دولت اسلامیہ اور اسٹوڈنٹس کی وجہِ نزع۔۔ہمایوں احتشام

دولت اسلامیہ بنیادی طور پر اہلحدیث نظریات یا سلفی ازم کی پرچارک تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا ظہور شام میں ہوا اور اس کی اصل طاقت 2013 کے بعد قائم ہوئی۔ یہ تنظیم ہر قسم کی بدعات کی مخالف ہے، اور ان کے بقول بدعت زدہ شخص کو مار دینا بھی مشرک کو مارنے کے برابر ہے۔ اسی لئے اس تنظیم کا ہدف ہمیشہ مسلمان ہی رہے۔ مبصرین کا دعویٰ  ہے کہ یہ مغربی بلاک کی پیداوار تنظیم ہے، اور انھی کی پشت پناہی کے دم پر اس تنظیم نے 2014 میں موصل پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد اس تنظیم نے بلاتخصیص مذہب لوگوں کا قتل عام کیا، بلکہ اس کے جبر کا سب سے زیادہ شکار “بدعتی” مسلمان ہی رہے۔ انھوں نے انبیاء کرام کے مزارات کو مسمار کیا اور مساجد ڈھائیں۔ نومبر 2019 میں ایدب، حلب کے مقام پر ایک آپریشن میں اس کے قائد خلیفہ ابراہیم عرف ابوبکر بغدادی کو ہلاک کردیا گیا۔ اس طرح شام اور عراق میں اس کا زور کافی کم ہوا۔
دولت اسلامیہ کے افغانستان اور پاکستان پر مشتمل باب کو دولت اسلامیہ خراسان کا نام دیا گیا ہے، جس کی بنیاد ابو عمر خراسانی نے ڈالی۔ جن کو بعد میں کابل میں نیٹو فوج نے ایک آپریشن میں ہلاک کردیا تھا۔
اسٹوڈنٹس بنیادی طور پر حنفی سنی عقائد پر یقین رکھنے والا دھڑا  ہے۔ یہ افغانستان کا مزاحمتی گروہ ہے۔ جو 1996 میں وجود میں آیا۔ انھوں نے بعد میں کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا مگر 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے کابل ان سے چھین لیا اور شمالی اتحاد کے حوالے کردیا۔ بیس سال تک یہ گروہ مزاحمتی جنگ لڑتا رہا، اور آخر امریکی افواج نے انخلا کا آغاز کیا تو اسٹوڈنٹس جنوبی صوبوں سے فتوحات کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کابل پر قابض ہوگئے۔

اشرف غنی کے کٹھ پتلی عہد میں دولت اسلامیہ اور اسٹوڈنٹس اکٹھے ننگر ہار اور کنڑ میں افغان نیشنل آرمی، نیٹو اور امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کرتے رہے۔
مگر انخلا سے پیشتر تمام سٹیک ہولڈرز اور اسٹوڈنٹس کے درمیان دوحا مذاکرات کا آغاز ہوا۔ دولت اسلامیہ نے اسٹوڈنٹس کو مذاکرات کرنے سے منع کیا اور بات نہ ماننے کی صورت میں نتائج کی ذمہ  داری اسٹوڈنٹس کے سر ہونے کا الٹی میٹم دیا۔ دوحہ مذاکرات کامیاب ہوئے، تو دولت اسلامیہ نے اسٹوڈنٹس کو امریکی حمایت یافتہ قرار دے کر ان کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کا اعلان کردیا۔ ننگر ہار میں اسٹوڈنٹس اور دولت اسلامیہ میں امریکی انخلا سے پیشتر ہی کنٹرول حاصل کرنے کے لئے زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ لیکن ننگر ہار کا کنٹرول دولت اسلامیہ کے پاس ہی رہا۔ فریقین میں تنازع  کی دوسری وجہ، اس وقت بنی جب اسٹوڈنٹس نے کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا، اور جیلوں سے اپنے لوگوں کو آزاد کروانا شروع کیا۔ اسی دران دولت اسلامیہ کے بہت سے کارکنان اور رہنماؤ ں  نے فرار کی کوشش کی، جن پر اسٹوڈنٹس نے فائرنگ کی اور بہت سے دولت اسلامیہ کے لوگ زخمی ہوئے اور کچھ مارے گئے۔ اس سے دولت اسلامیہ میں اسٹوڈنٹس کے غصہ کی لہر دوڑ گئی، اور جیسے وہ افغان انتظامیہ، نیٹو اور پولیس پر اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آزادانہ حملے کرتے تھے، ویسے ہی انھوں نے اسٹوڈنٹ سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کرنا شروع کردیے۔ جس سے حالات میں کشیدگی آگئی۔
تاہم اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اسٹوڈنٹس کا یہ دعویٰ   زمیں بوس ہوجاتا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کا وجود تک نہیں۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دولت اسلامیہ اسٹوڈنٹ انتظامیہ کے لئے شمالی اتحاد اور افغان مزاحمتی محاذ سے زیادہ خطرناک حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

اس کے علاوہ تضاد کی سب سے اہم اور بڑی وجہ نظریاتی اختلافات ہیں۔ دولت اسلامیہ اسٹوڈنٹس سے کہیں زیادہ متشدد اور شدت پسند ہیں۔
دولت اسلامیہ خراسان میں اسٹوڈنٹس کے سابقہ کارکنان شامل ہیں، جو سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حنفی مسلکی اسٹوڈنٹس کو بدعتی قرار دیتے ہیں۔ یہ سلفی ٹولہ حنفی اسٹوڈنٹس کی بالادستی کا شدید ترین مخالف ہے۔ اسی لئے کنڑ، پکتیکا اور ننگر ہار کے سابقہ اسٹوڈنٹ اہلکاروں نے دولت اسلامیہ خراسان باب کی بنیاد رکھی۔

اسی دولت اسلامیہ کے خطرے کے پیش نظر اسٹوڈنٹس نے اقتدار میں آتے ہی ان مدارس اور مساجد کو بند کروا دیا، جن کا ماضی میں کسی بھی طرح دولت اسلامیہ سے تعلق رہا ہو۔
اب معاملہ یہاں تک ان پہنچا کہ امریکی انخلا کے آخری دن 27 اگست 2021 کو دولت اسلامیہ نے کابل ائیر پورٹ پر خودکش حملہ کیا، جس میں کم از کم دو سو معصوم افغان جان بحق ہوئے اور تیرہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد چھوٹے موٹے بم حملے ہوتے رہے اور 19 اور 20 ستمبر 2021 کو جلال آباد اور اس سے ملحقہ ضلع گواچک میں پہ در پہ اسٹوڈنٹ سیکورٹی اہلکاروں پر بم حملے ہوئے اور فائرنگ کی گئی، جس میں کل 35 افراد جان بحق ہوئے۔

3 اکتوبر 2021 کو عیدگاہ مسجد کابل میں پھر بم حملہ ہوا، جس میں دو افراد شہید ہوئے۔ مسجد میں افغان ترجمان زبیح اللہ مجاہد صاحب کی والدہ کی قل خوانی جاری تھی۔
تمام حملوں کی  ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی۔
اس کشیدگی کی صورتحال میں دنیا بھر کے اسلامی مزاحمتی راہنماؤں  کی جانب سے دولت اسلامیہ کی امارات اسلامی افغانستان کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کو جلن پر مبنی اور اسلامی امارات کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالات مزید خطرے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دولت اسلامیہ نے مزید دھماکوں اور حملوں کی جانب اشارہ کردیا ہے۔ اب اسٹوڈنٹس انتظامیہ کو دیکھ بھال کر وہ اقدامات اٹھانے ہوں گے، جن سے امارات اسلامی کا وقار بحال رہے اور دیرپا امن ممکن ہوسکے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply