صحت کا پہلا اصول ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان صرف خیر کی کرنیں بکھیرتا ایک روحانی وجود ہی نہیں بلکہ مادی بنیاد پر ہر انسان زندگی سے بھرپور مائع کا ایک قطرہ ہے اور بڑھاپے سے مراد اسی قطرے کا ایسے ہی خشک ہو جانا ہے جیسے انگور خشک ہونے پر اندرونی و بیرونی جھریوں کی زد میں آجاتا ہے بشرطیکہ فرد نے اس قطرے کو چربی سے نہ بھر ڈالا ہو، دوسرے الفاظ میں آرگنزم جوں جوں مائع سے خالی ہوتا جاتا ہے اس پہ بڑھاپا طاری ہوتا جاتا ہے، اہم ترین سوال یہ ہے کہ ایک خاص عمر میں یہ مائع زندگی انسانی جسم کے خلیوں کو کیوں خیر باد کہہ دیتا ہے ، اس کی وجہ جسم میں موجود وہ free radicals ہیں جو خلیوں کی انرجی کے ساتھ ساتھ ان کا آب حیات بھی نچوڑ لیتے ہیں،
طب کی دو دلچسپ اصطلاحات free radicals اور antioxidants ہیں، یہ اصطلاحات ہر آدمی نے سن رکھی ہوں گی لیکن ان کا پورا مفہوم کم لوگ ہی جانتے ہیں، free radicals ایک مثبت چارج کے ساتھ آوارہ گرد اور بھوکے مالیکیولز ہیں جن کی زندگی کا مقصد کہیں سے کسی آزاد الیکٹران کو اغواء کرنا ہے، اور مطلوبہ الیکٹران کو وہ جسم کے بے یارو مددگار خلیے سے جھپٹتے ہیں نتیجے میں خلیہ قوت زندگی یعنی انرجی سے محروم ہو جاتا ہے، یہی فری ریڈیکلز آرگنزم کے بڑھاپے کی سب سے بڑی وجہ ہیں، ان کے برعکس antioxidants اپنے اندر منفی چارج رکھنے والے مالیکیولز ہیں جو آزاد الیکٹرانوں کے کیریئرز ہوتے ہیں ، اپنی ماہیت میں یہ ڈونرز ہیں ، ان کا مقصد جسم کو فری ریڈیکلز کے شکنجے سے چھڑانا ہے، صحت اور بیماری یا یوں کہیے کہ جوانی اور بڑھاپے کی رزم مسلسل انہی مثبت اور منفی چارجز کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کا نام ہے، یہی وہ مادی کتے ہیں جو آپ کی جسمانی صحت کی بابت ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنے جسم میں موجود اچھے اور برے کتے میں سے کسے زیادہ خوراک فراہم کرتے ہیں۔ زندہ ہوا، زندہ پانی اور زندہ خوراک ہی درحقیقت antioxidants ہیں اور یہ آپ کے جسم کو صحت مند اور زندہ رکھتے ہیں، اس کے برعکس مردہ ہوا، مردہ پانی اور مردہ خوراک اپنی اصل میں free radicals ہیں اور یہ بیماری و بڑھاپے کے داعی ہیں۔ antioxidants جسم کے خلیوں کو چارج کرتے ہیں، انہیں انرجی دیتے ہیں جبکہ فری ریڈیکلز خلیے کی چارجنگ کو لیموں کی طرح نچوڑتے ہوئے اسے نڈھال، کمزور اور بوڑھا کرتے ہیں ۔
ایک معقول آدمی کا فرمان ہے کہ حق اپنی اصل میں پیچیدہ نہیں بلکہ وہ اس قدر واضح ہے کہ سامنے دھرا نظر نہیں آتا، یہی معاملہ انسانی صحت کو لے کر روزمرہ لینے والی خوراک کے ساتھ ہے، عام آدمی کی عمومی خوراک آگ پہ پکی ہوئی خوراک ہے، یہی مردہ خوراک ہے، پانی اور ہوا کا بابت بھی یہی اصول کارفرما ہے، زندہ خوراک اسے کہتے ہیں جو آگ کو بائی پاس کرتے ہوئے سیدھا آپ کے معدے تک جا پہنچے، یعنی کہ جسے پکایا نہ گیا ہو، پانی اور ہوا کا معاملہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت مردہ ہوا اور مردہ پانی کا استعمال کر رہے ہیں، اس کی واحد وجہ technogenic civilization ہے۔
انسان کے علاوہ فطرت میں کوئی دوسرا جاندار آگ پہ پکی خوراک استعمال نہیں کرتا، یہ دریافت سماجی اور تکنیکی حد تک تو یقینا غیر معمولی دریافت ہے لیکن اس کے طبی پہلو جان لیوا واقع ہوئے ہیں، آگ پہ بنا کھانا صرف وجود کے برقرار رکھنے کو مددگار ہے لیکن زندگی کی رعنائیوں سے عاری ہے، بلند حرارت کے زیر اثر تمام مفید عناصر غیر نامیاتی مردہ inorganic deadr) میں بدل جاتے ہیں، نامیاتی اور غیر نامیاتی (organic and inorganic) میں فرق کوانٹم کی سطح پر ہے، ہضم اور جذب وہی مواد ہوگا جو آرگینک یعنی زندہ ہے، اور یہ مواد سب سے زیادہ سبزیوں اور پھلوں میں پایا جاتا ہے ، دلچسپ سوال یہ ہے کہ وہ مواد جو جذب یا ہضم نہیں ہو پاتا، کدھر جاتا ہے ؟ یقینا آرگنزم اسے ہر ممکن راستے سے خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دباؤ اور بار اتنا زیادہ ہے کہ جسم اس سے پوری طرح نمٹنے میں ناکام رہتا ہے، یقینا فطرت کیلیے ایسی پیشگوئی کرنا ممکن نہ تھا کہ حضرت انسان زندہ خوراک کو آگ کی مدد سے مردہ خوراک میں بدل دے گا، وگرنہ اس گند کو صاف کرنے کیلئے جسم میں بلند پائے کا نظام اخراج نصب کیا جاتا، اب اوسط نظام اخراج کے ساتھ جسم کی اندرونی صفائی جزوی طور پر ہی ہو پاتی ہے، اسی لیے اس گندگی کے کئی کئی کلو گرامز انسان اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے، نتیجے میں جسم کسی پرانے بیت الخلاء کا منظر پیش کرتا ہے جسے کئی سالوں سے صاف نہ کیا گیا ہو ، انسانی جسم کے پاس چونکہ زخائر کی کمی نہیں، اس لیے بعض ایسے افراد ستر اسی سال تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن واقع یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال کی عمر کے بعد خبائثات اپنا سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں اور زندگی کے باقی برس بس رینگتے اور کراہتے ہوئے گزارے جاتے ہیں ،کیونکہ خلیوں کے نڈھال اور بوڑھا ہونے کے علاوہ بائیو فیلڈز کی غیر معمولی حساسیت اس گند کی وجہ سے شدید متآثر ہوتی ہے، انرجی کے چینلز زنگ آلود ہو جاتے ہیں، چاکرے بند ہو جاتے ہیں، خلیوں کی مابین موجود خلا میں مردہ مواد کے جمع ہونے کی وجہ سے برقی سگنلز کمزور پڑتے ہیں ،جس سے خلیوں کی باہمی ہم آہنگی متآثر ہوتی ہے، نتیجے میں مختلف بافتوں اور اعضاء کے افعال صحیح طرح ادا نہیں ہو پاتے ، مختصر یہ کہ جسم میں موجود مادے اور توانائی کے دائرے کا یہ سفر ایک دوسرے کی فعالیت کیلیے لازم و ملزوم ہے، اور اس ناگزیر تعلق کے قائم رکھنے میں اہم ترین کردار زندہ خوراک کا ہے کیونکہ زندہ جسم کیلیے زندہ خوراک ہی مناسب ترین ہے۔
اس اصول کو لے کر بیسویں صدی میں امریکی فیزیشن ڈاکٹر فرینک پوٹنجر نے دلچسپ تجربات کئے ہیں، ان میں سے ایک تجربے میں انہوں نے دس سال تک بلیوں کے ایک گروہ کو آگ پہ پکی خوراک کھلائی جبکہ دوسرے گروہ کو کچی خوراک کھلاتے رہے یعنی زندہ خوراک، ان کے مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی کے پہلا گروہ جو آگ پہ پکی خوراک کھاتا رہا ، ان میں ہر انسانی بیماری پائی گئی، جیسے ذیابیطس، ڈپریشن، فالج وغیرہ، انہی کی دوسری نسل میں بانجھ پن تک دیکھنے میں آیا ،جبکہ دوسرا گروہ جو زندہ خوراک پہ پلتا رہا ، انہوں نے بحیثیت مجموعی صحت مند زندگی گزاری۔
امریکہ کے ڈاکٹر ایڈورڈ ہوویل نے تحقیقات سے یہ بات ثابت کی ہے کہ زندہ اور مردہ خوراک(آگ پہ پکی ہوئی) میں بنیادی فرق انزائیمز یعنی فرمینٹس کا ہے، انہوں نے انزائیمز کو زندگی کیلئے ضروری توانائی کی پیمائش کی اکائی قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اکیالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرات پہ ان انزائیمز کی اکثریت تباہ ہو جاتی ہے، اور یہ انزائیمز زندگی کے ہر کیمیائی عمل کیلیے ناگزیر ہیں۔ ان کے مطابق تمام بیماریوں اور وقت سے قبل بڑھاپے کی واحد وجہ ایسی خوراک کا استعمال ہے جو انزائیمز سے “پاک”ہو اور یہ آگ پہ پکی خوراک ہے۔
مختصر یہ کہ صحت مند زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی خوراک کا اسی فیصد حصہ ایسا ہو جو آگ کے قریب سے بھی نہ گزرا ہو، جیسے کچی سبزیاں، پھل اور تازہ میوے وغیرہ، ایسی صورت میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ زندہ خوراک استعمال کرتے ہیں اور یہی زندہ خوراک اچھی صحت اور بھرپور زندگی کی ضامن ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply