بلوچ ماؤں کے بیٹے کہاں ہیں؟ ۔ محمد خان داؤد

ہ اس دن مادرِ علمی کے دامن میں محوِ  خواب تھے
اب وہ نیند میں ہیں یا جاگ میں ،کوئی نہیں جانتا
وہ کتابوں اور عشق کی گلیوں میں مقید تھے
اب وہ کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا؟
وہ مست تھے الست تھے مجنوں تھے فقیر تھے پر اپنوں کے بیچ تھے
اب وہ ”بولی منھنجی بھابیانی اللہ“ کہ ہیں بھی اور نہیں بھی
وہ جو اپنی ذات میں انقلابی تھے نہیں معلوم اب وہ کیوں اتنے بے توقیر ہوئے۔
وہ جن کے موبائل فون ہی نہیں پر دل کا والیم بھی آن ہوا کرتا تھا
اب دل اور موبائل فون دونوں بند ہیں۔

لیکن شال کی گلیوں سے بہت دور ماؤں کے دل آن، آف نہیں ،پر بہت بے چین ہیں اور مائیں ہر دھڑکنے والے در کے ساتھ اُٹھ بیٹھتی ہیں اور اپنے  کامریڈ بیٹوں سے پوچھتی ہیں غم گسار،غمگین اداس اور دل سوز بولی میں کہ”کیا وہ آگئے؟“
اور بہادر کامریڈ بیٹیاں ماؤں کو دلاسہ دیتے ہو ئے کہتی ہیں وہ”آ جائیں گے آج نہیں تو کل“
وہ جو محبت سے کتاب پڑھ کر دل کو چھو جانے والے جملوں کو انڈر لائین کرتے تھے
وہ آج کہاں ہیں؟
وہ جو رات کے شروعاتی پہروں میں عشق پر مباحثے کرتے اور رات کے ڈھلتے پہروں میں کتابیں پڑھتے اور کتاب پڑھتے پڑھتے سو جا تے، وہ سو جا تے ان کے سینے پر رہ جانے والی کتابوں میں الفاظ جاگتے  رہتے۔
وہ جو ماؤں سے محبوباؤں جیسی محبت کرتے،اور محبوباؤں سے ماں جیسی۔۔
پر وہ دھرتی سے ایسی محبت کرتے جس محبت کو نہ محبوبہ کی بات کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ ماں،
وہ بس عشق کی دھرتی سے محبت ہو تی ہے جس کا کوئی نام نہیں
وہ جو کتابوں کے لمس جیسے تھے
وہ جو کتابوں کے اوراق جیسے تھے
نئے نئے،خوشبوؤں سے لبریز
وہ جو نئے  ادبی میلوں میں نئی کتاب خرید کر ان کے پہلے پنّے پر لکھتے کہ ”اس کے لیے جسے میں مقدس صحیفوں کی ماند چومنا چاہتا ہوں“
وہ جو شاعری جیتے،شاعری پیتے،اور شاعری پڑھتے تھے
وہ شاعری کے آخری اور پہلے بند جیسے تھے،
وہ جن کی ملکیت میں بس کتابیں ہوتی ہیں۔
کورس کی کتابیں
عشق کی کتابیں
اور دھرتی سے محبت کی کتابیں

آج اگر وہ مصیبت کی  نذر  ہوئے ہیں اور ان سے کسی نا معلوم مقام پر تفتیش ہو رہی ہو اور ان سے بہت کچھ پوچھا جا رہا ہے تو پھر بھی ان کے جرم میں جو جو اندراج ہو رہا ہوگا وہ سوائے کتابوں کے اور کیا ہوگا؟

بھلے ان کتابوں میں وہ کتابیں نہ ہوں جن کی  سُرخ جلد چھپا کر ان پر اخبا ری پنوں کی  جلد چڑھا دی  جاتی  ہے بھلے ان کے جرم میں داس کیپیٹل سے لیکرکمیونسٹ مینو فیسٹو اورنیٹھ صبح تھیندو جیسی کتابیں نہ ہوں پھر بھی ایسی کتابیں ضرور ہونگی جن کتابوں کے لیے جون نے کہا ہے کہ
”ان کتابوں میں بڑی  رمز ہے “

کتابیں انسانوں کو شعور دیتی ہیں پر بلوچ دھرتی ایسی دھرتی ہے کہ یہ کتابوں کے بدلے ماؤں کے دلو ں میں خوف،وسوسے اور آنسو دیتی  ہیں،پورے ملک میں کتابیں باقی ماندہ انسانوں کو شعور سے بھر دیتی ہیں طالب علم کتابوں کا مطالعہ کر کے مباحث میں حصہ لیتے ہیں اور دلیلوں سے بات کرتے ہیں،پر بلوچ دھرتی ایسی دھرتی ہے یہاں جیسے ہی کوئی بلوچ طالب علم کتابوں سے لو   لگاتا ہے وہ گم ہو جاتا ہے۔
جیسے ہی اس بلوچ شاگرد کو ایاز کے لکھے یہ اشعار سمجھ میں آتے ہیں کہ
”خون میں لت پت موت مری
مجھے خبر ہے پر ماتا
میرے من میں ہے منصور
دار ہے جس کے جی میں جڑا“
وہ جیسے ہی،دار،موت،منصور سے واقف ہوتا ہے تو مصلوب ہو جاتا ہے۔
وہ ایک ہی مصلوب نہیں ہوتا،وہ تو بس دار پر چڑھتا ہے پر بلوچ مائیں ا ن کے یوں دار پر چڑھ جانے سے مصلوب ہو جا تی ہیں، آگے آگے دار پرمنصور جیسے بیٹے ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے مصلوب یسوع جیسی مائیں!
وہی گریہ
وہی درد
وہی  آہ
وہی پکار
وہی دل دوز درد
وہی انتظاری کیفیت
اور وہی آنسو
جس آنسوؤں کے لیے داغستان کے رسول حمزہ توف نے لکھا تھا کہ
”دو آنکھوں سے
آنسو کے دو قطرے
ماؤں کے رخساروں پر ڈھلکے
اک قطرے میں غم کی بُو
اک قطرے میں پیار کی خوشبو
اک قطرہ غم کا  مظہر
اک میں ماتم کا پیکر
آنسو کے دو قطرے
چھوٹے قطرے
جیسے دو بلور کے منکے
دو قطرے،معمولی قطرے
تنہا،تنہا بہتے جائیں
بے کس،بے بس قطرے کہلائیں
چمکیں جیسے بجلی چمکے
برسیں جیسے پانی برسے “

پر ان مصلوب ماؤں کے آنسو کون دیکھتا ہے؟
وہ جنہیں دیکھنے چاہئیں وہ اندھے ہیں اور وہ جو دیکھ رہے ہیں وہ سوائے احتجاج کے کیا کر سکتے ہیں؟
اور وہ جسے کچھ کرنا چاہیے وہ ایسا شاہی اظہار کر چکا ہے کہ
”اگر تم بھی احتجاج کرو گے تو گم کر دیے جاؤ گے“

تو پھر وہ مائیں کہاں جائیں جن ماؤں نے اپنے بچے پڑھنے کو بھیجے پر وہ بچے مادرِ علمی سے ایسے گم ہو گئے جیسے سندھ کے میلوں میں معصوم بچے ماؤں کے ہاتھوں کی انگلیاں چھڑا کر گم ہو جاتے ہیں
اور مائیں میلوں کے درمیاں رو تی رہ جا تی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پر وہ بلوچ ماؤں کے بلوچ بیٹے اتنے چھوٹے نہیں کہ ماؤں کے ہاتھوں کی انگلیاں چھڑا کر میلوں میں گم ہو جائیں وہ بڑے بچے ہیں اور بلوچستان یونیو رسٹی کوئی مزار یا مزاروں پر ہو تی دھمال یا کوئی مزاروں پر ہوتا میلہ  نہیں وہ ایک مادرِ علمی ہے اور وہاں جیسی تیسی ہی سہی  پر انتظامیہ ہے اور انتظامیہ کی رِٹ ہے۔
تو بلوچستان یونیو رسٹی ان ماؤں کو جوابدہ ہے جن کے بچے پڑھنے آئے اور رات کی تاریکی میں اُٹھا لیے گئے بلوچستان یونیورسٹی ان ماؤں کو بتائے کہ ان کے بچے کہاں گئے؟
وہ جو عشق جیسے تھے
وہ جو محبت میں پہلے بوسے جیسے تھے
گیلے گیلے!
رس سے بھرے!
وہ جو محبت کا بھاکر تھے(جھپی)
وہ کتابوں میں لکھی کہانی نہ تھے
وہ خوشبو تھے
وہ وجود تھے
پر اب وہ کہاں ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply