رحمتوں کا تہرا قتل۔۔محمد وقاص رشید

وہ ہماری فیکٹری میں ایک ملازم تھا۔ کبھی کبھار اس سے آمنا سامنا ہوتا تو ایک کرختگی سی اس کے چہرے سے عیاں ہوتی جس پر اسکے اس روئے زمین پر بچی کھچی انسانیت کو زندہ درگور کرتی بہیمانہ بربریت نے مہر ثبت کر دی۔ ۔کیا لکھوں کہ ہاتھ تو کیا روح کانپتے لگتی ہے۔ لفظ یوں ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں جیسے اس بھیانک بھیڑیے کا ساتھ انسانیت نے نہ جانے کب سے چھوڑ رکھا تھا۔
ہائے ہائے سانحات کی عادی قوم میں اب تو احساس کے جوہڑ میں چند لمحوں کا ارتعاش تب پیدا ہوتا ہے جب سانحہ اپنے قرب میں پیش آئے یا پھر کسی سوشل میڈیا ٹرینڈ کا حصہ بن جائے۔ وگرنہ ہمارے سماجی جمود کی تنزلی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دور یا گمنام سانحات و حادثات ہمارے لیے معمول کی بات ہیں ۔۔

سوچتا ہوں خدا کے حضور پہنچ کر ان تینوں معصوم فرشتہ صفت پریوں نے رب ذوالجلال سے کیا کہا ہو گا۔۔۔کہ اے خدا سنا تھا کہ ہم تیری جانب سے زمین  پر رحمت بنا کر بھیجی جاتی ہیں۔۔۔اے ہمارے رب یہ کیسی رحمت ہے،جو خود رحم کو ترستی ہے۔ یہ کیسی رحمت ہے کہ جن کے آنگن میں تو اس رحمت کو اتارتا ہے ان پر ہماری اطلاع ماں کے لئے عمر بھر کا طعنہ اور باپ کے لیے روح کا اک تازیانہ بن جاتی ہے۔  یہ کیسی رحمت ہے جو خود اپنے باپ کی مسکراہٹ کو ترستی ہے۔ یہ کیسی رحمت ہے کہ جس سے رحمت ہونے کے احساس چھیننے کے لیے الٹراساؤنڈ کروائے جاتے ہیں۔ جس کو بیٹے کی حسرت میں اس رحمت کو یوں سہنا پڑتا ہے کہ کوئی زحمت کیا ہو گی جو یہ رحمت ہے۔۔

سوچتا ہوں زندہ درگور ہوتی بیٹیوں کے عہد میں بیٹی کو اللہ کی رحمت کے درجے پر فائز کرتے عالی مرتبت دربارِ رسالت ﷺ  میں پہنچ کر ان ننھی پریوں نے کیا کہا ہو گا ۔۔ کہ یا رسول اللہ وہ زمانہ جاہلیت اس عہد سے بہتر تھا کہ تب تو پیدا ہوتے ساتھ مار دیتے تھے۔ جب نہ ماں کی پہچان نہ باپ کی ۔ مگر ہم تو آپ کی امتی بیٹیاں اپنے باپ کے سامنے یہ ننھے ننھے ہاتھ باندھتے گولیوں سے چھلنی کر دی گئیں۔  اس سے اپنے رحمت ہونے کی بھیک مانگتے ہوئے۔۔۔یارسول اللہ ہمارا قصور کیا تھا؟ ۔آپ کے امتی ہمارے باپ کا وہاں ہمارا اپنی گڑیاؤں سے کھیلنا کیوں برداشت نہیں ہوا۔ ہم تو اسکی گڑیارانیاں تھیں اگر وہ ہم سے اتنی بھی محبت نہیں کر سکتا تھا جتنی ہم اپنی گڑیاؤں سے کرتی تھیں تو ہمیں پیدا ہی کیوں کیا تھا اس نے ؟

سوچتا ہوں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور بہت سے ایسے باپوں کو دیکھتا ہوں کہ جن کی بیٹیوں کے پاؤں میں چبھنے والا کانٹا انکے دلوں کیا روحوں میں چبھتا ہے تو یہ کیسا باپ تھا جس نے اپنے مکروہ ہاتھوں سے۔ ۔۔او خدایا چشمِ تصور سے وہ منظر سوچتا ہوں تو آنکھوں میں خون کے آنسو کچوکے لگانے لگتے ہیں۔۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس بے رحم درندے نے اپنی سوچ کو اس بہیمانہ سماج کے ہاتھوں میں یوں رہن رکھا ہو گا کہ اسکا ظرف خدا کی ان رحمتوں ان بیٹیوں پر پدری شفقت تو کیا انسانی رحمدلی سے بھی عاری ہو کر ایک بے حس خونخوار بھیڑیا بن چکا ہو گا۔  ورنہ
جب اسکے پراگندہ ترین پتھر دل میں اپنی تینوں بچیوں کے ننھے ننھے تتلیوں کے پروں جیسے جسموں کو ادھیڑتی گولیاں داغنے کا خیال آیا ہو گا تو انہوں نے پہلے شاید ہنس کر سوچا ہو گا کہ ہم تو رب کی رحمت ہیں ہمیں خود اپنا باپ کیسے یوں مار سکتا ہے۔۔ان کے معصوم ذہنوں نے شاید سوچا ہو گا کہ بابا ہم سے چور سپاہی کھیل رہے ہیں۔۔۔ مگر پھر اپنی منتیں کرتی اور زمین پر پٹخ دی جاتی جنت کو گڑگڑاتے ،اپنی زندگیوں کی بھیک مانگتے تڑپتے دیکھ کر وہ بھی باپ نما وحشی درندے کے پیروں میں گری ہونگی۔۔۔اپنے بھائی کے لیے دعائیں مانگتے ننھے ننھے ہاتھوں کو جوڑ کر منتیں کی ہوں گی کہ کچھ عرصہ ابھی اپنی گڑیاؤں سے کھیل لینے دے اپنی گڑیا رانیوں کو۔۔۔ایک بہن کے ننھے سر سے نکلتے اور اسکے ریشمی بالوں کو بھگوتے خون کے فوارے کو دیکھ کر باقی دونوں سہم کر بھاگی ہونگی۔ منمنائی ہوں گی۔۔۔گڑگڑائی ہوں گی۔۔۔۔ پھر دوسری بہن کے معصوم گال اور چہرے کو ادھیڑتی گولی جب پار ہوئی ہو گی تو آخری بچ جانے والی خدا کی رحمت نے آسمان کی طرف دیکھا ہو گا۔۔۔۔ اپنی دونوں بہنوں کی نزع کی ہولناک سسکیاں ہچکیاں اور ابلتے خون کو دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئی ہو گی اور اسکی آواز اسکے حلق میں دب گئی ہو گی تجھی سے زندگی پا کر تیرے ہی ہاتھوں سے چند لمحوں میں ملنے والی موت سے پہلے اس نے ایک نگاہ تیری طرف اٹھائی ہو گی۔اس نگاہ میں اپنے باپ ،اپنی ماں ،اپنے سماج ،اپنے بخت اور اپنے خدا سے سہمے ہوئے شکوے پر بھی تجھے ترس نہیں آیا رحم نہیں آیا تیرا دل نہیں پسیجہ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرے سینے میں دل نہیں انسانیت کی قبر کا کتبہ جڑا ہے۔۔۔۔ جس پر بے رحمی کی یہ اندوہناک عبارت تو نے ہر اس لمحے میں ثبت کی جب اپنی بیٹیوں کے وجود کو بوجھ سمجھا۔۔ معلوم نہیں تجھے اس ریاست کا قانون کوئی سزا دیتا ہے یا نہیں لیکن اے ہر بیٹی کے مجرم اے ہر باپ کے مجرم اے انسانیت کے مجرم اے خدا کے مجرم۔۔۔۔۔خدا تجھے ایک ایسی عبرت بنائے۔۔۔کہ تجھ سے سبق پا کر یہ سماج ایک بیٹی کے وجود کو بوجھ سمجھنا بند کر دے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل سے اس پورے علاقے میں ہر آنکھ اشکبار ہے رحمتوں کے تہرے قتل پر ہر دل گھائل ہے۔۔اپنی گڑیاؤں کے فراکوں جتنے کفنوں میں ملبوس تاابد نیند میں کھوئی یہ تینوں پریاں اس سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں ۔ سوچتا ہوں یہ آنکھیں یہ دل ہی تو مل کر سماج بنتا ہے۔ تو ان آنکھوں کو رونے اور دلوں کو گھائل ہونے کے لیے سانحات کا انتظار کیوں رہتا ہے۔ کیوں نہ ہم ان فرسودہ اور بے رحم روایات کو اپنے آنسوؤں میں زندہ درگور کر دیں جن سے یہ بربریت اور درندگی جنم لیتی ہے۔۔۔ ہمیں بیٹا چاہیے چاہے اس انسانیت کے قاتل جیسا ہی کیوں نہ ہو۔۔آئیے ان روتی آنکھوں سے اپنے ارد گر د دیکھیں اور کسی بیٹیوں کی محرومیوں پر جیتے جی رو لیں تاکہ شاید ہم پر خدا کی رحمت اترے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply