پنکھ پکھیرو۔۔شاہین کمال

سفر کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور اطراف میں بہت جوش اور گہماگہمی۔ ماں نے مجھے انجانے دیس کی کئی کہانیاں سنائی ہیں ،اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں جادوئی قالین پر بیٹھ کر پلک جھپکتے میں ساری جگہیں دیکھ آؤں۔
ماں تم آج فکرمند کیوں لگ رہی ہو ، کیا سفر کی طوالت سے گھبرا رہی ہو؟
نہیں جانِ  مادر ایسی کوئی بات نہیں۔ ماں نے اسے اپنی مہربان آغوش میں لیتے ہوئے پیار کیا۔ چلو پھر مجھے انجانے دیس کی کہانی سناؤں۔
میں نے مچلتے ہوئے ہمیشہ والی ضد دہرائی۔
ہاں کیوں نہیں میرے لعل، ضرور سناؤ گی، ماں نے میرا سر سہلاتے ہوئے مدھم آواز میں کہانی شروع کی۔
ہمارا تمھارا خدا بادشاہ۔
یہ کہانی ہے بہت پرانی اور اس کو سناتی تھی میری نانی ۔ اس دنیا میں ایک خطئہ زمین ایسا بھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ساری رعنائیاں و خوبصورتیاں یکجا کر دی ہیں۔ بلند و بالا پہاڑ، مرغزار و کہسار۔ دلفریب وادیاں اور ان کے بیچ اٹھکھیلیاں کرتی ندیاں، جھاگ اڑاتے بپھرے گرجتے سمندر اور میلوں میل پھیلا دمکتا ریگستان۔ کیا نہیں دیا تھا رب کریم نے اس سرزمین کو۔ اس زمانے میں وہاں کے باسی بہت دیالو ہوا کرتے تھے اور مہمانوں کی تکریم ان کی روایت تھی۔ وہ پردیسیوں کی سیوا کو اپنا جزو ایمان جانتے تھے۔ تب ضرورتیں محدود تھیں اور خواہشوں کے سانپ نے پھن نہیں اٹھایا
تھا، پھر جانے وقت بدلا یا شاید انسان بہت سیانا ہو گیا اور خواہشات کے کوہ گراں تلے دب کر انسانیت مفلوج ہوئی، بدلتے وقت نے بہت کچھ بدل دیا۔ یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں، یہی کوئی پانچ عشروں پہلے بابا بھٹائی کے دیس کے فرزند نے اپنی صدیوں پرانی ریت روایت دریا برد کی اور اپنی سنہری سندھڑی زمین پر آنے والے مہمانوں کا سودا کر دیا۔ یہ سودا بھی ظالم نے دوستی کے نام پر کیا۔

تیل کے نو دریافت کنوؤں کے شہزادوں کو اپنی مہربان ماٹی اور دریاؤں پہ اترتے پنکھ پکھیرو کے خون سے ہولی کھیلنے کی کھلی اجازت دے دی۔ تلور کے شکار کو عربوں سے سفارتی تعلقات کی چابی بنایا اور بدلے میں وصول کئے کچھ ڈالرز، ریال، ہسپتال اور شہر میں بسائی گئی کالونیاں۔ بیٹا معیشت بڑا قہر ڈھاتی ہے کہ یہ اکثر اصولوں پر بھاری رہتی ہے اور جزبات تو اس کے آگے بالکل ہی بے مول ہیں۔ اس خطے عطائے خداوندی میں حکومتیں آتی جاتی رہیں اور فرعون اپنے اپنے انجام کو پہنچتے رہے مگر شاید اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہریں لگا دیں تھیں کہ وہاں پھر کبھی کوئی دل، والا بلند حوصلہ آیا ہی نہیں۔ بس کمی کمین ہی رچ کے راج کرتے رہے، داد عیشِ دیتے رہے اور عام انسان بلکتا رہا بلبلاتا رہا۔

ہم یہاں برف زاروں سے پناہ لینے کے لیے ان گرم  پاپانیوں کی سرزمین پر آتے، وہاں جہاں کبھی ہماری حفاظت کے لیے رکھوالے رکھے جاتے تھے اور ہمارے لیے زمین پر دانے بکھرائے جاتے تھے۔ اس سر زمین پر اب ہمارے لیے قدم قدم پر دام تھے اور ہمارے بےجان لاشوں کے دام۔

اس دھرتی پر ان شہزادوں نے ایسا ظلم ڈھایا کہ آسمان بھی کانپ اٹھا، ٹھٹھہ آج بھی اس سانحے کو یاد کر کے ٹھٹھر جاتا ہے، بھلا آمی اور پھاپی کو کون بے درد بھول سکتا ہے۔ دونوں نوخیز کلیاں آمنہ اور فاطمہ تیل کے سوداگروں کی بربریت کا شکار ہوئیں اور عوام نے زبردست احتجاج کیا۔ اب عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ احتجاج کی لہر آتی ہے، کچھ دیر کے لیے ہلچل مچتی ہے اور پھر وہی بےحسی کا سکوت طاری ۔ اب جس جہان میں بیٹیاں محفوظ نہیں، وہاں ہم تلور کی کیا اوقات۔
عوام میں کچھ لال چانڈیو جیسے سر پھرے اور درد دل والے بھی ہوتے ہیں ، جو ہم پردیسی پرندوں کے لیے حکومت سے بھڑ گئے اور اعلیٰ عدالت میں ہمارے تحفظ کے لیےکیس دائر کر دیا۔ سماعتیں ہوئیں، قانون بنا اور اس قانون کا مذاق بھی۔ ہمارے محدود شکار کے اجازت نامے جاری کیے گئے اور ان اجازت ناموں کی دھجیاں بھی صحرا اور لبِ  دریا بکھرا دی  گئیں ۔ ہمارے خون کے عوض تیل کے شہزادوں سے مراعات اور وظیفے حاصل کیے گئے اور مزے کی بات جن کو ہماری حفاظت کی زمہ داری سونپی گئی تھی وہی ہمارے قاتل ٹھہرے یعنی وائلڈ لائف اور محکمہ جنگلات کے افسران بالا۔

بھلا بتاؤ کہ ہم
کسے وکیل کریں ،کس سے  منصفی چاہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب دیکھو نا ہم تلور اکتوبر کے ابتدائی ایام سے ان برف زاروں اور دور دراز کے وسطی ایشیائی ملکوں کے سرد موسموں سے پناہ لینے کے لیے لمبی مسافتوں کی اڑان بھر کر سندھ اور ملک  کے  دیگر حصوں کے میدانی، صحرائی علاقوں اور پانیوں میں نقل مکانی کرتے ہیں، مگر اب اس ملک میں ہمارے لیے پناہ نہیں کیونکہ نومبر سے جنوری ایسے مہینے ہیں جس میں ہم پردیسی پرندوں کے شکار کے لیے شکاری شیوخ اور شہزادے پورے کر وفر اور دھمک کے ساتھ اس دھرتی پر اترتے ہیں۔
میرے بچے ابھی کچھ دن پہلے ہی وہاں سے یہ خبر دل خراش آئی ہے کہ دھابے جی پر ایک سر سر پھرے نے شاہ عبداللہ لطیف کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خلیجی مہمانوں کو ہمارے شکار سے روکا۔ کچھ نہ پوچھو کہ اس بےکس کے ساتھ کیا کیا ہوا۔ ہمارے تحفظ کے لیے اس کی اٹھائی گئی آواز اس کا نا قابل معافی جرم ٹھہری۔ اس عام انسان کی فریاد و آہ و زاریاں بے اثر رہیں اور لوہے کے راڈ سے مار مار اس کی ایک ایک ہڈی توڑ دی گئی ۔ اس کی بیٹی رات بھر چوکھٹ سے لگی اپنے بابا کا رستہ تکتی رہی اور صبح تڑکے ہی تڑکے اسے اپنے بابا کا بے جان ،نیل و نیل اور لہو لہان لاشہ ملا، اس اعلان کے ساتھ کہ ہم سر اٹھانے والوں کو ایسے ہی کچلا کرتے ہیں۔
ہم پردیسی پنکھ پکھیرو کی خاطر ناظم جوکھیو اپنی جان سے گیا۔ اس کا درد ہم اپنے دل میں پالتے ہیں اور ہم اپنی نسلوں کو اس کی جواں مردی و جواں مرگی کا قصہ سناتے رہے گے مگر میرے لعل سنو !!
غور سے سنو !!
اب ہم اس ظالم دیس نہیں جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply