بیٹی۔۔محمد وقاص رشید

عالمِ ارواح میں کیا ہی عجیب عالم ہوتا ہو گا…. کسی بچی کی روح روتی تڑپتی آتی ہو گی…… تو تمام روحوں پر سکتہ سا طاری ہو جاتا ہو گا یہ جان کر کہ… اس بچی کو اسکے باپ نے جنم لیتے ساتھ ہی اس لیے زندہ درگور کر دیا کہ یہ بیٹی تھی اور اسے بیٹا چاہیے تھا… جہالت تو دل کو کسی قبر کا کتبہ ہی بنا دیتی ہے…
کائنات کی سب سے مقدس روح کے سامنے یہ منظر پیش ہوتا ہو گا تو کیا عالم ہوتا ہو گا….. نہیں جانتا مگر…. سوالات چشمِ تصور سے ادراک کے پردے کے پار جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں…..مگر اپنی محدودات پر نادم……
پھر ان زندہ درگور کی گئی بچیوں کی روحوں نے انہیں زمین پر بطورِ رحمت للعالمین بھیجے جانے کے لیے رخصت کیا ہو گا تو زمین پر تمام بیٹیوں کے لیے کیا تب بھی گایا ہو گا کہ ” طلع البدر علینا ” …..شاید…. کہ اے بیٹیو تمہیں زمین پر وہ چاند مبارک جو تمہاری زندگی کی رات میں روشنی لے کر طلوع ہونے کو ہے…. شاید… ہاں میرے علم کی حدود اس شاید کے گمان تک ہیں…
آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم زمین پر تشریف لائے… تو ان عالمین میں اس جہان کی ہر بیٹی بھی شامل ہے جسکے لیے آپ رحمت بن کر آئے….. اور حسنِ اتفاق تو ہو نہیں سکتا….کہ خدا کی قدرت میں اتفاق کی وقوع پذیری نا پید ہے…..خدا نے انہیں رحمت للعالمین قرار دیا انہوں نے بیٹی کو…..زمین تو کجا آسمان پر عالمِ ارواح میں تڑپتی بیٹیوں کی روحوں کو قرار آ گیا ہو گا…….
پھر رحمت للعالمین کے گھر خدا نے رحمتیں بھیجیں…آپ بیٹیوں کے والدِ محترم ہوئے….ان رحمتوں کی تعظیم ،محبت اور شفقت کے واقعات سیرت النبی ص کی شان ہیں….لیکن ایک واقعہ پڑھا…..پھر اور کیا پڑھتا… محبوبِ خدا کا پیکر کائنات کا سب سے افضل و مقدس جسم ہے…زمین پر جس طرح آسمان کی چادر ہے… آپ کے سر مبارک اور بدن کو ایسے ڈھانپنے والی چادر کا بیٹی کی تعظیم میں زمین پر بچھنا….بیٹی کے لیے اعزاز ہے تو روئے زمین کا افتخار… یہ رحمت للعالمین کی طرف سے رحمت بنا کر بھیجی گئی بیٹی کی عزت ہے…..اس آسمانی چادر کے زمین پر بچھنے کے تجلیاتی اثرات کہاں تک پہنچے…… پڑھتے رہیے …..
وقت تقریباً پندرہ سو سال پھلانگا….. تو طالب علم نے آنکھ کھولی….. کیا دیکھا….چند درویش خود کو غربت کے ہاتھوں مسمار ہونے سے بچانے میں مصروف…..اپنی تعمیر میں جتے ہوئے…..وفا کی راہوں پر جفا کے مسافر…..
میں نے آنکھ کھولی تو دیکھا… ایک دیوی ہے دیوی.. سنجیدگی کے ایک کہسار پر مسکراہٹ کی شادابی لانے والی….. سخت گیری کے صحرا میں نرمیِ محبت کے چشمے جاری کرتی…. ایک کونپل جو خزاں رسیدہ شجر پر پھوٹ کر سارے گلشن میں پیغامِ بہار لائی ہے….. سوچتا تھا یہ دیوی میں ہوتا…..اسے انقلاب کہتے ہیں… ان کے آنے سے پہلے بیٹیاں سوچتی کہ کاش ہم بیٹے ہوتے…. یہ اس آسمانی چادر کی تجلی ہے…. کہ میں ایک بیٹا اپنی بڑی اور اکلوتی بہن کی طرف اپنے والد مرحوم کے دل میں بسنے پر رشک کی نگاہ سے دیکھتا.. محبتِ رسول ص تو یہ تھی جو ان درویشوں میں ان آنکھوں نے دیکھی اب کیا ہوئی… اوہو
درویشوں (میرے چچا صاحبان … جو گزر گئے بخشے جائیں جو حیات ہیں سلامتی ہو) کے ان ہاتھوں کو سلام جن پر اپنی تعمیر کے دوران پڑنے والوں آبلوں میں ایک چھالہ تھی میری بڑی بہن…… انکے بڑے بھائی کی بیٹی…… نہ نہ ….انکی اپنی بیٹی….. کوئی ریموٹ کنٹرول تھی وہ انکا…..ان دلوں کی عظمت کو سلام جن پر اس آسمانی چادر کی تجلی رحمت بن کر برسی…
غیرت اور جفا کے گھروندے غربت سے مسمار نہیں کیے جاتے……میرے فاتح درویش جیت گئے…. ہم انکی فتح کا ہی خراج وصول کر رہے ہیں…. جب وہ اپنے اپنے دلوں کے کچے پکے جیسے تیسے گھروندے بنا چکے…..تو ہر ایک کے گھر میں میں نے رحمت اترتے دیکھی…. فخر سے وہ پیارے نام لکھنا چاہوں گا…..چچا جان محمود صاحب مرحوم ، چچا جان سعید صاحب مرحوم ، چچا جان ضیاالرحمن صاحب مرحوم (ہائے خود کو زندگی کی پہچان کرانے والوں کو مرحوم لکھتے حلق میں کچھ اٹکتا ہے… قلم کانپتا ہے…. الہی بخشش خدایا رحمت) چچا جان صلاح الدین صاحب اور چچا جان فضل حق خدا دونوں کو قائم دائم رکھے…… تمام کے گھر رحمتیں اتریں… تمام نے اپنی اپنی ہستی کی چادر انکے لیے بچھا دی………
اور پھر 11 برس بیتے طالب علم کی زندگی میں 19نومبر آیا…خدا نے ایک رحمت کی چادر سی مجھ پر ڈال دی……..یوں لگا جیسے اس آسمانی چادر کے زمین پر بچھنے سے عقیدت میں اسکے ریشوں میں سما جانے والا کوئی خاک کا ذرہ ہے یہ دل……. جنابِ فاطمہ رض کے لیے بچھنے والی چادر ساری کائنات کے باپوں کے لیے بیٹیوں کی تعظیم کا ایک پیام ہے….. میں ہر ایک باپ کے دل میں بیٹی کی محبت کو اسی پیام کے خراج سے تعبیر کرتا ہوں … قربان جائیے اس تجلیِ رحمت کے ہم نا چیزوں تک نسل در نسل ایک فیض کی صورت پہنچنے پر….بڑے لالے کی شادی کو دو تین برس بیت چکے تھے… خدا سے اولاد کے امیدوار اس اگلی نسل کے درویش نے اس خلوصِ نیت سے میرے ہاں بیٹی کی تمنا کی کہ دعا کی قبولیت پر نام بھی انہی نے رکھا……فاطمہ…..
میرے جڑواں وقار کو خدا نے ریحاب بٹیا کی صورت رحمت کی وہ تابانی عطا کی کہ زندگی کے افق پر گویا پو پھوٹ گئی…. ہستی کے کون و مکاں نیرو تاباں ہو گئے….صبحِ صادق بن کر آئی وہ ہم سب کے لیے..اور اپنے فلاسفر باپ کو تو گویا کوئی اپنی گڑیا ہی بنا لیا…. اسکے فلسفے کے تو وہ کس بل نکالے کہ عش عش کر اٹھتا ہوں..
آج ہم لوگوں کی طرح درویشوں کے بچوں ہمارے عصروں ہمارے کزنز بھائیوں کے گھروں میں بھی مصنوعی روشنیوں
رحمت آج گیارہ برس کی ہو گئی…..درودو سلام اس آسمانی چادر بچھانے والے مرشدِ واحد پر…….کہ باپ بیٹی کی محبت جنکی نسبت سے فیض کی صورت چھنتی ہے….. سلام اپنے بابا جی اور باقی درویش بزرگوں کو کہ مجھ ناچیز کے خون میں بیٹی سے محبت رچی بسی ہوئی… میرے خمیر میں شامل ہے…..
اے میری بیٹی رانی …. فاطمہ ان گیارہ برسوں میں زندگی کے کون و مکاں کو اپنی موجودگی سے سجانے کا شکریہ بیٹی……زندگی میں صرف ایک خواب اور نصب العین ہے اور وہ یہ کہ تو کسی بھی طرح کے احساسِ کمتری کے ساتھ پروان نہ چڑھے….. میری زندگی تیرے استقبال کے نام……..ایک نظم تیرے نام میری گڑیا
میری بیٹی میری پیاری
تو اس دنیا میں جب آئی
مجھے ایسے لگا جیسے.
کرن اک نور کی رب کے
کوئی خوشبو سی جنت کی
بہار اک رب کی رحمت کی
مہرے گھر میں اتر آئی
افق پہ اک سحر آئی
کہ جیسے پیاسی شدت میں
کہیں موسم کی حدت میں
کوئی بارش اترتی ہے
زمیں جیسے نکھرتی ہے
کہ جیسے دید منزل کی
پہنچ جیسے و ساحل کی
کہ جیسے خواب کی تعبیر
تصور کی ہو اک تصویر
کہ جیسے زیست کا مقصد
دعا جیسے نہ ہو اک رد
مجھے ایسے لگا جیسے
بتاؤں تجھ کو میں کیسے
کہ میرے خون میں بیٹی
تیری چاہت ازل سے تھی
کہ میں نے ہوش کی اپنی
یہ جونہی آنکھ تھی کھولی
تو تیرے دادا کے دل کو
وہ اپنے بابا کے دل کو
تیری پھپھو کی الفت میں
کہ اک بیٹی کی چاہت میں
یونہی سیراب دیکھا تھا
یونہی بے تاب دیکھا تھا
بڑے اچھے مسلماں تھے
بڑے ہی نیک انساں تھے
تیرے چچا میرے چچا
تیرے تایا تیرے بابا
ہو اک اپنی یا دوجے کی
سبھی نے بیٹیاں رانی
یونہی دل میں بسائی ہیں
گھروں میں جگمگائی ہیں
مجھے یہ ہے یقیں بیٹی
میں خود کچھ بھی نہیں بیٹی
مگر نسبت یہ الفت کی
ہے اس چادر سے جا ملتی
قبا جو سر مبارک کی
تھی بیٹی کے لیے بچھتی
جنہوں نے بیٹی کی الفت
محبت اور یہ شفقت
دلِ انسان کو دی ہے
عنایت آپ نے کی ہے
خدا سے ہے دعا میری
یہی ہے التجا میری
تو اس نسبت محبت کا
یہ سر پر تاج رکھے گی
تو اپنے نام کی بیٹی
ہمیشہ لاج رکھے گی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply