بلوچستان میں مردم شماری

پاکستان کی وفاقی حکومت نے مردم شماری کا اعلان کیا کردیا بلوچستان کی سیاست کے ٹہرے پانی میں کنکر پھینک دیا. افغان مہاجرین اور بلوچ آئی ڈی پیز کو بنیاد بنا کر بلوچ قوم پرستوں کے ایک دھڑے نے مردم شماری کو قبل از وقت قرار دے کر مسترد کردیا. پشتون قوم پرست بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئے , وہ مردم شماری کو اپنی عددی برتری ثابت کروانے کا سنہری موقع سمجھ رہے ہیں. گھمسان کا رن جاری ہے.
بلوچ قوم پرست قیادت (آزادی پسند زیرِ بحث نہیں ہیں) کا خیال ہے اگر مردم شماری میں افغان مہاجرین کو بھی گنا گیا تو پشتون آبادی مصنوعی طور بڑھ جائے گی جبکہ آپریشن وغیرہ کے باعث مہاجر بننے والے بلوچ شمار میں نہیں آئیں گے جس سے بلوچ مفادات کو ٹھیس پہنچے گی.
قوم پرست قیادت کی جانب سے یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے مردم شماری فارم کے مطابق جو بلوچی نہیں بولتا وہ بلوچ میں شمار نہیں کیا جائے گا. ان کے مطابق مردم شماری کا ایک نقصان بلوچ قومی وحدت کا پارہ پارہ ہونا بھی ہے. بعض افراد کا اندازہ ہے پاکستان کے انتظامی صوبہ بلوچستان میں بلوچی بولنے والے افراد 25 سے 30 فیصد ہیں جبکہ پشتو زبان 40 سے 45 فیصد کے قریب ہے. اندازوں اور تخمینوں کے اس خوفناک انبار نے بلوچ قوم پرست قیادت سمیت عوام کے بھی غالب حصے کو پریشان کردیا ہے.
قوم پرست بلوچوں کی جانب سے تجویز آئی تمام بلوچ , مادری زبان کے خانے میں بلوچی لکھیں تانکہ پشتو کا مقابلہ کیا جاسکے. اول اس مشورے پر کوئی کان دھرے گا نہیں اگر مان لیا جائے تمام بلوچ “عظیم تر قومی مفاد” میں اپنی مادری زبان کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجائیں تب بھی یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے.
میرے نزدیک افغان مہاجرین کا خوف ایک جعلی اور خودساختہ خوف ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں. افغان مہاجرین گزشتہ تین دہائیوں سے شمالی بلوچستان اور کوئٹہ میں رہائش پزیر ہیں , ان کی جڑیں اب اسی سرزمین میں پیوست ہیں اور پختون معاشرے کو بھی عوامی سطح پر ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ایسے میں بلوچ قیادت کی جانب سے ان کو نکال باہر کرنے کا مطالبہ نرم ترین الفاظ میں بھی ظلم اور دیگر اقوام کے معاملے میں مداخلت ہے.
ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ مردم شماری فارم میں مادری زبان کے خانے کے ساتھ ساتھ قوم کا خانہ بھی ہونا چاہیے تانکہ مختلف زبانیں بولنے والے بلوچ ایک ہی قوم میں شمار ہوسکیں. تجویز اچھی ہے لیکن قابلِ عمل نہیں , حکومت کو کیا پڑی ہے وہ بلوچستان میں پشتون بلوچ جھگڑا نمٹانے کی کوشش کرے , اس کی بھلا سے لڑتے رہیں اور مرتے رہیں , سانوں کی…..
تو کیا کیا جائے؟. اول یہ جاننے کی کوشش کی جائے اگر انتظامی صوبہ بلوچستان میں مردم شماری کے بعد ثابت ہوجائے کہ صوبے میں پشتو بولنے والے افراد کی اکثریت ہے اس کے نقصانات کیا ہوں گے. پشتون اپنی تاریخی و ثقافتی سرزمین پر رہ رہے ہیں وہاں ان کی آبادی کے بڑھنے یا گھٹنے سے بلوچ مفادات کو کیا ٹھیس پہنچ سکتی ہے , ماسوائے اس کے کہ انتظامی صوبہ بلوچستان کی اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں ان کی نشستوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوگی. اگر بالفرض ان کی تعداد بڑھنے سے یہ اندیشہ ہے کہ صوبے کی باگ ڈور میں ان کا عمل دخل بڑھ جائے گا تو اس سوال کا کیا جواب موجودہ صورتحال میں صوبہ کب بلوچ کنٹرول میں رہا ہے؟. بلوچستان کے فیصلے ہمیشہ پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹر میں ہوتے رہے ہیں اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی زمہ داری کورکمانڈر کوئٹہ و آئی جی ایف سی کی رہی ہے. بلوچستان اسمبلی کی حیثیت محض نمائشی اور اس کے اراکین کا اہم ہدف قبائلی نشستوں کا تحفظ ہے.
نواب اکبر خان بگٹی کے اندوہناک قتل کے بعد جو نام نہاد بلوچ اکثریتی اسمبلی ان کے لئے فاتحہ خوانی کرنے کی جرات نہ کرسکی اس میں عددی اکثریت برقرار رکھنے کی کوشش کارِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں. ربڑ اسٹیمپ بلوچستان اسمبلی کے روبوٹ اراکین کے گھٹنے بڑھنے سے عام بلوچ کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہونے والا , فاطمہ بلوچ غیرملکی فورسز کے ہاتھوں مرتی رہے گی اور گوادر پیاسا ہی رہے گا , نقصان ہوگا تو ہڈی چوس اور ڈریکولا صفت سرداروں , ازکارِ رفتہ نظریات پر یقین رکھنے والے ملاؤں اور ارب پتی مڈل کلاسیوں و ان کے اسمگلر سرپرستوں کو , ٹھیک اسی طرح فوائد سمیٹنے والے عناصر بھی یہی ہوں گے. حبیب جالب سے معذرت :
خطرہ ہے سرداروں کو
لمبی لمبی کاروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں بلوچ نہیں
بلوچ قوم کی شناخت و گلزمین کو سب سے بڑا خطرہ چینی سامراج کے سامراجی منصوبوں اور ان منصوبوں کو بزور پایہ تکمیل تک پہنچانے والے مقامی کمیشن ایجنٹوں کے غیر انسانی عزائم سے ہے. اسلام آباد میں منعقد ہونے والے نام نہاد قومی جرگے کے بیشتر اراکین انہی کمیشن ایجنٹوں کے گماشتے ہیں , ان کی سرگرمیوں کا بلوچ مفاد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں.
پشتو زبان بولنے والے افراد کی اکثریت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے بلوچ اپنی سرزمین پر اقلیت میں بدل جائیں گے. پشتون اپنی سرزمین پر رہتے ہیں تو بلوچ اپنی سرزمین پر کیوں اور کیسے اقلیت میں بدل سکتے ہیں؟. جب عمومی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے کہ بلوچی , براھوی , دھواری , جٹکی , جدگالی اور سرائیکی بلوچ قوم کی زبانیں ہیں تو مادری زبان کے خانوں میں ان زبانوں کے اندراج سے ڈیموگرافی میں کیا جوہری تبدیلیاں وقوع پزیر ہونگیں؟ اگر مادری زبان کے خانے میں سردار اخترمینگل , براھوی ؛ میر ظفر اللہ جمالی , سرائیکی ؛ جام کمال خان , لاسی لکھ دیں تو کیا اس سے وہ بلوچ قومی وحدت سے خارج ہوجائیں گے؟. اگر نہیں تو زمین کو تانبا بنانے کی کوشش کس لئے کی جارہی ہے؟.
بلوچ قومی وحدت کوئی نظریہ پاکستان یا دو قومی نظریہ نہیں جسے زبانوں سے نقصان پہنچایا جاسکے. زبانوں کے ذریعے بلوچ قوم کی تقسیم کا خوف کوئی مادی بنیاد نہیں رکھتا. یہ جعلی خوف ووٹ اور نوٹ کی سیاست کرنے والے ان عناصر کی اختراع ہے جو سیاسی مسائل کو آج بھی اشرافیہ کے جرگوں کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں.
میری ناقص رائے میں مردم شماری سے خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں (بلوچ آزادی پسند قیادت کا مردم شماری مخالف موقف زیر بحث نہیں) بلکہ اس کی جگہ پشتون عوام پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ وفاق سے ایک علیحدہ صوبے یا خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کا مطالبہ کریں. پشتونوں کو بھی سمجھ لینا چاہیے “تختِ خضدار کی حاکمیت” جیسے فضول نعروں سے پشتون عوام کی زندگی بہتر بنانے کا کوئی امکان نہیں. تختِ خضدار وجود نہیں رکھتا یہ محض وقتی اور زاتی مفادات کے حصول کا نعرہ ہے. پشتون قیادت کو بلوچ تاریخ کی اہم ترین علامت سبی پر حقِ ملکیت جتانے جیسے بچگانہ مطالبے بھی طاق میں رکھنے ہوں گے.
علیحدہ پشتون صوبے کے معاملے پر بعض بلوچ سیاسی کارکن و دانشور کوئٹہ کی حوالگی پر حساس ہوجاتے ہیں. ہمیں مان لینا چاہیے کوئٹہ تاریخی لحاظ سے افغان خطہ ہے جسے احمد شاہ ابدالی نے بلوچ حکمران نوری نصیر خان کو اپنی زاتی جاگیر سمجھ کر تحفے میں دیا تھا , جس طرح خان آف قلات نے گوادر کو اپنی زاتی ملکیت مان کر سلطان مسقط کے حوالے کیا تھا. اگر بلوچ گوادر کی حوالگی کو درست قدم تصور نہیں کرتے تو کوئٹہ پر پشتون موقف کا بھی احترام کیا جانا چاہیے.
بلوچوں کو کوئٹہ پر اصرار کرنے کی بجائے ڈیرہ غازی خان و راجن پور کی بلوچستان حوالگی کا مطالبہ کرنا چاہیے. اس مطالبے پر سرائیکی قوم پرستوں کو ٹھیک اسی طرح تکلیف ہوگی جس طرح بعض بلوچوں کو کوئٹہ کی جدائی پر لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو حال میں درست کرکے مستقبل کو جنگ و جدل سے محفوظ رکھیں تو ہمیں فطری و قومی سرحدوں کی از سرِ نو حد بندی کی کوششیں کرنی چاہئیں.

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply