محبتِ حسین/زید محسن حفید سلطان

اللہ اکبر!
کیا منظر ہوتا ہوگا کہ صف در صف رب کے چیدہ چنیدہ بندے نماز پڑھ رہے ہیں ، امامت کے فرائض کائنات کی عظیم ترین ہستی جنابِ رسالت مآب ﷺ انجام دے رہے ہیں ، پچھلی صفوں میں امہات المؤمنین ، بنات الرسول اور صحابیات جلیلات بھی صف آراء ہیں ، تکبیرِ امام کے ساتھ فرشتوں کی تکبیر ہوتی ہے تو تأمینِ مامومین کے ساتھ تأمینِ ملائکہ مل رہی ہے ، قیام ایسا کہ بنیان مرصوص کی مانند، رکوع ایسے کہ چاک و چوبند ہونے کی صدا دیں اور سجدے ایسے کہ رب کائنات کے قریب تر کر دیں، ایسا ہی سجدہ کرتے کرتے امام المرسلین ﷺ کی پیٹھ پر مستقبل کا عظیم شاہسوار سواری کرنے لگ جاتا ہے ، آپ سجدے طویل کر دیتے ہیں ، اتنے طویل کہ شمع رسالت کے پروانے پریشان ہو جائیں ، دلوں کو ایک خوف آ لے ، نہاں خانوں میں کھلبلی مچ جائے کہ اتنے میں رسولِ کریم ﷺ اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھاتے ہیں ، سلام پھیرتے ہیں صحابہ کی پریشانی کو بھانپ لیتے ہیں تو گویا ہوتے ہیں:
“جنت کا یہ شہزادہ میری پیٹھ پر سوار ہو گیا تھا تو سجدہ طویل کر دیا”

سوار اور سواری کا یہ تانہ بانہ جاری رہتا ہے ، کبار صحابہ بھی ننھے نواسوں سے لاڈ اور پیار پر رشک کرنے لگ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک صحابی تو کہہ اٹھتے ہیں کہ: “کیا ہی شاندار سواری ہے” حبیبِ کبریا ﷺ بات سنتے ہیں تو فرماتے ہیں: “سوار بھی تو دیکھو کتنا عمدہ ہے”

اللہ اکبر!
لاڈ اور پیار کی کیا کیا مثالیں بیان کی جائیں ، کون کون سے طریقے بتائے جائیں ، یقین جانیں اگر بادشاہ بھی یہ سب دیکھ لیں تو عش عش کر اٹھیں ، مائیں بھی سن لیں تو واہ واہ از خود زبان پر جاری ہو جائے ، کبھی رسولِ رحمت ﷺ گود میں اٹھا رہے ہیں تو کبھی پیٹھ پر سوار کر رہے ہیں ، کبھی از راہِ محبت نواسوں کی خوشبو سونگھ رہے ہیں تو کبھی فرطِ محبت میں لبوں کو چوم رہے ہیں  ۔
سچ بتائیے محبت کے یہ انداز کہاں ملیں گے آپ کو؟
کبھی سونگھنا ، کبھی چومنا  ۔اسی لئے امام نووی نے پوری اربعین نوویہ جمع کر لی ، چالیس سے زیادہ صحابہ کرام کے نام ذکر کر کے حدیث بیان فرمائی لیکن جب جنابِ نواسۂ رسول ﷺ حسین رضی اللہ عنہ سے روایت بیان فرماتے ہیں تو کہتے ہیں:
“سِبْطُ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ وَرِيْحَانَتُهُ”
“جو رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور ان کی خوشبو ہیں”

اور یہ محبت ایسی نہیں کہ صرف جز وقتی ہو ، صرف دنیا کی زندگی میں ہو بلکہ وہ تو ایسے بادشاہ کے نواسے تھے جو “سید ولد آدم” ہیں ، تمام انسانیت کے سردار پھر بھلا نواسوں کو کوئی مقام کیوں نہ ملے؟
پھر رتبہ بھی ایسا ملا کہ جس میں ہمیشگی ہے ، جس مقام پر جنتی بھی سبحان اللہ کہہ اٹھیں ، اور وہ ہے “جنت کی سرداری” ، جی ہاں حسنین کریمین جنت کے سردار ہیں اور جناب حسین تو وہ عظیم ہستی ہیں جن سے رسولِ کریم نے از خود محبت کر کے دکھائی اور پھر لوگوں کو بھی حسین سے محبت کا درس دیتے ہوئے اس محبت کو ربِ کریم کی محبت گردانا ہے ، چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:
“مَنْ أحَبَّہُ أحَبَّہُ اللّٰہُ”
“جس نے حسین سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی”

Advertisements
julia rana solicitors

پھر کہہ دو نا!
رضی اللہ عنہ ورضا عنہ

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply