• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسٹیٹ بینک ترمیمی بِل،اپوزیشن کو مبارک ہو۔۔آصف محمود

اسٹیٹ بینک ترمیمی بِل،اپوزیشن کو مبارک ہو۔۔آصف محمود

یہ خبر تو آپ سن چکے ہوں گے کہ ا یک ووٹ کی اکثریت سے سٹیٹ بنک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور ہو گیا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کل سینیٹ میں حزب اختلاف کا کردار کیا رہا؟

پاکستان پیپلز پارٹی ” سلیکٹڈ” حکومت کا طعنہ دیتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ جمہوریت کے غم میں دبلا اور ساتھ ساتھ پتلا ہونے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے۔ اس کو گمان ہے کہ جمہوریت کا پرچم اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے تھام رکھا ہے اور اگر وہ اپنے نازک ہاتھوں کو مزید زحمت نہ دے تو اس ملک میں جمہوریت کا کوئی مستقبل ہی نہیں۔ جناب سید یوسف رضا گیلانی اسی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہیں۔ جب وہ سینیٹ کی نشست جیتے تو اسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ” ایجنٹ” کے خلاف ایوان کا اعلان عام قرار دیا گیا۔

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل جب سینیٹ میں سٹیٹ بنک ترمیمی بل پیش کیا گیا اور اس پر ووٹنگ ہو رہی تھی تو جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب غیر حاضر تھے۔ اگلے چند دنوں میں جب ولی عہد جناب بلاول بھٹو قوم کو دکھ اور غم کی تصویر بنے بتا رہے ہوں گے کہ اس بل کے ذریعے حکومت نے قومی خود مختاری کا سودا کر دیا تو اس وقت آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ ولی عہد کی پارٹی نے اپنے سینیٹر کو غیر حاضر رکھ کر فصیل میں ریت بھری تھی تو شہرِ پناہ فتح ہوا تھا۔

جے یو آئی اس وقت جمہوریت کی ٹارزن بقلم خود ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جمہوریت کی بقاء کی خاطر مولانا نے وہ کام کیا جو رستم سے بھی نہ ہو گا۔ اس کے کارکنان زبان بکف پائے جاتے ہیں کہ جب ساری قوم اور احمق دانشوروں کو عمران خان ہو گیا تھا، مولانا کی بصیرت اس وقت بھی شہر میں چراغاں کیے ہوئے تھی اور بتا رہی تھی کہ عمران خان کو ووٹ دینا تباہ کن ہو گا۔ ناراض محبتوں کی طرح یہ مولانا حضرات فیس بک پر شکوے اچھال رہے ہوتے ہیں کہ ملک جس حالت سے گزر رہا ہے یہ قبلہ مولانا کی بات نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ مولانا تو اپنی بصیرت سے دیوار کے ا س پار دیکھ چکے تھے اور بتا چکے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت بھی اس حکومت کے سامنے اگر کوئی مرد قلندر کوہ ہمالیہ کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہے تو وہ مولانا ہیں۔

اس لیے اب ایم ایم اے یعنی مُلا ملٹری الائنس کے طعنے دیئے گئے۔ جے یو آئی تو اپنے نورِ جمہوریت کے ہالے میں سرخرو ہے اور دمک رہی ہے۔ تو جناب کل جب سینیٹ میں ایک ووٹ سے حکومت نے بل منظور کروایا تو جے یو آئی کے سینیٹر قبلہ طلحہ محمود صاحب کہاں تھے؟ اتنے اہم موقع پر وہ ووٹ ڈالنے کیوں نہ آئے؟ اے این پی بھی جمہوری اقدار کا اک مقامی ٹارزن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سچائی اور صداقت کی گٹھڑی اسی جماعت کے پاس ہے اور باقی تو سب کے سب ابن الوقتی کی سیاست کر رہے ہیں۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق کاسی نے ایوان میں آنے کے باوجود ووٹنگ کے وقت ادھر ادھر ہو جانا کیوں ضروری سمجھا؟

اے این پی کے سینیٹر صاحب کیا ایف سیون میں بنگالی کے سموسے کھانے چلے گئے تھے جو اس اہم ترین معاملے پر ووٹنگ میں غیر حاضر رہے؟ دل چسپ روایت یہ ہے کہ یہ صاحب پہلی گنتی میں موجود تھے۔ پہلی گنتی کے بعد جب معاملہ برابری پر ہوا اور چیئر مین سینیٹ کے ووٹ کی طرف بات بڑھنے لگی تو دوبارہ گنتی ہوئی۔ دوبارہ گنتی میں یہ صاحب غائب ہو گئے۔ اللہ خیر کرے، معلوم نہیں ایسی کیا اشد ضرورت آن پڑی کہ ایوان بالا کے معزز رکن کو وہاں سے نکلنا پڑا۔ بد گمانی تو ہم رکھ نہیں سکتے کہ سارے اراکین اللہ کے فضل سے آئین کے مطابق سچے ہیں اور امانت دار ہیں اور باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی صاحب تو خیر اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ ان کے بس میں ہو تو معلوم انسانی تاریخ میں اپنے سوا ہر گروہ کو غلط ثابت کر دیں۔ ان کے خیال میں دنیا کی ہر خوبی ان کی جماعت میں ہے اور ضمیر تو ان کی جماعت کی چوکھٹ سے اٹھتا ہی نہیں۔ چنانچہ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، ضمیر کے مطابق کرتے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی، ان کے سینیٹر سردار شفیق ترین بھی ووٹنگ میں شامل نہیں تھے۔ شاید ضمیر نے بہت بے چین کر دیا ہو اور ضمیر کی آوا ز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے ووٹنگ کے عمل سے خوود کو دور رکھا ہو۔

مشاہد حسین سید صاحب کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ وہ بھی اس اہم موقع پر غیر حاضر تھے۔ مشاہد صاحب کو تو آپ کہہ سکتے ہیں کرونا تھاسینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ حکومت کے پاس 42 لوگ ہیں اور اپوزیشن کے پاس 57 افراد، اس کے باوجود حکومت اپنا بل سینیٹ سے پاس کروا لیتی ہے تو کیسے؟ ان ساری جماعتوں کے وابستگان اگر سوچنے اور سمجھنے کے تکلف سے بے نیاز ہونے کا آخری فیصلہ نہ کر چکے ہوں تو معاملہ تو واضح ہے کہ نورا کشتی ہو رہی تھی۔ ورنہ سینیٹر مشتاق احمد کے سوالات ایسے نہ تھے کہ نظر انداز کر دیے جاتے۔

سینیٹ قواعد کے مطابق چونکہ سینٹر مشتاق احمد صاحب کے سوالات اور ترامیم وصول کی جا چکی تھیں اور ریکارڈ کا حصہ بن چکی تھیں تو اب چیئر مین سینیٹ پر لازم تھا کہ قانون کے مطابق عمل کرتے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ جو شخص ترامیم تجویز کرتا ہے وہ اپنی ترامیم پر تقریر کا حق بھی رکھتا ہے ا ور اس کے بعد ایوان کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان ترامیم پر جو بھی مناسب سمجھے فیصلہ کرلے۔ یہ سارا طریقہ پامال کر دیا گیا۔ اس کی کیا وجہ، کیا جواز اور کیا توجیح ہے۔ ہو سکتا ہے معاملہ اتنا سنگین نہ ہو جتنا سینیٹر مشتاق احمد بتا رہے ہیں لیکن ان کو بولنے تو دیا جاتاکہ قوم پر اور ایوان پر صورت حال واضح ہو جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال اپوزیشن کو مبارک ہو۔ فواد چودھری درست کہتے ہیں، یہ سب اندر سے حکومت سے ملے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply