غزوۂ احد کے جانثاران رسولﷺ(1)۔۔احمد خلیق

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری: 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والدین  اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔
یہ حق اور سچ ہےکسی بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات اسے دنیا و مافیہا سےبڑھ کر محبوب نہ ہو جائے۔اس دنیا و مافیہا میں تمام محبوب و قریبی رشتوں اور تعلقات کے، اور ہمہ قسم کی دنیاوی و مادی اشیاء کے، بندے کی اپنی جان بھی شامل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ۔ ۔ ۔ (سورۃ الاحزاب: 6)
ترجمہ: ایمان والوں کے لیےیہ نبی اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ۔ ۔ ۔

آیت بالا کے اس جزو  کی تفسیر میں بخاری شریف کی ایک حدیث مذکور ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سراپا و مجسم رحمت اللعالمین ﷺ  نے فرمایا: “کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس کے لیے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ و اَقرب نہ ہوں، اگر تمھارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھ لو اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ”۔

اس اٹل حقیقت کا واشگاف اظہار حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس حدیث مبارکہ سے ہوتاہےکہ جس میں آپ رضی اللہ عنہ نےبارگاہ رسالت کے حضور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے  میری اپنی جان کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔ (بخاری: 6632)

بلاشبہ کھلی آنکھوں مشاہدہ ہے کہ زبان سے عشق و محبت رسولﷺ کے جتنے مرضی دعوے ہوتے رہیں، فی زمانہ ہمارے افعال برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ سراسر ایمانی ضعف کی علامت ہے کہ ہم دیگر چیزوں اور شخصیتوں کونبیﷺپر فوقیت اور اولیت دیتے معلوم ہوتےہیں، لیکن ٹھہریے!۔۔۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلےایک ایسی جماعت گزری ہے جس نے نہ صرف قول وقرار سے بلکہ اپنے عمل سے بھی اس حکم نبوی کو رہتی دنیا کے لیے بطورنمونہ اور مثال پیش کیا۔۔۔

جی ہاں! وہ تھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی جماعت ۔ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی جناب رسول اللہﷺ   سے محبت کی کیفیت کیاتھی؟ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔” اللہ کی قسم آپ کی ذاتِ گرامی ہمارے نزدیک ہمارے اموال ، اولاد ، ماں باپ اور پیاسے کو جس قدر ٹھنڈا پانی مرغوب ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ محبو ب تر تھی”۔ (الشفاء) بلاشبہ آپﷺ کی ذات عالیہ انہیں ہر چیز سےزیادہ  محبوب تھی، حتیٰ  کہ  ان کی نظر میں اپنی جانوں کی بھی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت زید بن دثنہ اور حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما کو جب قریش مکہ کی طرف سے (مختلف اوقات میں)شہید کیا جانے لگا تو سوال کیا گیا: کیا تم اس کو پسند کروگے کہ ہم تم کو چھوڑ دیں اور محمد (ﷺ) کو تمہارے بدلے میں قتل کردیں، اور تم اپنے گھر آرام سے رہو؟، قربان جائیے ان صحابہ کرام کی عزیمت اور محبت پر! دونوں نے ایک سی بات فرمائی: ’’اللہ کی قسم مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدس ﷺجہاں ہیں وہیں ان کے پیر مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے اورمیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔‘‘

کہتے ہیں کہ اصل تعریف وہ ہے جومخالف یا دشمن بغیر کسی خوف یا لالچ کے برسر عام کرے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود ثقفی(رضی اللہ عنہ۔۔۔ غزوۂ طائف کے بعد اسلام لائے) سفارت کی غرض سے آئے تو انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل کو بغور دیکھا اور واپس جا کر قریش مکہ کے سامنے گویا ہوئے: “اے لوگو! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں ہو آیا ہوں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ  کے اصحاب آپﷺ  کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمدﷺ  نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ ﷺ نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت  لیجانے کی کوشش کی۔ آپﷺ   نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ﷺ  کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپﷺ  نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپﷺ  کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہیے کہ اسے قبول کر لو”۔ (بخاری: 2732)

اللہ اکبر! صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی عقیدت و شیفتگیِ رسولﷺ کو اس سے بہتر الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ مگر اس مشاہدہ سے قبل عروہ کے خیالات مختلف تھے۔ آغاز سفارت کاری میں انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا: اے محمد ( ﷺ  )! بتائیے۔ ۔ ۔اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپ ﷺ  پر غالب ہوئے) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں کےلوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ طیش میں آتے ہوئے بولے: کیا ہم رسول  اللہ  ﷺ     کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپﷺ  کو تنہا چھوڑ دیں گے ؟۔۔۔(ایضاً)صدق و صفاکے پیکر نے سچ فرمایا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورعلیہ التحیۃ و التسلیم پر کوئی آزمائش آئے اور ہم آپﷺ کے جانثار صحابہ جن کا وظیفہ ہی “فداک ابی و امی یا رسول اللہﷺ” ہے دفاع کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو آس پاس موجود نہ ہوں۔ ؟

تاریخ گواہ ہے تعداد کی قلت ہو یا کثرت،  جارحانہ جنگ کرنی ہو یا دفاع مقصود ہو،فتح مندی نصیب ہو یا شکست و پسپائی کا سامنا ہوہرہر موقع پر اصحاب رسول آپﷺ کےہمرکاب رہے اور پیٹھ دکھانے کو اپنے لیےہلاکت تصور کیا ۔اور اس مقدمہ کے اثبات کے لیےغزوۂ احد سے بہتر مثال کیا ہوسکتی ہے جب ایک موقع پر جنگ کا پانسہ پلٹا، کفار مکہ کا زور بھاری پڑنے لگا اور وہ ہجوم کرتے ہوئےحبیب کبریاﷺ کی جانب بڑھے تو ایسے کڑےوقت میں بھی صحابہ کرام کی ایک مختصر جماعت نےآپ ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا اوراپنے سینوں، کمروں، ہاتھوں، انگلیوں،یہاں تک کہ  آنکھوں کے ذریعےسے سرور کونینﷺ کاوہ بے مثال دفاع کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ذیل میں انہی جانثار صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم کی فداکاری اور وارفتگی کا تذکرہ فرداً فرداً پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا زیاد بن سکن) اور ساتھی انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم
جب کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ پر پہلا ہلہ بولا تو اس نازک وقت میں آپ ﷺ کے ساتھ صرف نو جانباز صحابہ کرام ؓ رہ گئے تھے، دو مہاجرین اور سات انصار میں سے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کون ہے جو ان کو ہم سے دور ہٹائے گااوراس کے لیے جنت ہے (یایہ کہ)وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا؟ ایک انصاری آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپﷺ نے پھر یہی ارشاد فرمایا، ایک اور انصاری صحابی نے لبیک کہا اور اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے، یہاں تک کے ساتوں کے سات انصاری صحابہؓ یکے بعد دیگرے اپنے پیارے رسولﷺ پر فدا ہو گئے۔ ان میں سے آخری جانثار عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا باختلاف روایت زیاد بن سکن) رضی اللہ عنہ تھے جو زخموں سے چور ہو کر گرے۔ آپﷺ نے دیگر صحابہؓ سے فرمایا کہ انھیں میرے قریب لاؤ۔ پاس لائے جانے پر آپ ﷺ نے ان کا سر اپنے مبارک قدموں میں رکھ لیا، دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور جنت میں رفاقت رسولﷺ کا پروانہ حاصل کر لیا۔ بقول شاعر:
؂ سر بوقتِ ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
یہ نصیب!اللہ اکبر!لوٹنے کی جائے ہے

حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ
اس ہنگام میں جن چند صحابہ کرام ؓنےآپ ﷺ کے گردحلقہ بنا کر جانبازی و جانثاری کانادر مظاہرہ کیا حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ اس موقع پرآپ رضی اللہ عنہ نے موت پر بیعت کی، جہاں ایک طرف سرور کائنات ﷺ کی طرف چلائےگئے تیروں کو روکا، وہاںدوسری جانب کفار مکہ پر مسلسل تیر برسائے۔ آپ ﷺ کے پاس سے کوئی تیر لیے گزرتا تو آ پؐ فرماتے کہ ان کو دو کہ یہ سہل ہیں۔ جنگ سے واپس آنے کے بعد جب آپﷺ نے اپنی تلوارکی تعریف بیان فرمائی اور دھونے کے لیےحضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حوالے کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بھی اسی غرض سے تلوار ان کے سپرد کرتے ہوئے تعریفی کلمات کہے، جواباً آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے علی! اگر آج تم نے پامردی اورثابت قدمی کے جوہر دکھائیں ہیں تو سہل بن حنیفؓ اور ابو دجانہؓبھی کسی سے پیچھے اور کم نہیں رہے۔

حضرت ابو دجاّنہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ
جنگ کے آغاز میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو دجّانہ رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار عنایت فرمائی تھی۔ یہ کسی بھی صحابئ رسول ؐ کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جو اس تلوار کو حاصل کرنے کے خواہاں تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابود جّانہ نے اس تلوار کا پورا پورا حق ادا کیا جس کا انھوں نے حضور ﷺ سے عہدکیا تھا۔ جب بازی پلٹی تو یہی ابودجّانہ جو چند لمحے قبل تک کفار مکہ کے نامی گرامی شہسواروں اور جنگجوؤں کوایک ایک کر کے جہنم واصل کر رہے تھے فوراہادئ عالم ﷺکی طرف پلٹے اور اپنے آپ کو ڈھال بنا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رخ محبوب از جاں نبیﷺکی جانب جبکہ پشت (کمر) حملہ آوروں کی طرف تھی، تاکہ جو بھی تیر آئے وہ ان کے بدن میں پیوست ہو اور آپ ﷺ محفوظ و مامون رہیں۔ بلاشبہ فداکاری ہو تو ایسی ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ تیر پر تیر کھاتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلتےتھے مبادا کوئی تیر حضور ﷺ کو نقصان پہنچا دے۔ بعد میں دیکھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ کے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا۔ مگرچونکہ یہ زخم نبئ رحمت ﷺکے دفاع میں کھائے گئے تھے تو درد و الم کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ سب باعث سعادت و افتخار تھے۔ اسی دوران ایک مشرک شہسوار عبداللہ بن حمید بن زہیرگھوڑا بھگاتا ہوا حضور پر نور علیہ الصلاۃ و التلیمات کی جانب حملے کی نیت سے بڑھا، ساتھ میں کہتا جاتا تھا کہ ” میں زہیر کا بیٹا ہوں، مجھے بتاؤ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟بخدا میں انھیں قتل کر دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔”حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی توفرمایا “اے احمق! تو انھیں رہنے دے، پہلے ان کے جانثار کے ساتھ دو دو ہاتھ کر لے”۔ یہ کہا اور آگے بڑھ کر پہلے اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور پھر سر پر اس زور کا وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ آپ ﷺ   یہ منظر دیکھ رہے تھے، زبانِ رسالتؐ دعا گو ہوئی ” اے اللہ! تو بھی ابن خرشہ (یعنی ابودجانہؓ) سے راضی ہو جا جس طرح میں اس سے راضی ہوں۔” یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ شافعِ محشر ﷺ  نہ صرف اس جہانِ فانی میں اپنے ایک امتی کو اپنی رضا کا پروانہ عطا کر رہے ہیں بلکہ مالک ارض و سما کے سامنے بھی اس کے ملتجی ہیں۔ آیاممکن ہے کہ حبیب کبریا ؐ دست دعا ہوں اور وہ قبول نہ ہو؟، ہرگز نہیں!

حضرت قتادۃبن نعمان رضی اللہ عنہ
حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ احد کے دن کا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ حضور پُر نور ﷺ نے انھیں ایک کمان عطا فرمائی جس سے انھوں نے اتنے تیر چلائے کہ اس کا کنارہ ٹوٹ گیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ فرمائی اور برابر رسالت مآب ﷺ کی حفاظت کی غرض سے چہرہ کفار مکہ کے سامنے کیے رکھا۔ تیروں کی بارش میں ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لگا اور ڈھیلا ہاتھ میں آ گیا۔ لوگوں نے کہا اسے کاٹ دو، مگر آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے مشورہ کرنا بہتر سمجھا اور اسے لیے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺنے اپنے جانثار صحابی کو اس حالت میں دیکھا تو اشکبار ہوئے اور فرمایا: اگر تم صبر کرتے ہو تو تمھارے لیے جنت ہے، اور اگر کہتے ہو کہ آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ کر دعا فرما دوں تو میں دعا کر دیتا ہوں۔ حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یا رسول اللہ ﷺ میری ایک بیوی مجھے بہت محبوب ہے، کہیں اس عیب کی وجہ سے وہ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔ آپﷺ ان کا منشاء سمجھ گئے اور آنکھ کو واپس اس کی جگہ پر رکھ کر دعا فرمائی: اے اللہ! جس طرح قتادۃ نے تیرے نبیؐ کے چہرے کی حفاظت کی ہے تو بھی اس کے چہرے کی حفاظت فرمااور اس آنکھ کو دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت اور تیز نظر بنا۔ دعائے رسولﷺ نے معجزہ کر دکھایا اور آنکھ بالکل ٹھیک اور صحیح ہو گئی بلکہ پہلے کی نسبت زیادہ جاذب نظراور تیز ہو گئی۔

حضرت امّ عمارہ نسیبہ بنت کعب مازنیہ رضی اللہ عنہا
عام قاعدے اور ضابطےکے مطابق خواتین اسلام عملی جہاد و قتال میں شریک نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کا میدان جنگ میں آنافقط زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کی غرض سے ہوتا تھا۔ تاریخ میں معدودے چند واقعات ہیں جن میں کسی خاتون نے سرفروشی کا نمونہ پیش کیا، اوربلاشبہ حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا بجا طور پر ان خواتین کی سرخیل کہلائے جانے کے لائق ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو تاریخ میں “خاتون احد” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن جب مسلمانوں میں ابتری پھیلی تو آپ رضی اللہ عنہا زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ دشمن کے نرغے میں ہیں تو مشکیزہ پھینکااور تیر اور تلوار سے لیس ہو کر آپ ﷺ کے دفاع کے لیے پہنچ گئیں۔ چونکہ میدانِ جنگ میں آمد لڑنے کی غرض سے نہیں تھی تو ڈھال سے تہی دست تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو اس طرح دادِ شجاعت دیتے دیکھا تو ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ اپنی ڈھال امِٗ عمارۃؓ کو دے دیں۔ ڈھال کا ملنا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا کی بہادری اور دلیری میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اس نازک موقع پر حضرت امّ عمارہ نے نہ صرف آپ ﷺ کی طرف بڑھتے ہوئےحملوں کو روکا بلکہ تیرو تفنگ سے جانبازی کا بخوبی حق ادا کیا۔ابن قمیہ جو عرب کا مشہور پہلوان اورشہسوار تھا درّاتا ہوا حضور ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا اور زور دار تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں چہرہ انور میں دھنس گئیں۔ بدبخت نے ابھی دوسراحملہ نہیں کیا تھا کہ امّ عمارہ آڑے آ گئیں اور اس پر تلوار سے وار کرنے شروع کر دیے، چونکہ ابن قمیہ دو زرہیں پہنےہوئے  تھا اس لیے اسےفرق نہیں پڑا، جوابا ًاس نے زور دار تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہا کے کندھے میں گہرا زخم ہوا اور گڑھا پڑ گیا۔ بعد میں زخموں کا شمار کیا گیا تو آپ رضیاللہ عنہا کوبارہ یا تیرہ زخم آئے تھے۔ اسی جانفروشی کے سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: احد کے دن میں جدھر بھی دیکھتا، میں اپنے دائیں اور بائیں امّ عمارہ کو دفاع کرتے ہوئے پاتا۔ نیزیہ بھی فرمایا کہ احد کے دن امّ عمارہ نے فلاں فلاں سے بڑھ کر بہادری دکھائی۔ جنگ کے اختتام پر آپ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حبیبﷺ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ جنت میں ہمیں (خاندان کو) آپ ﷺ کی معیت نصیب ہو۔ آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے : یا اللہ! ان کو جنت میں میرا قرب نصیب فرما دے۔ حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا اس دعا پر اتنا خوش ہوئیں کہ کہا : اب دنیا میں کوئی بھی مصیبت آئے پروا نہیں ہے۔ واقعی جس کواس حیات فانی میں ہی حضور خاتم الانبیاءﷺ کے ابدی ساتھ کی نوید مل جائے ، اس کے لیے بھلادنیا کی مشکلات اور مصائب کیا معنی رکھیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply