شوکت خانم ہسپتال اور فرشتے!

مجھے اندازہ ہے کہ یہ تحریر بہت سے لوگوں پر گراں گزرے گی، مگر پھر بھی لکھ رہا ہوں کیوں کہ سوال اٹھانا صرف تحریک انصاف اور اس کے گماشتوں کا حق نہیں!

شوکت خانم ہسپتال عمران خان کی ذاتی ملکیت نہیں نہ ہی تحریک انصاف کا کوئی ذیلی ادارہ ہے مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس ادارے کو، جو کہ ایک ٹرسٹ کے تحت چلنے والا رفاہی ادارہ ہے (یا کم از کم تاثر ایسا دیا جاتا ہے)، خان صاحب خود اور ان کی جماعت کا ہر چھوٹا بڑا شخص ذاتی تشہیر اور سیاسی مقاصد کے لئے بے دریغ استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔آئے روز عمران خان کی ایمانداری کی قسمیں کھانے کے لئے سیاسی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں فخریہ شوکت خانم ہسپتال کو گھسیٹا جاتا ہے کہ دیکھو عمران خان کو لوگ کتنا چندہ دیتے ہیں، یہ لوگوں کے اس پر اعتماد کی کھلی نشانی ہے وغیرہ وغیرہ! ایسے میں جب مخالفین کی جانب سے ہسپتال کے معاملات اور اس کے فنڈز میں عمران خان کی مبینہ دستبرد کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کی جماعت کی جانب سے گلے پھاڑ پھاڑ کر دہائیاں دی جاتی ہیں کہ ایک انتہائی مقدس ادارے کو سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے ۔ فلانے کو شرم آنی چاہیے ایسی بات کرتے ہوئے۔ جی بالکل! دوسروں کو تو شرم آنی چاہیے ایسا سوچتے ہوئے بھی، مگر آپ کے خود ساختہ مہاتما کا ایک ایسے ادارے کا، جس کی تعمیر و تنظیم ۹۹ فیصد عوام کے چندے سے ممکن ہوسکی، اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کرنا اخلاقیات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے! شوکت خانم پر جب جب اعتراضات ہوتے ہیں، اس کی وجہ مخالفین کی بد نیتی سے زیادہ خود عمران خان اور ہسپتال کے مالی معاملات کی غیر شفافیت ہوتی ہے۔ شوکت خانم کی آمدن کا بڑا حصہ زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ ادارے کے اپنے آڈٹ شدہ سالانہ حسابات کے مطابق ہسپتال کے کھاتوں میں زکوٰۃ کے پیسے کو کو دیگر ذرائع آمدن سے الگ رکھنے کے لئے جداگانہ کھاتے موجود نہیں ہیں، نہ ہی ان دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا کہ ادارے کی جانب سے زکوٰۃ کی مد میں حاصل شدہ آمدن کو کن مصارف میں استعمال کیا گیا۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ زکوٰۃ کوئی معمولی چیریٹی نہیں، ایک فرض عبادت ہے جس کے مصارف خود قرآن پاک میں طے شدہ ہیں۔ زکوٰۃ کی مد میں حاصل شدہ رقم کو قرآن کے بیان کردہ مصارف کے علاوہ کسی اور مد میں خرچ نہیں کیا جاسکتا، جبکہ زکوٰۃ کے فریضے سے سبکدوشی کے لئے تملیک کا اہتمام لازمی ہے، یعنی مال کو مستحقین کی ملکیت میں دینا۔ رفاہی ادارے جب زکوٰۃ اکٹھا کرتے ہیں تو ان کی حیثیت محض وکیل کی ہوتی ہے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ مال کو مستحق تک پہنچائے ۔ یہ تملیک نقد میں ہونا ضروری نہیں، یہ راشن، دوا وغیرہ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے مگر لازمی ہے کہ جو بھی شے زکوٰۃ کی مد میں دی جارہی وہ مستحقین کے مکمل تصرف میں ہو، تب ہی تملیک کی شرط پوری ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے اکثر اداروں کی جانب سے اس بات کا سرے سے اہتمام ہی نہیں کیا جاتا اور زکوٰۃ کے پیسے کو دیگر آمدن کے ساتھ نہ صرف خلط کر دیا جاتا ہے، بلکہ اس پیسے کو دیگر آمدن کے ساتھ ملا کر غیرمتعلق مصارف جیسے عمارتوں کی تعمیر، عملے کی تنخواہوں وغیرہ پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک پریکٹس ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کی عبادت ضائع ہوتی ہے اور پیسہ خرچ کرنے کے باوجود انسان کے ذمے زکوٰۃ کی ادائیگی واجب رہتی ہے ۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ بدقسمتی سے شوکت خانم ہسپتال بھی یہی سب کر رہا ہے ۔ہسپتال کے معاملات میں مبینہ بدعنوانیوں کے الزامات سے ایک لمحے کو صرف نظر کر بھی لیا جائے تو زکوٰۃ کی ایک انتہائی خطیر رقم کے حسابات میں اس طرح کی بد احتیاطی جو لاکھوں لوگوں کی فرض عبات کی ادائیگی مشکوک بنا دے، میری نظر میں بدعنوانی سے کم نہیں۔ میری اس رائے سے یقیناً اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جو کچھ اب میں بیان کرنے جا رہا ہوں اس بابت کیا کیجئے گا؟ چونکہ میں ایک انسان ہوں اور ایک انسان کی رائے میں غلطی کا احتمال بہرحال ہے (انبیاء کرام علیہ السلام اس عموم سے خارج ہیں) سو اگر کوئی مجھے میری غلطی پر مطلع کرنا چاہے تو بالکل کیجئے اور دلائل سے میرے بات کو رد کیجئے، مگر کسی سیاسی تعصب کے زیر اثر اپنے ذہن و دل کے دروازے سربمہر نہ کر لیجئے گا، کیونکہ اگر میں ایک انسان ہوں جس سے خطا ہو سکتی ہے تو شوکت خانم ہسپتال کو چلانے والے بھی کوئی فرشتے نہیں کہ ان سےغلطی کا صدور ممکن نہ ہو۔

شوکت خانم ہسپتال کا دعویٰ ہے (جو ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے ) کہ یہاں 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے؟ اس دعوے کی تصدیق کے لئے میں نے ان کی ہی ویب سائٹ پر موجود ان کے آڈٹ شدہ سالانہ حسابات کی طرف رجوع کیا۔ ان حسابات کا تجزیہ کرتے وقت کچھ دلچسپ انکشافات ہوئے جو آپ سب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ادارے کے حسابات برائے مالی سال 2015-16 کے مطابق ہسپتال کی کل آمدن (ریوینیو) 9.19 ارب روپے رہی۔ اس آمدن میں زکوٰۃ اور دیگر صدقات و عطیات کی مد میں حاصل شدہ آمدن کی مالیت تقریباً5.81ارب روپے بنتی ہے جو کہ کل آمدن کا 63 فیصد ہے۔ جبکہ کلینکل آمد ن کی مد میں ہسپتال کو 3.38 ارب روپے حاصل ہوئے جو کہ کل آمدن کا تقریباً 37فیصد بنتے ہیں ۔ اسی طرح اگر ادارےکی جانب سے ظاہر کیے گئے اخراجات کی تفصیل دیکھی جائے تو ہسپتال نے اس مالی سال میں کل 6.41 ارب روپے کے اخراجات ظاہر کیے، جس میں سے کلینکل اخراجات کی مد میں تقریباً 4.75 ارب روپے خرچ کیے گئے جبکہ تقریباً 1.66 ارب روپے دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کیے گئے۔ یوں ہسپتال کو اپنی آمدن سے تقریباً 2.78 ارب روپے فاضل (سرپلس) حاصل ہوئے۔

میں ان حسابات میں مالی بے قاعدگیوں کا الزام نہیں لگاتا۔ میں صرف ہسپتال کے 75 فیصد مفت علاج کے دعوے کو ان حسابات سے ثابت کرنے کی بات کر رہا ہوں۔ ادارے کے اپنے آڈٹ شدہ حسابات کے مطابق ہسپتال نے اپنی کل آمدن کا تقریباً 63 فیصد زکوٰہ و صدقات سے حاصل کیا جبکہ37 فیصد اپنی طبی خدمات کے عوض مریضوں سے وصول شدہ رقومات سے حاصل کیا۔ اب اس کا تقابل ادارے کے کلینکل اخراجات سے کرکے دیکھتے ہیں۔ ادارے کے کل کلینکل اخراجات (مفت اور بامعاوضہ دونوں) 4.75 ارب روپے رہے، جبکہ ادارے کی جانب سے کلینکل آمدن کی مدمیں 3.38 ارب روپے جمع بھی کیے گئے۔ آمدن اور اخراجات کا یہ فرق واضح کرتا ہے کہ ادارے کو کلینکل اخراجات کے کل خسارے کے (مفت علاج کی وجہ سے) محض1.37 ارب روپے یا 29فیصد ہی زکوٰۃ و صدقات سے پورےکرنا پڑے، جبکہ 71 فیصد اخراجات تو انہوں نے خود اپنے حسابات کے مطابق مریضوں سے وصول کر لئے! اس سے صاف ظاہر کہ ادارے نے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں ہونے والی آمد ن کا محض 26 فیصد ہی علاج معالجے کی مد میں خرچ کیا، باقی رقم انتظامی اور مارکیٹنگ کے اخراجات کی مد میں خرچ کی گئی، اور بقیہ فاضل آمد ن کے پول میں منتقل کر دی گئی (جس سے مزید سرمایہ کاری کی جاتی ہے)۔ ہو سکتا ہے میں غلط حساب لگا رہا ہوں، مگر بظاہر ادا رے کے اپنے آڈٹ شدہ حسابات بھی ان کے 75 فیصد مفت علاج کے دعوے کی تصدیق کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قابل تشویش بات یہ ہے کہ کس طرح یہ طریقہ کار لاکھوں لوگوں (جن میں اکثریت عوام کی ہے) کی ایک فرض عبادت کی ادائیگی کو مشکوک بنا رہا ہے اور اس پر کوئی بات تک نہیں کرتا! ہسپتال زکوٰۃ کے خرچ کے متعلق شریعت کے بنیادی اصولوں کی پاسدار نہیں کررہا ( کم از کم ان کے حسابات کی تفصیل سے تو یہی نظر آتا ہے)، لیکن اگر کوئی اس پر آواز اٹھانے کی گستاخی کا مرتکب ہو تو اسے اس قدر شرمسار کیا جاتا ہے کہ گویا اس سے بڑا انسانیت کا دشمن آج تک پیدا ہی نہ ہوا ہو۔

خیر ذرا مزید تفصیل میں چلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ادارے کی مجموعی کلینکل آمدن تقریباً 7.93 ارب روپے رہی جو کہ ان کے خالص کلینکل اخراجات سے تقریباً دگنی ہے جبکہ اپنے آمدن اور اخراجات کے کھاتے کے ذیل میں دیے دئے ملاحظات کے مطابق ادارے نے کل ملا کر 4.55 ارب روپے کے تنازلات مستحق مریضوں کو مالی امداد کی مد میں فراہم کیے۔ یوں اس تمام مالی تفصیل کی نہایت تور مروڑ کر بھی منظر کشی کی جائے تو یہ 57 فیصد بنتا ہے نہ کہ 75 فیصد، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے پہلےکہ کوئی مجھ پر تنقید کے نشتر چلانا شروع کرے کہ میں نے ان کے مہاتما کی جانب سے قائم کردہ انتہائی مقدس ادارے پر اعتراض کیوں کیا، یہ بات ذہن میں رکھیئے گا کہ میں نے شوکت خانم پر مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا ، میں محض ان کے اس دعوے پر سوال اٹھا رہا ہوں کہ وہاں 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج ہو رہا ہے۔اگر وہ اپنے کل کلینکل اخراجات کا 71فیصد مریضوں سے وصول کر رہے ہیں، تو 75فیصد کا مفت علاج کیسے ہو رہا ہے ، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اگر میں انسان ہوں تو شوکت خانم کا انتظام بھی فرشتوں کے ہاتھ میں نہیں!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”شوکت خانم ہسپتال اور فرشتے!

  1. اگر فضل الرحمن نوازشریف یازرداری اسی طرح کا ایک ہسپتال بنا دیں جس میں% 10لوگوں کاعلاج مفت ہو سکے تو میں عمران خان کو سپورٹ کرنا چھوڑ دونگا

Leave a Reply