ایک نیا مذہب۔۔ڈاکٹر خالد سہیل

خواتین و حضرات !میرا نام کرن کرونائی ہے اورمیرا تعلق کرونائی مذہب سے ہے۔ میں مذاہبِ عالم کی اس 2120 کی بین الاقوامی کانفرنس میں آپ سب مہمانوں کو خوش آمدید کہتی ہوں۔

مجھ سے پہلے آپ جن مذاہب کے نمائندوں کی تقریریں سن چکے ہیں ان میں یہودی بھی تھے عیسائی بھی’ مسلمان بھی تھے ہندو بھی’ سکھ بھی تھے اور بدھسٹ بھی۔ ان میں سیاہ فام افریقی قبائل کے رہنما بھی تھے اور سرخ فام انڈین قبائل کے سردار بھی۔اب ہم سب بائیسویں صدی میں زندہ ہیں۔ اب ساری دنیا میں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے ایتھیسٹوں’ انارکسٹوں اور ہیومنسٹوں کی تعداد ستر فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اب وہ اکثریت میں اور کسی بھی مذہب کو ماننے والے اقلیت میں ہیں۔

مذاہبِ عالم میں کرونائی مذہب سب سے دیر سے آیا ہے۔ اس کی عمر صرف ایک سو برس ہے۔ میں آج آپ کی خدمت میں اس کی مختصر تاریخ اور تعارف پیش کرتی ہوں۔

کرونائی مذہب ایک مذہب بننے سے پہلے ہم خیال لوگوں کی ایک تحریک تھی’ ایک قبیلہ تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ تحریک وہ قبیلہ مذہب میں تبدیل ہو گیا۔

کرونائی قبیلے کا آغاز آج سے ایک سو سال پیشتر 20 مارچ 2020 کو کینیڈا کے وولف آئلینڈ WOLFE  ISLANDمیں ایک میٹنگ سے ہوا جہاں بیس سینئر سٹیزن جمع ہوئے۔ وہ سینئر سٹیزن اس وجہ سے پریشان تھے کہ پورے شمالی امریکہ میں ہر روز سینکڑوں ہزاروں سینئر سٹیزن کرونا کی وبا سے مر رہے تھے اور جو زندہ تھے ان کی راتوں کی نیند موت کے خوف سے اڑ چکی تھی۔  ۔ان دنوں کرونا وبا کے بارے میں بہت سی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔

کوئی کہتا تھا کہ کرونا وائرس امریکی سائنسدانوں نے ایک لیبارٹری میں تیار کر کے ساری دنیا میں پھیلا دیاہے۔

 کوئی کہتا تھا کہ یہ وبا چین کی حکومت نے ساری دنیا میں پھیلائی ہے اور اس دور کا امریکہ کا صدر ڈانلڈ ٹرمپ اسے چینی وائرس کہہ کر بلاتا تھا۔

کوئی کہتا تھا کہ اس وبا کے پھیلنے میں

WHO…WORLD  HEALTH  ORGANIZATION

کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے ساری دنیا کو بروقت باخبر نہیں کیا۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ وبا ان سرمایہ داروں نے پھیلائی ہے جو نہ صرف انسانوں کی آبادی کم کرنا چاہتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ٹکنالوجی پھیلا کر سارے کاروبار ONLINE کرنا چاہتے ہیں۔بعض کا موقف تھا کہ ایک خفیہ گروہ کے ممبر کرونا کی ویکسین کے ساتھ ساری دنیا کے انسانوں کے ہاتھوں میں ایک CHIP لگانا چاہتے ہیں تا کہ وہ  کرہِ ارض پر رہنے والے ہر انسان کی زندگی کو کنٹرول کر سکیں۔اور بعض مذہبی لوگوں کو پورا یقین تھا کہ چونکہ انسانوں نے جنسی بے راہ روی کی زندگی اختیار کر لی ہے اس لیے ان پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے۔

وولف آئلینڈ کی اس میٹنگ کی روداد اس میٹنگ کے صدر ڈاکٹر فریڈ گڈمین نے ’جو ایک نرسنگ ہوم کے معزز و محترم ڈاکٹر تھے’اخباروں اور سوشل میڈیا پر پیش کی تو انہیں سینکڑوں ہزاروں سینئر سٹیزنز کے پیغامات آنے شروع ہوئے۔ اگلے ایک سال میں جہاں کرونا وبا کی وجہ سے دنیا میں سینیر سٹیزنز کی تعدار کم ہو رہی تھی وہیں ڈاکٹر فریڈ گڈمین کے حامیوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

دھیرے دھیرے  ڈاکٹر فریڈ گڈمین کرونا تحریک کے سربراہ بن گئے۔

پہلے اس تحریک میں صرف سینیر سٹیزن شامل تھے لیکن پھر وہ نوجوان مرد اور عورتیں بھی شامل ہو گئے جو اپنے بزرگوں کے بارے میں بہت فکرمند رہتے تھے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کرونا وبا تو دنیا سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی بیماری اور موت کے بعد تین سال میں ختم ہو گئی لیکن ڈاکٹر فریڈ گڈمین کی تحریک ختم نہ ہوئی۔ پہلے اس تحریک نے ایک قبیلے کی شکل اختیار کی اور پھر وہ ایک مذہب بن گئی۔

اب اس مذہب کے ساری دنیا میں لاکھوں پیروکار ہیں۔ وہ پیروکار اپنے آپ کو کرونائی کہلاتےہیں اور اپنے نام کے ساتھ میرے نام کرن کرونائی کی طرح کرونائی لکھتے ہیں۔

ساری دنیا کے کرونائی

 مسلمان عورتوں کے نقاب اور سکھ مردوں کی پگڑی کی طرح چہروں پر ماسک اور ان کے کڑوں کی طرح ہاتھوں میں دستانے پہنتے ہیں

 ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھتے ہیں

 ہاتھ ملانے کی بجائے کہنی یا پائوں ملاتے ہیں۔

 مسلمانوں کے سور اور ہندوئوں کےگائے کے گاشت کی طرح کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے۔

کرونائی لوگوں کے لیے بیس 20کا ہندسہ مقدس ہے کیونکہ یہ اس وبا کی یاد دلاتا ہے جو 2020 میں ساری دنیا میں پھیل گئی تھی۔

وہ ہر ماہ کی بیس تاریخ کو اپنی میٹنگ رکھتے ہیں اور ہر میٹنگ میں صرف بیس ممبر موجود ہوتے  ہیں۔اب بہت سے شہروں اور ملکوں میں ان کی بیسیوں میٹنگز ہوتی ہیں۔

ہر میٹنگ کے صدر کو ڈاکٹر فریڈ گڈمین کی یاد میں مسٹر گڈمین کہا جاتا ہے۔

کرونائیوں کا ایمان ہے کرونا وائرس دھرتی ماں کا ساری دنیا کے انسانوں کے نام ایک دکھ بھرا پیغام تھا کہ وہ ماحولیات کا احترام نہیں کرتے۔دھرتی ماں نے کرونا وائرس سے مساوات کا سبق بھی دینے کی کوشش کی تھی کیونکہ کرونا نے کچھ عرصے کے لیے امیروں غریبوں ’کالوں گوروں اور مردوں عورتوں کا فرق مٹا دیا تھا۔

کرونائی دنیا کے چاروں کونوں میں ہرسال بیس مارچ سے چار اپریل تک کرونائی اعتکاف میں بیٹھتے ہیں اور دھرتی ماں سے معافی مانگتے ہیں۔ ان چودہ دنوں میں دوست اور رشتہ دار ان کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لاتے ہیں اور ان دو ہفتوں کے بعد کرونا سے فوت ہونے والے سب انسانوں کے لیے ایک اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔

کرونائیوں کی انسانی تاریخ میں B.Cکا مطلب BEFORE  CHRISTکی بجائے BEFORE  CORONAسمجھا جاتا ہے۔

ہر کرونائی کے گھر کی دیوار پر ڈاکٹر فریڈ گڈمین کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔

ساری دنیا کے کرونائی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے رفاہی کام کرتے ہیں اور انسانیت کو ریاست کے جبر سے بچاتے ہیں۔

کرونائی سیاستدانوں کی پالیسیوں اور سائنسدانوں کی تحقیقی رپورٹوں پر گہری اور تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں۔

جیسے شدت پسند اور روایت پرست مسلمان غیر مسلموں کو کافر کہتے ہیں اسی طرح کرونائی ان تمام لوگوں کو جو ماسک اور دستانے نہیں پہنتے COVID IDIOTS

سمجھتے ہیں۔

کرونائیوں کی تعداد ساری دنیا میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ پچھلے برس کی مذاہب عالم کی اینتھالوجی میں انہیں بطورِ مذہب شامل کر لیا گیا ہے اور انگریزی کی ڈکشنری میں یہودی اور عیسائی کے ساتھ کرونائی کا نام بھی آ گیاہے۔

خواتین و حضرات!

آج کی کانفرنس میں بیس کرونائی شامل ہیں۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ آپ انہیں دور سے رنگین ماسک اور دیدہ زیب دستانوں سے پہچان لیں گے ۔ دلچسپ بات یہ کہ ساری دنیا میں باقی مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن کرونائیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ کرونائی سیاسی اور سائنسی معاملات میں بہت فعال ہیں اور وولنٹیر ورک بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔

اپنی تقریر کے آخر میں میں آپ کو راز کی یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ بہت سے کرونائی اپنے آپ کو ایک تحریک یا قبیلے کا ممبر تو سمجھتے ہیں مذہب کا پیروکار نہیں سمجھتے ۔یہ علیحدہ بات کہ بہت سے مذہبی لوگ جو بدھ ازم ’کمیونزم اور ہیومنزم کو بھی مذاہبِ عالم کی فہرست میں شامل رکھتے ہیں وہ کرونزم کو بھی ایک جدید مذہب سمجھتے ہیں۔

خواتین و حضرات!

 میں اس کانفرنس کی آخری مقرر ہوں کیونکہ ہمارامذہب انسانیت کا آخری مذہب ہے۔ اس کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا اس لیے اس کی عمر ابھی صرف ایک سو برس ہے۔

میری گزارشات سننے کا  شکریہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 شب بخیر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply