنتے اور پڑھتے گزرا تھا۔اُن میں سب سے مشہور اور زبان زد کہانی اُس چھوٹے سے بچے کے سچ کا اعلان اور ماں کی اطاعت کا اظہار تھی۔نتیجہ ڈاکوؤں کے سردار کی ڈاکوں سے توبہ تھی اور اُس پورے گروہ کا راہ ہدایت کی طرف لوٹنا تھا۔

کہانی تو یہاں ختم ہو جاتی۔مگر کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اُس چھوٹی سی لڑکی کی جان کِس سیاپے میں پڑ جاتی؟جنگل اپنی خوفناکیوں سے کیسے کیسے اُسے ڈراتا؟شیر ببر کچھاروں سے نکل آتے۔چیتے،ہاتھی اور دوسری ال بلائیں بھاگی پھرتیں۔ سانپ اور بڑے بڑے اژدھے دوڑے چلے آتے۔ ڈاکوؤں کی خوفناک صورتیں بچے کے ساتھ اُن کے سوال جواب۔پتہ نہیں کتنا تلخ لہجہ ہو گا اُن کا؟اللہ تُوکتنا اچھا ہے؟ تُونے اس پیارے سے لڑکے کو ان سبھوں سے بچایا بھی اور بُرے لوگوں کو نیک بھی کر دیا۔

میری تو راتیں وابستہ تھیں اِن یادوں کے ساتھ۔بڑے ہو کر جب بڑی اور خشک چیزیں پڑھنے لگی تو تصوّف کیا ہے؟اور تصوف کے سلسلوں کی مشہور لڑیاں جنیدیہ،فردوسیہ چشتیہ،نقشبندیہ او ر اعظمیہ وغیرہ کہاں کہاں اور کِن کِن سے نسبت رکھتی ہیں جیسے علم سے تھوڑی سی آگاہی ہوئی تو جانا کہ سلسلہ قادریہ آپ کے نام نامی عبدالقادر سے متعلق ہے اور آپ پیروں کے پیر ہیں۔

اب مصیبت تو ساری جہالت اور کم علمی کی ہے نا کہ سیدھے سادھے اور جاہل لوگوں نے آپ کی تعلیمات سمجھنے اور اُن پر عمل پیرا ہونے کی بجائے آپ کو خدا کے قریب کھڑا کر دیا ہے اور اندھی عقیدتوں نے لے لے گیارہویں والے دا ناں تے ڈُبّی ہوئی تر جاوے گی جیسے اشعار درجنوں کی صورت گھڑ لیئے ہیں۔اور کیلنڈروں کی روغنی سطح پر ایک داڑھی والا نورانی صورت گیارہویں والا پیر بنا کر بٹھا دیا ہے۔

پیدائش ایران میں ہوئی۔ مقام ایران کا صوبہ گیلان کا ایک گاؤں نیفNaif تھا۔اس تعلق سے گیلانی عربی میں گ کی جگہ ج رائج ہے جیلانی مشہور ہوئے۔باپ کا نام ابو صلاح موسیٰ اور ماں اُمّ الخیر فاطمہ تھیں جن کا واسطہ اور تعلق حضرت زین العابدین سے جا ملتا تھا۔ مہینہ رمضان المبارک۔روایت ہے کہ ایک بار علاقے میں بادل گہرے ہونے کی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہیں آیا۔لوگ شک و شبہ میں تھے۔قرب و جوار کے چند لوگوں نے آپ کی والدہ ماجدہ سے رابطہ کیا کہ وہ ایک متقی اور پرہیز گار خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں۔والدہ سیدہ اُمّ الخیر فاطمہ نے جواب میں فرمایا ”آج میرے عبدالقادر نے خلاف عادت دن کے وقت دودھ نہیں پیا ہے اس لئیے میں سمجھتی ہوں آج پہلا روزہ ہے۔“کچھ دن بعد معتبر شہادتوں سے اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔

اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد آئے جہاں اُنہوں نے مدرسہ نظامیہ کے حنبلی مدرسہئ فکر میں مختلف استادوں سے فیض پایا۔فقہ میں ان کی رہنمائی ابوعلی مکارمی Mukharrimiجیسے جید اُستاد نے کی۔حدیث ابوبکر ابن مظفر سے پڑھی اور تفسیرابومحمدجعفرسے۔
پچیس سال انہوں نے عراق کے صحرائی علاقوں کی خاک چھانی۔تبلیغ کی اور لوگوں میں علم اور ہدایت بانٹی۔

جب زندگی نے پچاس کی حد چھوئی تب واپسی ہوئی اور یہیں ٹھکانہ بنایا۔معمول کچھ یوں ٹھہرا تھا کہ صبح وہ تفسیر پڑھاتے۔سہ پہر کائنات کے اسرار پر سائنس کے حوالوں سے بحث مباحثہ ہوتا۔قران کی حکیمانہ فلاسفی زیرگفتگو آتی۔
صلاح الدین ایوبی کا وہ مشہور جرنیل ابن کودامہQudamahان کا ہی شاگرد تھا جس نے یروشلم کو فتح کرکے اُسے عیسائی غلبے سے آزاد کروایا تھا۔
تعلیم و تدریس کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تو زندگی کے آخری سانس تک چلا۔اُناسی سال کی زندگی عبادت اور اسلام کی خدمت میں گزاری۔

ٹیکسی تیزی سے سڑکوں پر بھاگ رہی تھی۔جس جگہ سے گزر رہی تھی۔سارا علاقہ غُربت کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوڑا کرکٹ،اڑتے پھرتے شاپر۔ٹوٹی پھوٹی کاروں کا ملبہ،پانچ چھ منزلہ عمارتوں کے ٹوٹے شیشے۔دیواروں میں گولیوں کے نشان۔پانچ سال ہوئے ہیں ابھی تک یہ عمارتیں دیکھنے والوں کو اُن المناک لمحوں کی یاد دلاتی ہیں۔یہ دُکھ بغداد کے چہرے پر، یہ نشان اس کی صورت پر جانے کب مٹیں گے؟

یہ محلہ گیلانی تھا۔

گدلے آسمان،کھجور کے چند درختوں اور براؤن رنگ کی بلند چار دیواری میں نمایاں مسجد کا نیلا نقشین گنبد اور میناراِسی طرح نمایاں ہوئے تھے جیسے کِسی صحرا میں شب کے آخری پہر درختوں کے بیچ سے چاند نمودار ہوجائے۔بازار میں چہل پہل اور رونق تھی۔دوکانیں کُھلی اور عورتوں،مردوں،بچوں کے ہجوم نظر آئے تھے۔دیہاڑی دار دوکانوں کے سامان سڑک کے کناروں سے رینگتے رینگتے کافی آگے بڑھ رہے تھے۔عراقی دوکاندار اُس جگے پہلوان کی طرح نظر آئے تھے جو سینہ تان کر سڑک کے بیچوں بیچ ڈکراتے ہوئے چلتا اور کہتا ہے۔
”کر لو جو کرنا اے، سڑک تے میرے پیو دی اے۔“

اندر داخل ہونے سے قبل کی کیفیت بڑی ہیجانی سی تھی۔خدا کی عنایت پر شکر گزاری تھی۔بھلا میں اِس قابل کہاں کہ اتنی بڑی ہستیوں کا دیدار کر سکتی۔
ٰ گیٹ کے ساتھ سیاہ گرل اندر تک چلی گئی تھی۔مین گیٹ سے بہت دور چیک پوسٹ تھی۔کیمرے تو ممنوع تھے۔میں نے کیمرہ اندر لے جانے کی درخواست بڑے عاجزانہ انداز میں کی تھی۔لڑکی خاصی حلیم الطبع سی تھی مگر جس انداز میں انکار ہوا اُس نے سمجھایا کہ یہ سب لڑکیاں بھی ایک ہی تھیلی کی چٹیاں بٹیاں ہیں۔صورت کی نری مومن اب کرتوت کافراں کہنا کچھ مناسب نہیں۔
مرکزی دروازہ بلند و بالا،خوبصورت اور نفیس ڈیزائن دار تھا۔صحن خاصا کشادہ ہے۔ داہنے ہاتھ مسجد اور روضہ  مبارک ہے۔ وسیع و عریض ہال کے عین درمیان میں روضہ مبارک ہے۔یہاں پردے کا اہتمام ہے۔مرد اور خواتین کے حصّے الگ الگ ہیں۔دیواریں شیشے کے کام سے سجی جگمگ جگمگ کرتی ہیں۔گنبد کی چھت میں لٹکتے فانوس سے روشنی کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔
قبر کا تعویزمبارک کوئی پانچ فٹ اُونچا ہے۔مشک و عنبر سے لدی پھندی معطر خوشبوئیں ایک تقدس بھری فضا کا احساس جگا رہی تھیں۔سامنے والی سیڑھیاں پلیٹ فارم کی صورت اوپر تک چلی گئی تھیں یہاں صحن کے آگے کمرے تھے۔

میں نے کوئی سو بار شُکر ادا کِیا ہوگا کہ اس وقت روضہ مبارک بندنہیں تھا۔حجرے کا کمرہ چھوٹاساتھا۔چاندی کی جالیوں سے اندر جھانکا۔ فانوسوں کی تیز روشنیوں میں سبز چادروں کی چھاؤں میں آرام کرتی ایک پاکیزہ ہستی جنکی پوری زندگی کا ہر لمحہ سادگی اورنمودونمائش سے بے نیازی میں بسر ہوا اس وقت تام جھام اور لشکارے مارتی آرائشی چیزوں میں گھری پڑی تھی۔عقیدت مند بھی کیسے ظالم ہیں؟تعلیمات بُھلا بیٹھے ہیں اور دُنیاداری کے جھمیلوں میں اُلجھ گئے ہیں۔

مجھے محسوس ہوا تھا جیسے دھوپ بڑی سرعت سے چھتوں کے بنیروں سے نیچے ہوتے اب گم ہونے لگی ہے۔عصر کا وقت تنگ تھا۔نفل چھوڑ میں نے فوراً نماز پڑھی۔دعامانگی۔پھرجیسے مجھے شدید قسم کی تشگی کا احساس ہواتھا۔
میرے اندر نے کہاتھا۔
”تم یہاں کِس وقت آئی ہو؟ا بھی تھوڑی دیر میں اندھیرے کی چادر تننے والی ہے۔تم تو کچھ بھی نہیں دیکھ سکو گی۔یہ جگہ کیا ایسی ہے جہاں تم آؤ اور ہاتھ لگا کر چلی جاؤ۔گویا خانہ پُری کرنی تھی۔
”ہاں میں نے اپنے آپ سے بات کی تھی۔
مجھے تو یہاں کا لنگر بھی کھانا تھا۔طارق اسمٰیعل ساگر نے خصوصی طورپر مجھے لنگر کھانے کی تاکید کی تھی۔زمانوں سے پکتا خاص و عام میں بٹتا یہ یقینا ً ان کے فیضان نظر کا اعجاز تھا۔
اور جب میں اپنے دل میں دوبارہ آنے کی منصوبہ بندی کرتی تھی۔میں نے ذرا فاصلے پر دو نوجوان لڑکیوں کو دیکھا۔تعارف ہونے پر خوشگوار حیرت سے دوچارہوئی۔خادم ابو قاسم کی صاحبزادیاں تھیں۔والد کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔غوث اعظم سے عقیدتوں اور محبتوں کے رشتوں میں بندھے ہوئے زمانوں پہلے یہاں آکر آباد ہوگئے۔مزار کی دیکھ بھال سنبھال لی۔فائزہ اور ثناء پڑھی لکھی عربی،اُردو اور انگریزی پر عبور رکھتی تھیں۔مجھے سرشاری سی محسوس ہوئی۔میں اُن کے ساتھ باہر آئی۔

کشادہ صحن کے پاس کوئی دس بارہ سیڑھیوں پرعورتیں سیاہ عباؤں میں لپٹی بیٹھی تھیں۔بچے کھیلتے تھے۔ثنا بتاتی تھی کہ تنگ اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ شام کو گھروں سے نکل کر یہاں آجاتے ہیں۔مغرب اور اکثر نماز عشاء کے بعد واپسی ہوتی ہے۔
مہمان خانے کی عمارت دو حصّوں پر مشتمل تھی ایک مُلکی زائرین اور دوسرا غیرمُلکیوں کیلئے۔
”لائبریری اُوپر کی منزل میں ہے۔کیا اُسے دیکھنا چاہیں گی؟“
”کیوں نہیں۔مگر کِسی دن کے وقت آؤں گی اور تفصیلی دیکھوں گی۔“
یہ مجھے اُن کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ کُتب خانے میں کوئی پنتالیس ہزار کے قریب کتابیں اور مخطوطات ہیں۔ایک آدھ تو ایسا نادر نسخہ ہے جو دجلہ کے پانیوں سے نکالا گیا تھا۔
یہ جہاں مزار ہے یہاں پہلے مدرسہ تھا۔وہی مدرسہ جس میں پڑھنے کیلئے آپ آئے اور جہاں آپ نے زندگی کی آخری سانسوں تک پڑھایا۔درمیانی عمر کا کچھ وقت بغداد سے باہر تبلیغ و تدریس میں بھی گزارا۔
کچھ یاد آیا تھا۔ذکر کی ایک محفل یاد آئی تھی۔شاید حنا بابر کے ہاں یا سید سرفراز شاہ کے ہاں۔گفتگو کے دوران کِسی نے غوث اعظم کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی تھیں کہ چیزوں میں Electromagnetic wavesکی موجودگی کا انکشاف اُس عظیم ہستی نے کِیا تھا۔

سیڑھیوں سے اُوپر کشادہ آنگن کے پار محرابی دروازوں والی وسیع و عریض عمارت کا سلسلہ نظر آتا ہے۔صحن میں ایک طرف گھنٹہ گھر ہے دوسری طرف لنگر ہے۔ایک بہت بڑی دیگ میں چاول، گوشت،دالیں سب ڈال دی جاتی ہیں۔ہزار آدمیوں کا روز کھانے کا پکنا یہاں معمول ہے۔بدترین حالات میں بھی یہ لنگر بند نہیں ہوا۔ کاش میں دوپہر کو آتی اور لنگرکھاتی۔اس لنگر کو کھانا بھی بڑی سعادت تھی۔
مغرب کی نماز اور دعا کے بعدفائزہ نے مجھے ان کے صاحبزادوں شیخ عبدالجبار گیلانی اور شیخ صالح بن سید کے روضہئ مبارک دکھائے۔وہ سامنے والے حصّے میں تھے اور بند تھے۔
اُن کی زندگی پر کچھ مزید روشنی بھی اُنہوں نے ڈالی۔

وہ باکمال ولی اللہ تھے۔پانچ عباسی خلفاء کے دور انہوں نے دیکھے۔شخصی حکمران جن کے شاہانہ انداز اور درباری چکا چوند آنکھیں پھاڑتی تھی۔ایسے میں کھڑے ہو کرباآواز بلند یہ کہنا کتنے دل گردے کا کام تھا؟”اے لوگو خیال کرو دین کی دیواریں گِر رہی ہیں اور اس کی بنیادیں بکھر رہی ہیں۔اے باشندگان زمین آؤ جو گِر گیا ہے اُسے مضبوط کریں اور جو ڈھے گیا ہے اُسے درست کردیں۔ایک اکیلا آدمی کچھ نہیں کرسکتا۔سب کو مل کر کام کرنا ہے۔“

انہوں نے مسلمانوں میں عمل کے احیاء کی بھرپور کوشش کی۔تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب دیا۔اُن کی تالیفات اِس لحاظ سے صوفیانہ ادب میں بڑا مقام رکھتی ہیں کہ انہوں نے اِسے عام فہم بنایا۔تصوف کے ساتھ وابستگی کے دروازے بھی عام آدمی کیلئے کھول دئیے۔اُن کے ہاں حرام حلال کا بڑا واضح تصور تھا۔
چار پاکباز بیویوں اور ایک کم پچاس بچوں کا سُن کر میرے اندر کی جدید نظریات سے وابستگی رکھنے والی عورت جو بچے دو ہی اچھے جیسے نعرے سے متاثر ہے زیرلب”ہائے اتنے بچے۔“جیسا تاثر مُنہ سے کچھ نہ بولنے کے باوجود چہرے پر سجا بیٹھی تھی۔

میرے اللہ! لڑکیاں کتنی پٹاخہ قسم کی تھیں؟پَل بھی نہیں لگا اور سمجھ گئیں۔دُنیا بھر کے زائرین کو بھگتاتے بھگتاتے کیسی خرانٹ ہوگئی تھیں کہ چہرہ شناسی میں طاق ہوئی پڑی تھیں۔انہوں نے تو میرے وہ لتّے لئیے تھے کہ ذہن کے دریچوں کی ساری چولیں ہلا دیں۔چھوٹی نے تو ڈھیر لگا دئیے تھے مثالوں کے۔
کہیں عیسائیت کی تبلیغ کیلئے خود کو وقف کرنے والیNunsجو غیر فطری زندگی گزارتی ہیں کے حوالے،کہیں فادرز کا ذکر۔کہیں یونانیوں اور رومنوں کی سینکڑوں بیویوں کے بارے انکشافات۔ جانتی ہیں جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کِیا تو ر ا جہ داہر کی سات سو بیویاں تھیں۔
”اللہ میرے میں نے فی الفور اپنے اندر کے شیطان کو چانٹے لگائے جو میری عقیدتوں کے ایسے بھونڈے اعتراضات سے پَر کاٹنے پر کمربستہ رہتا ہے۔

دُنیا میں اسلام پھیلانے والی یہی نیک اور برگزیدہ ہستیاں ہی تو تھیں۔غوث اعظم اسلام کے وہ فرزند کہ جن پر سارا عالم اسلام نازاں۔ بادشاہوں کو تو خدا نے توفیق ہی نہیں دی۔ان کے بیٹے بّرصغیر میں پہنچے۔شمالی افریقہ کے مُلکوں، عرب دُنیا کے مغربی علاقے سبھوں میں تبلیغ کی۔
عقائدکی اصلاح پر باپ بیٹوں کا بہت زور تھا۔آپ ہفتے میں تین بار وعظ فرماتے۔ کوئی ستّر (70)اسّی(80)ہزار کا مجمع ہوتا۔تاثیر کا یہ عالم تھا کہ اکثر لوگ شدت گریہ سے بے ہوش ہوجاتے وجہ صرف یہی تھی۔
کہ گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود۔

ثنانے مجھے ان کی تصنیفات سے بھی آگاہ کیا جو تقریباً 38اڑتیس کے قریب تھیں۔کچھ تو زمانے کے ہاتھوں خوردبرد ہوگئیں اور کچھ کتب خانوں اور عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔چند نام اُس نے مجھے نوٹ کروائے اور بتایا کہ یہ لائبریری میں ہیں۔
ان کا اہم کام Al-Ghunya li Tariq al-haqq waal-din
الفتح الربانی۔Al Fath ar- Rabbani القیض الرحمانی،القصیدہ الغوثیہ
Malfuzat
فتوح الغیب Fatuh-al-Ghaib
جلا ال خاتس Jala al khatis
سرالا اسرارSir Al-Asrar
تو میں نے سوچا چلو یہ سب کام اب اگلی ملاقات پر ہی ہوں گے۔

جنگ کے دنوں بارے بات کرتے ہوئے فائزہ کہتی تھی۔ہمارے گناہوں کی سزا۔کربلا اُتری ہوئی تھی۔ آپودھاپی اور نفسا نفسی کا وہ عالم تھا کہ قیامت کا سماں نظر آتا تھا۔سڑکوں پر غریب بے کس لوگ مرے پڑے تھے۔کوئی دفنانے والا نہیں تھا۔پانی کا قحط پڑگیا تھا۔
دونوں بہنیں دو مُلکوں سے تعلق کے باعث حالات حاضرہ سے واقف اور بخوبی آگاہ تھیں۔
صدام کے بارے میں بات ہوئی تو دونوں بول اُٹھیں۔
وہ بھاگ سکتا تھا۔کِسی دوسرے مُلک میں پناہ لے سکتا تھا مگر اُس نے ایسا نہیں کِیا۔اپنے مُلک میں رہا اور یہیں جان دی۔

صدام میری پسندیدہ شخصیت تھا۔کہتے ہیں وہ امریکی ایجنٹ تھا۔میں نہیں مانتی۔ وہ محب وطن سر پھرا تھا۔ضدی اور ہٹ دھرم تھا۔آمر تھا لیکن تعلیم، صحت اور لوگوں کے روزگار کی فراہمی میں بہت مخلص تھا۔آج ہر عراقی پڑھا لکھا ہے تو اِس کا کریڈٹ صدام کو جاتا ہے۔غریب کی زندگی کتنی آسان تھی؟ اُس کا اندازہ صرف اِس ایک بات سے لگا لیں کہ خلیج کی جنگ کے دوران بجلی،پانی اورفون کا ایک مہینے کا بل صرف ایک ڈالر ہوتا تھا۔پٹرول سستا تھا۔راشن کی فراہمی کا نظام موثرتھا۔پانی کے سینکڑوں پلانٹ صاف پانی مہیا کرتے تھے۔امریکہ بہت ظالم ہے اُس نے ہماری نسلیں تباہ کردیں۔ہمارا دینار مضبوط تھا۔اب آپ نے اُس کی حالت دیکھی ہوگی۔
میں اُسے سنتی تھی اور کہتی تھی۔”دیکھناسُنناکیا؟برت رہی ہوں۔ بے چارہ ککھوں ہولا۔“

وہ جیسا بھی تھا۔اپنے لوگوں کا وفادار تھا۔امن و امان کا محافظ تھا۔شیعہ سُنی کو نتھ ڈالی ہوئی تھی اُس نے۔اب دیکھو کیسے شُتر بے مہار سے ہو گئے ہیں؟
دوبارہ آنے اور بقیہ چیزیں دیکھنے کا وعدہ کرکے اُٹھی۔
”ضرور چکر لگائیے گا۔آپ کی ملاقات سید احمد الگیلانی اور ان کے بھائی عبدالرحمن الگیلانی سے کروائیں گے۔سید احمد پاکستان میں عراق کے سفیر بھی رہے ہیں۔اُن سے آپ کا ملنا بہت فائدہ مندہوگا۔آپ محفل سماع بھی دیکھئیے۔“
”محفل سماع۔“میں نے قدرے حیرت سے اُسے دیکھا۔
”ہاں ہاں محفل سماع۔دف،تلوار اور قرآنی آیات پر دائروں میں رقص۔“
”اوہو whirling dervishes ٹائپ کی چیز۔بھئی اسے تو ضرور دیکھنا ہے۔“

باہر نکل کر بغلی سڑک پر آئی کہ افلاق کو یہیں آنے کا کہا تھا۔ملگجے سے اندھیرے میں کشادہ سڑک کی ویرانی بڑی نمایاں تھی۔ روشنیاں نہیں تھیں اور پورا حصّہ گویا نیم تاریک سا تھا۔سامنے ایک وسیع و عریض احاطے کی دیوار تھی جس کے اندر چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔سڑک کے کنارے بیٹھ کر میں نے سوچااور خود سے کہا۔
”اب کیا کروں۔“

پندرہ، بیس منٹ، آدھ گھنٹہ۔اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا اور ساتھ ہی خوف کی لہریں بھی اندر کہیں اُترنے لگیں۔اُٹھوں،دیکھوں تو سہی۔کہیں سامنے نہ گاڑی کے پاس کھڑا ہو۔تیز قدموں سے روڈ کراس کی۔اگلا منظراور دہلانے والا تھا۔دُور تک جاتی سڑک سناٹے اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔تباہ شدہ لوہے کا سامان،جلی ہوئی گاڑیوں کے انجر پنجر کے یہاں وہاں بکھرے ڈھیر منظر میں مزید ہولناکیاں بھر رہے تھے۔کہیں کہیں فراٹے سے گزرتی کوئی گاڑی،مجھے یوں محسوس ہوا تھاجیسے موت ابھی یہاں رقص کرتی ہوئی بھاگی ہو۔

میں واپس مُڑی تھی۔دھک دھک کرتے دل کو سمجھاتے ہوئے کہ بڑھاپے میں ایسا خوف وڈر کسی سنگین صورت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔حوصلہ ضروری ہے۔مزار کا متولّی اور اُس کی بیٹیاں اُردو سمجھتی ہیں۔وہ مددگار ہوسکتے ہیں۔
مرکزی گیٹ کی طرف آئی۔تو خدا کی شکر گزار ہوئی کہ افلاق وہاں کھڑا تھا۔اُسے پریشانی سے آگاہ کِیا۔
”دراصل پولیس والے وہاں ٹھہرنے ہی نہیں دے رہے تھے۔گاڑی کو پارکنگ لاٹ میں لانا پڑا۔میں اسی لئے خود یہاں کھڑا ہو گیا تھا۔“
محلہ گیلانیہ سے ملاقات کروانے میں افلاق کی نیک نیتی تھی۔ وگرنہ وہ مجھے وہاں سے سیدھا دجلہ کے دوسرے پُر رونق حصّے میں بھی لا سکتا تھا۔
کچھ جگہیں ایسی ہیں جو دیکھنی ضروری ہیں۔گاڑی ان تنگ و تاریک گلیوں میں نہیں جا سکتی۔ اس وقت جھٹ پٹے کا سا سماں ہے جتنا چل سکتی ہیں چل لیں۔اُس نے کہا تھا۔

یہ تو بہرحال میں طے کیے بیٹھی تھی کہ ایک باردن کی روشنی میں مجھے یہاں پھر آنا ہے۔ بغداد کا سحر ہر دن اپنی گرفت سخت کئیے جاتا تھا۔میں اُن گلیوں میں تھی جہاں وہ میراسند باد جہازی پھرا کرتا تھا۔
چھوٹی چھوٹی دکانیں۔خریداری کرتے ماٹھے ماٹھے لوگ۔کناروں پرجلتے مدھم سی روشنی والے بلب جو بہرحال صُبح کاذب جیسی صورت پیدا کرتے تھے۔
افلاق راستوں کے یہ پیچ و خم اور گلیوں کی یہ اونچ نیچ کہیں مجھے اور کسی سیاپے میں نہ ڈال دے۔مجھے دن کی روشنی میں دوبارہ یہاں ضرور آنا ہے۔
پیارا سا لڑکا ہنس پڑا تھا۔
”دوبارہ کیا، سہ بار، چہار بار آئیں۔آپ کی تو پیاس بجھنی چاہیے نا۔“
”چلیے ایک چکر رشید روڈ کا لگاتے ہیں۔“
رات کی تاریکی۔دجلہ کا کنارہ سڑک پر تیزی سے بھاگتی گاڑی۔نیلی پیلی روشنیوں میں جگمگاتی بغداد کی شاندار عمارتیں۔کھانے پینے کے سلسلے۔کافی اور کولڈڈرنکز کے کھوکھے۔ لوگوں کے ہجوم،کہیں شطرنج کھیلتے،گپیں ہانکتے،مچھلی کھاتے،کہیں حُقّے پیتے،کہیں قہوے کی چھوٹی چھوٹی گلاسیاں پکڑے زندگی کی رعنائیوں میں گُم تھے اور نہیں جانتے تھے کہ دور دیس کی ایک سیاح اُن ہی جیسے ستم رسیدہ حالات کی شکار بغداد کی سیر کرتے ہوئے کِن محسوسات کا شکار ہے؟

ابو جعفر منصور کا بغداد، ہارون الرشید کا بغداد، اتنی تباہیوں کے باوجود مُسکرا رہا تھا۔ہنس رہا تھا۔افلاق نے مجھ سے کشتی میں دجلہ کی سیر کا پوچھا تھا۔”بوٹ ٹرمینل پر چلنا ہوگا۔“پل بھر کیلئے سوچا اور کہا۔
”نیل کے پانیوں کوہاتھوں سے چھونے کی خواہش کی طرح دجلے کے پانی بھی میری کمزوری ہیں۔ مگر پہلے ذرا ہم جگہوں سے نپٹ لیں۔“
سیدون سٹریٹ Sadounکے تعارفی حروف مجھے اتنا متاثرنہیں کر رہے تھے جتنی میری آنکھیں میرے جذب و شوق کو اپنے ساتھ ساتھ بھگائے پھرتی تھی۔ فلسطین ہوٹل اگر چمکتا تھا تو اس کے بالمقابل ابو نواس سٹریٹ پرشیرٹن کونسا کم تھا؟میں نے فلسطین ہوٹل کی منزلوں کو گننا چاہا پر چودہ پندرہ کے بعد چھوڑ دیا کہ گڑ بڑ ہو رہی تھی۔دفع کرو ہوں گی بیس بائیس۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیدون سٹریٹ میں دیکھنے کو بہت کچھ تھا۔بس اگر کمی تھی تو وقت کی۔ یہاں لبریشن سکوائر میں نامعلوم سپاہی کی یادگار تھی۔دیو ہیکل محرابی صورت تمکنت سے کھڑی عراقی فنکار عبداللہ احسان کمال اور رفعت کا اپنی اور قوم کی طرف سے نذرانہ عقیدت اُن سپاہیوں کے لئے جو ۹۵۹۱ میں ملک اور قوم کی عزت و وقار کے لئے قربان ہوئے۔
پاس ہی 14رمضان مسجد اپنی خوبصورتیوں کے ساتھ فوراََ توجہ کھینچتی تھی۔
رات کی روشنیوں میں مسجد کے گنبد اور مینار چمکتے تھے۔کھجور کے درختوں کی بلندی روشنیوں میں کچھ اور بلند دکھتی تھی۔بلند و بالا عمارات چمکتی تھیں۔ شاہراہوں کے گول چکر ایک دوسرے کو داہیں باہیں سے کاٹتے تھے۔روشنیوں کا ایک طوفان امڈا ہو ا تھا جو ہراساں کیے دیتا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply