وجودِ کُل /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ کائنات کی غیر مذہبی توجیہ کی کوشش یونانی مفکر Thales of Miletus نے سات صدی قبل مسیح میں کی، وہ یقین کی بجائے عقل سے سمجھنا چاہتے تھے کہ کائنات یا وجود کی علتِ اصلی کیا ہے، اس وقت کی مروجہ تمام توجیہات ان کیلئے اطمینان کا باعث نہ تھیں، سوال کا عقلی حجم اس قدر بھاری تھا کہ یونانی منطق اس کے سامنے ڈھیر ہو گئی ، غور وفکر کے بعد Thales نے خود ہی جواب دیا کہ ان کے نزدیک وجود کی علتِ اصلی پانی ہے، یہ جواب اس وقت کی محدود عقلیت کا اشارہ دیتا ہے، ان کے ایک قابل شاگرد Anaximander نے اعتراض اٹھایا کہ وجود کی علت وجود کیسے ہو سکتا ہے، پانی خود وجود ہے، یہ علت نہیں ہو سکتا، اس اعتبار سے پھر ہوا، مٹی یا آگ کو بھی علت قرار دیا جا سکتا ہے، جو کہ غلط ہوگا، علت اس وجود سے باہر کی چیز ہے، انیکسیمینڈر نے اس سکول آف تھاٹ کو خوبصورتی سے آگے بڑھایا کہ علت کو لامحدودیت میں ڈھونڈھنا چاہئے، جو حجم ، شکل اور کیفیت سے پاک ہو، لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ان کے بعد انہی کے شاگرد Anakcimenes واپس Thales کے نظریے پر چل پڑے، اس دفعہ انہوں نے وجود کی علت پانی کی بجائے ہوا کو قرار دیا، اس دعوے کے ساتھ کہ ہوا کو مسلسل چارج کرنے سے وہ آگ میں بدل سکتی ہے، آگ کو چارج کریں تو وہ پانی اور پانی کی چارجنگ اسے مٹی بنا سکتی ہے، اس لئے ہوا ہی اصل علت ہے، یہ تخیل بلاشبہ بڑا دلچسپ تھا لیکن وجود کی علت کی تلاش انہیں واپس وجود میں لے آئی، شاید وہ وجود کی علت اور وجود کی فطرت میں فرق نہ کر پائے، اسے منطقی زوال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن اس کے باوجود اس سکول آف تھاٹ کی کوششیں لائق تحسین تھیں کہ سوال کا جواب وہ کُل میں ڈھونڈھ رہے تھے نہ کہ جزو میں، اگرچہ علت کی بجائے اب توجہ وجود کی فطرت پر تھی۔
ہیراکلیٹس کے نزدیک وجود ہمیشہ تغیر پذیر اور متحرک ( dynamic)ہے، ہر شے ہر وقت تبدیلی کی طرف رواں ہے، دن رات، زندگی موت وغیرہ، انہی کا مشہور قول ہے کہ ایک ہی دریا میں دو دفعہ داخل نہیں ہوا جا سکتا کہ دوسری دفعہ یہ دریا پہلے سے مختلف ہوگا، ان کے نزدیک وجود اپنے متضاد کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی وجہ سے متغیر ہے، اس جوہر حیات کو انہوں نے آفاقی اصول Logos ( ، فکر ، قانون ، ترتیب ) کا نام دیا۔ یہاں لوگس کا مطلب لفظ یا کسی شے کا نام نہیں تھا بلکہ وجود اور وجود کی علت و فطرت کو ہی لوگس کہا گیا، ہر شے ایک ہی کُل کا جزو ہے، ایک بڑے زندہ کُل کا، فطرت زندہ یا مردہ، سخت یا نرم کی بنیاد پر تفریق نہیں ہوتی، ہر شے اپنے اندر زندگی رکھتی ہے کہ یہ ایک ہی زندہ وجود، ایک ہی زندہ کُل کا حصہ ہے، ان کے برعکس دوسرے مفکر پارمینڈیس وجود کو متحرک یا تغیر پذیر نہیں بلکہ ساکن ( static)قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تغیر یا حرکت آنکھوں کا دھوکا ہے، اس سکول آف تھاٹ میں لوگس کا مطلب وجود کے صرف آفاقی اصول تک محدود ہے، خود وجود اس لوگس کا حصہ نہیں، ان کے نزدیک فلسفے کا بنیادی سوال وجود اور فکر کے درمیان نسبت ہے، ہیراکلیٹس کے نظریۂ تغیر کو انہوں نے انسانی حواس کی ایلوژنز کا نام دیا، اور حرکت کو سراب سے تعبیر کیا، گویا کہ حواس کی گرفت اصلی وجود کی بجائے وجود کے عکس تک محدود ہے، اصلی وجود تک رسائی صرف عقل کے ذریعے ممکن ہے، حواس و ادراک خالص دھوکہ ہیں، پارمینڈیس جس سکول آف تھاٹ کے علمبردار تھے اسے Eleatics کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کی فکر میں دنیا یکتائی، ایک کامل وجود، کی عکاس نہیں، بلکہ دویائی یعنی دو حصوں یا اجزاء ،مادی اور غیر مادی، میں منقسم ہے۔
مستقل متحرک اور مستقل غیر متحرک کے مباحث میں Atomism کا نظریہ جنم لیتا ہے، جس کے مطابق کائنات خلا اور ایٹمز سے مل کر بنی ہے، ایٹمز مزید تقسیم نہیں ہو سکتے, tom کا مطلب تقسیم ہونے والا اور A اس کی نفی کر رہا ہے ،غیر متحرک و غیر متغیر والوں کا کہنا تھا کہ ایٹمز اور خلا دونوں غیر متحرک اور غیر متغیر ہیں لہذا کائنات یا وجود کی اساس اس اعتبار سے static ہیں، جبکہ مخالف گروہ کا ماننا تھا کہ ایٹمز کی ترتیب و تشکیل بدلتی ہے ، یہی تو تغیر ہے، یہی حرکت ہے، اسی لئے وجود متحرک و متغیر ہے، دونوں گروہ اپنے اپنے حق میں مضبوط دلائل رکھتے تھے، اس بحث و تکرار میں وجود کی علتِ اصلی کی فکر کہیں کھو جاتی ہے، فکر اب صرف وجود تک محدود ہے، اس سے گویا کُل پر بحث ہمیشہ کیلئے بند ہو جاتی ہے، اب صرف وجود کی مادیت پر بات آگے چلتی ہے، وہ بھی حواس پر تکیہ کئے بغیر کہ حواس کا تجربہ دھوکہ دے سکتا ہے، وقت کے ساتھ اس فکر میں جذباتی تخیل کا اضافہ ہوا اور تجربے کو جسمانی مشقت سمجھتے ہوئے اسے اعلی اذہان کیلئے ذلت آمیز اپروچ تصور کیا جانے لگا کہ اعلی اذہان اسرارِ کائنات کو فکر و تخیل کی مدد سے جانچنے پر قادر ہوتے ہیں، اس تفریق نے سماج کو دو گروہوں میں تقسیم کیا، مفکر ، محقق اور بڑے ذہن معنویت جبکہ سماج کا عام فرد مادیت کی طرف راغب ہوا، فکر کی اس تقسیم نے اجتماعی کاکردگی و ترقی کو شدید متآثر کیا، یا للعجب کہ اس دور کو علم و تہذیب کا طلوع قرار دیا گیا، حالانکہ طویل المدتی نکتۂ نگاہ سے یہ بند گلی کی طرف پہلا قدم تھا، ائیدیالزم اور مٹیریلازم کی ابتداء یہیں سے ہوئی، ان دو کو الگ کر کے انسان نے خود کو تقسیم کیا اور ایک پہلو یا ایک جزو کو ہی کُل قرار دینے پر مصر رہا، آج مزہبی اور سائنسی فکر کے درمیان اختلاف کی اصل وجہ یہی ہے کہ دنوں صرف اپنے اپنے پسندیدہ پہلو کو کامل منوانا چاہتے ہیں حالانکہ کاملیت ان دونوں کا مرکب ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply