• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خلد آشیانی جناب ذوالفقار علی بھٹو رحمہ اللہ کے نام ۔۔۔ ژاں سارتر

خلد آشیانی جناب ذوالفقار علی بھٹو رحمہ اللہ کے نام ۔۔۔ ژاں سارتر

مائی ڈئیر لیڈر،

اب جبکہ آپ خدائے رحمٰن و رحیم کی رحمت تلے آرام فرما  ہیں، مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے نہایت افسوس اور شرمندگی ہو رہی ہے کہ آپ کو  سفر آخرت پر بھیجے جانے کے بعد اس ملک کا زمینی جغرافیہ تو بحمد للہ قائم ہے لیکن نظریاتی جغرافیہ بری طرح بگڑ رہا ہے۔ ملائوں کا تو خیر ذکر ہی کیا کہ ہمیں ان سے کوئی واسطہ نہیں لیکن وہ طبقہ جسے آپ نے آہنگ عطا کیا تھا، وہ بھی کٹھ ملائوں کی طرح آپ کے نظریات اور ارشادات کی من چاہی تعبیر و تشریح میں مصروف ہے اور ان عوام کی گمراہی کا سبب بن رہا ہےجن کے آپ بلا شبہ ایک عظیم قائد تھے۔

میرے محترم قائد! آپ اس ملک میں فرسودہ روایات اور سیاست کے سب سے بڑے باغی اور انقلابی تھے۔ آپ نے ہی بے زبان عوام کو ان کی حقیقی طاقت یعنی جمہوری حق دلانے میں سب سے زیادہ محنت کی تھی لیکن آج یہ کیسا وقت آن پڑا ہے کہ لبرل نظریات کی آڑ میں  حب الوطنی کو ایک طعنہ بنایا جا رہا ہے؟ ہمیں یاد ہے کہ آپ نے  فرمایا تھا، “کشمیر کے لیے ہم ہزار سال تک لڑیں گے۔” لیکن آج  یہاں کشمیر کا نام لینے پر نام نہاد دانشور ہمیں  بھی جہادی ملائوں میں شمار کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت دکھ ہو رہا ہے کہ  کشمیر کے معاملے پر جہادی ملائوں نے جو گل کھلائے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ وہ خلا بھی ہے جو نام نہاد ترقی پسند طبقے کی جانب سے کشمیر ایشو پر  میدان خالی چھوڑ دینے سے پیدا ہواتھا۔

مائی ڈئیر چئیر مین! آج کے نوزائیدہ  دانشورچونکہ پڑھنے لکھنے کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد ہیں، اس لیے بار بار افغانستان میں سوویت یونین کا راستہ روکنے کو ہماری تاریخی غلطی قرار دیتے ہیں۔ اب انہیں کون بتائے کہ جب یہ اس جہان فانی میں وارد بھی نہیں ہوئے تھے، اس وقت یعنی 1961 میں آپ نے سوویت یونین کے ساتھ پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کا معاہدہ کیا تھا۔  آپ سوشلزم کی حقیقت کو ان  فیس بکی دانشوروں سے کہیں بہتر جانتے تھے جو اس نظریے کے صرف نام ہی سے آگاہ ہیں۔(یہاں آپ کو یہ بھی مطلع کرتا چلوں کہ “فیس بکی دانشور” انسانوں کی ایک نئی سپیشیز کا نام ہے)۔ آپ نے اس سپیشیز کی پیدائش سے قبل یعنی 1950 میں سوشلزم کے اسلامی ممالک میں نفاذ کے موضوع پر متعدد لیکچر بھی دئیے تھے۔بہر حال یہ نسل ان حالات و واقعات سے آگاہ نہیں جو آپ کے سامنے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح عیاں تھے کہ سوویت یونین کی کن پالیسیوں کے باعث کمیونسٹ عوامی جمہوریہ چین بھی اس سے دور ہوتا چلا گیا۔ آپ نے ایک طرف سوویت یونین کے تعاون سے پاکستان میں سٹیل مل کے پراجیکٹ کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب افغانستان میں اسی سوویت یونین کا راستہ روکنے کی پالیسی بھی بنائی۔ آج کی نسل میں سے اکثر اس امر سے آگاہ نہیں کہ آپ کے مقرب ساتھی میجر جنرل نصیر اللہ بابر نے ملٹری انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے1974 میں گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی  کو پشاور لا کر گوریلا جنگ کی تربیت دی تھی۔ اگرچہ آپ کے بعد اس پالیسی کے عملی نفاذ میں بے شمار خامیاں پیدا کی گئیں لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ آپ سوویت یونین کو اپنی سرحد کے باہر ہی الجھائے رکھنے اور واپس دھکیلنے  کے منصوبہ ساز تھے۔

اے قائد عوام! آج کل یہ جعلی لبرل دانشور ہمارے ملک کے ایٹمی ہتھیار بنانے پر بھی سیخ پا نظر آتے ہیں اور ہمیں بھاشن دیتے ہیں کہ ایک غریب ملک کو ایسی فضول اور مہنگی عیاشی نہیں کرنی چاہیے۔  غالباً انہیں یاد نہیں کہ اس ایٹمی پروگرام کی بنیاد آپ ہی نے رکھی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی ہتھیار ضرور بنائیں گے۔ براہ کرم انہیں سمجھائیے کہ جنگی جنون اور اپنے وطن کےلیے جذبہ دفاع میں کتنا واضح فرق ہے۔ انہیں یہ بھی بتائیے کہ ٹیکسلا کی ہیوی انڈسٹریز اور کامرہ کی ائر کرافٹ ری بلڈ فیکٹریز آپ ہی نے قائم کی تھیں جو آج پہلے سے کہیں بڑی ہو چکی ہیں۔ جب آپ نے یہ دفاعی صنعتیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا آغاز کیا تھا تو ہماری معاشی حالت آج کے مقابلے میں کہیں کمزور تھی لیکن آپ  حب الوطنی اور قومی غیرت کے مفہوم سے بخوبی آگاہ تھے جبکہ یہ سوڈو انٹلکچوئل ان الفاظ کو گالی بنانے پر تلے ہیں۔

مسٹر پرائم منسٹر سر! آج کی نسل جو بھارتی پراپیگنڈے کے زیر اثر ہے اور بے شمار حقائق سے لا علم ہے، اسے بتائیے کہ عراقی حکومت پاکستان میں مسلح بغاوت کو فروغ کیوں دے رہی تھی،؟افغانستان (اس وقت کے)  صوبہ سرحد اور بلوچستان میں کس کی مدد کر رہا تھا؟اور وہ کیا حالات تھے، جن میں آپ  جیسےجمہوری رہنماکو پہلے عراقی سفارتخانے اور پھر بلوچستان  میں فوجی آپریشن کرنا پڑا؟آج جب کہ ہمیں پھر ایسے ہی حالات کا سامنا ہے تو بجائے اس کے کہ ہم وطن کے دفاع کے لیےآپ کی پالیسیوں  کو مشعل راہ بنائیں، یہ نوزائیدہ دانشور امن پسندی کی وہ تعریف بیان کر رہے ہیں جو دنیا میں کہیں وجود نہیں رکھتی۔

ڈئیر سر، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان جعلی اور نام نہاد دانشوروں کی اجتماعی دانش کی وقعت اس ٹوٹی ہوئی ہوائی چپل سے بھی کم ہے جو آپ نے پیکو فیکٹری، کوٹ لکھپت، لاہور کے مزدوروں سے خطاب کرتے وقت پہن رکھی تھی ۔۔۔ کیونکہ آپ کو بخوبی علم تھا کہ قیام کے وقت سجدے میں گرنے کا کیا نقصان ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت آپ کے درجات بلند فرمائے۔

دعاگو

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کا ایک ہم وطن

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خلد آشیانی جناب ذوالفقار علی بھٹو رحمہ اللہ کے نام ۔۔۔ ژاں سارتر

  1. Hilarious… but certainly true. Today, it is again proved that we could avoid a new WAR from Modi and Company, specially their war division established at all leading electronic media houses, only due the the presence of Atomic Bomb. And we all Pakistanis bow our heads in front of Mr Bhutto and his vision of Self Denfense.,

Leave a Reply